میں بھی کبھو کسو کا سر پرغرور تھا
ثناءاللہ صادق تیمی
دنیا عبرت سرائے ہے ۔ دل کی آنکھ اگر کھلی ہوئی ہو تو انسان کبھی بھی کسی بھی رفعت پر اترانے کی غلطی نہیں کرے گا ۔ کل جن کے اشاروں پر دنیا ناچتی تھی آج وہ خود دوسروں کے اشاروں کے محتاج ہیں ۔ شاہ جہاں جب بادشاہ رہے ہوں گے تو ان کا کیا کروفر رہا ہوگا اور جب انہیں خود اپنے ہی فرزند کے ہاتھوں قیدوبند کی زندگی گزارنی پڑی ہوگی توکیا قیامت ان پر گزرتی رہی ہوگی ، صاحبان شعور اس کا اندازہ کرہی سکتے ہیں ۔میرتقی میر نے اپنے عہد کا نقشہ کھینچا ہے ، کس طرح دیکھتے دیکھتے صاحبان اختیار بے بس ہوگئے اور رفعت وبلندی کی علامت رہنے والے لوگ ذلت ومسکنت کا استعارہ بن گئے ۔
شہاں کہ کحل جواہر تھیں خاک پاک جن کی
انہیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
میر نے زندگی کی ا س حقیقت کو دوسری جگہ بڑی خوبی سے بیان کیا ہے اوربہت ہی اثر خيز منظر خلق کیا ہے ۔ فرماتے ہیں ؛
کل پاؤں ایک کاسئہ سر پر جو آگيا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پرغرور تھا
اس دنیا میں تغیر کو ہی بس ثبات ہے ۔ بقیہ ساری چيزیں بدلتی رہتی ہیں۔ اقبال نے بڑے تجربے کی بات کہی ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
اس اصول کا تعلق زندگی کے کسی ایک خا ص شعبے سے نہیں بلکہ تمام شعبوں سے ہے ۔ آج سے صرف تیس چالیس سال پیچھے چلے جائيے اور مختلف میدانوں کو نظر میں رکھ لیجیے ۔ کل سیاست ، صحافت ، ادب ، خطابت ، ڈرامہ اورتجارت وغیرہ میں جن کا طوطی بولتا تھا ، آج وہ کہاں ہیں ؟کتنے لوگ انہیں یاد کرنے والے ہیں ؟ جن نظریوں کو لے کر خود کو لوگ کیا کیا سمجھتے تھے آج ان نظریوں سے وابستگی کس طرح ذہنی پستی کی علامت بن گئی ہوئی ہے ؟ دیکھ لیجیے کہ کل جن سے مجلسیں آباد رہتی تھیں آج وہ مجلسی زندگی کے لیے کیسے ترس رہےہیں اور کوئی پوچھتا نہيں ۔
پھرتے ہیں میر خوا ر کوئی پوچھتا نہیں
اس دنیا کا کاروبار اسی طرح جاری ہے ۔ اللہ پاک کی سنت اور قانون کے مطابق یہ سب ہورہا ہے ۔ وتلک الايام نداولھا بین الناس ۔ ہم نادان لوگ ایام شباب کی گرمی میں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن یہ قوی مضمحل بھی ہوں گے ، اقتدار کی چمک اور اس کی شان وشوکت میں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن اس کی رسی ڈھیلی بھی پڑے گی ، کسی منصب پر بیٹھتے ہیں تو یاد ہی نہیں رہتا کہ جب یہ منصب ہم سے پہلے والے کے لیے سرمدی ثابت نہیں ہوا تو وہ ہمارے لیے ہمیشہ کیسے باقی رہے گا ؟
دنیا ہم سے آپ سے نہیں ہے ۔ ہمارے بعد بھی لوگ آئیں گے اور دینا بستی رہے گی ۔ بعد میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں کی جگہ لے ہی لیتے ہیں ۔ آپ نے اپنے بزرگوں کو دیکھ کر سیکھا تھا ، آج آپ کے چھوٹے آپ سے سیکھتے ہیں ، کل یہی چھوٹے اسی طرح آپ کی جگہ لے لیں گے جس طرح آج آپ نے اپنے بزرگوں کی جگہ لی ہوئی ہے ۔آج آپ اپنے جس خورد کو کسی قابل نہیں سمجھتے عین ممکن ہے کہ کل اسی خورد کے آگے آپ کو بے حیثيت ہوجانا پڑے ۔ ہر دس پندرہ سال پر ایک نئی نسل تیار ہوجاتی ہے اور وہ اپنا آئيڈیل اور ہیرو اپنے حساب سے طے کرتی ہے ۔ آج آپ جن بلندیوں پر ہیں کل کی نسل کے لیے عین ممکن ہے کہ وہ بلندیاں کسی بھی درجے میں بلندیوں کے زمرے میں نہیں آتی ہوں ۔ ادب کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہوگا کہ آج ترقی پسند تحریک بس نام بھر رہ گئی ہے جب کہ کبھی انہیں لوگوں کا دبدبہ تھا جو اس تحریک سے وابستہ تھے پھر جدیدت کا شور اٹھا لیکن آج اس کا بھی چراغ بجھ چکا ہے ۔دیکھ لیجیے نا کہ کتنی جلد نظریے تک اپنی پکڑ کھودیتے ہیں !!!
اس لیے ہم کہ جنہیں کل تو چھوڑدیجیے آنے والے ایک لمحے پر کوئی اختیار نہیں کہ وہ کیا کچھ لے کر آئے گا ، ہمیں یہ بالکل زیب نہيں دیتا کہ کسی بھی قسم کے غرور ، کبر ، احساس برتری کے شکار ہوں اور کسی کو کسی بھی زاویے سے کمتر دیکھیں ۔ویسے بھی نہ دولت نہ شہرت نہ صلاحیت اور نہ ہی کچھ اور ایسی چيز ہے جو سدا کے لیے ہمارے ساتھ بنی رہے ۔بشیر بدر کا شعر یاد آرہا ہے ۔
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو ، وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
نشر مکرر
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/