بیٹیوں کا مقام ومرتبہ

*بیٹیوں کا مقام ومرتبہ*

✍️فخر الحسن محمدی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان نعمتوں میں سے ایک اولاد کی نعمت ہے۔ اللہ کی نعمت اللہ تعالیٰ کی چاہت اور مشیئت کے مطابق ہی ملتی ہے ۔ انسان کی چاہت ومرضی کے مطابق نہیں ملتی ہے ۔ کسی کو بیٹے دئے ، کسی کو بیٹیاں تو کسی کو بیٹے بیٹیاں ، کسی کو زیادہ اولاد سے نوازا تو کسی کو کم۔ اور کسی کو اولاد کی نعمت سے محروم کر دیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے بجز راضی رہنے کے سوا کوئی اور راہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر اولاد کی الفت و محبت کی آرزو ڈال دی ہے ، انسانی زندگی کے رونق اولاد ہی کے ذریعے قائم ودائم ہے اور اگر اولاد نہ ہو تو اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔ انسان اولاد کے حصول کے لیے نکاح کرتا ہے ، گھر بساتا ہے محنت ومشقت کرتا ہے ، تگ ودو کرتا ہے ، دولت جمع کرتا ہے ، لیکن اولاد کے حصول میں انسان عاجز ہے ، اس کا مکمل اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، چاہے تو کسی کو بیٹے سے نوازے اور کسی کو بیٹیاں ، تو کسی کو بیٹے بیٹیاں ، لیکن بیٹیوں کی ولادت پر اظہار افسوس نہیں کرنا چاہیے ۔ بیٹیوں کی ولادت پر افسردہ ہونا کافروں کی مذمت صفات میں سے ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو کمتر سمجھنے کا ایک منفی احساس پایا جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو کمتر سمجھتے ہیں یا پھر ایک طرح سے امتیازی سلوک بھی کرتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں بیٹیوں کو چھوڑ کر بیٹوں کی ولادت پر مبارک بادی اور بہت زیادہ خوشیاں مناتے ہیں۔ حالانکہ یہ طریقہ جاہلیت میں سے ہے ۔ یا تو دونوں کی ولادت پر مبارک بادی دی جائے یا دونوں موقعوں پر خاموشی اختیار کی جائے ۔ بیٹیاں اسلام کی نظر میں ایک قیمتی متاع اور قیمتی دولت ہے۔

قارئین کرام:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرما: ” لله ما في السموات والأرض يخلق ما يشاء يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور”
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں، جسے چاہتے ہیں بیٹیاں عطا کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں، بیٹے عطا کرتے ہیں۔( سورہ شوری: 49
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کے دینے کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔

امام ابن قیم اس بارے میں نقل کرتے ہیں کہ:
میرے نزدیک اس کی ایک اور حکمت ہے اور وہ یہ ہے، کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بیٹیوں کو مقدم کیا ہے، جن کو اہل جاہلیت مؤخر کرتے تھے، گویا کہ یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ تمہاری طرف سے نظر انداز کی ہوئی یہ حقیر قسم میرے نزدیک ذکر میں مقدم ہے۔
(تحفۃ المودود باحکام المولود ص: 24,25)

اللہ عزوجل نے مشرکوں کی ایک بری عادت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَإذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهه مُسْوَدًّا وَّ ھُوَکَظِیْم
یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِه أیُمْسِکُه عَلٰی ھُوْنٍ أمْ یَدُسُّه فِی التُّرَابِ الَاسَآء مَا یَحْکُمُوْنَ ( سورۃ النحل: 58,59)

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے، تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے، اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ اسے دی گئی بشارت کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ آیا ذلت کے باوجود اس کو [اپنے پاس] رکھ لے یا اسے مٹی میں دفن کر دے۔ آگاہ رہو ، کہ ان کا فیصلہ بڑا بُرا ہے.
اۓ مسلمانو! اللہ کے لیے بیٹی کی پیدائش پر غمزدہ نہ ہوا کرو بلکہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے ۔ اور اس کے پیدا ہونے سے رزق میں کمی نہیں آتی فراوانی آتی ہے ۔

امام ابن القیم لکھتے ہیں: بیٹیوں کی ولادت پر خفا ہونا جاہلانہ عادات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اپنے ارشاد عالی میں مذمت فرمائی ہے۔ ( تحفۃ المودود باحکام المولود : 25).
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص ان کے پاس آتا اور آکر ان سے کہتا کہ میرے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی ہے، تو امام احمد بن حنبل ان کو خوشخبری سناتے اور حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ” الأنبياء كانوا آباء بنات” انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے ۔ اس سے ان لوگوں کا غم ہلکا ہو جاتا ۔
بیٹیوں کے ساتھ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل دیکھیے:

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جب نبی کریم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے پاس آتیں تو آپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کھڑے ہو کران کی طرف متوجِّہ ہو تے ، پھر اپنے پیارے ہاتھ میں اُن کا ہاتھ لے کراُسے بوسہ دیتے پھر اُنہیں اپنی جگہ بٹھا تے۔ اسی طرح جب نبی کریم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم حضرت بی بی فاطِمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ، آپ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چُومتیں اورآپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداود ،حدیث: 5217)

امام ابن القیم بیٹی اور بیٹے دونوں کی ولادت پر مبارک باد دینے کے متعلق بیان کرتے ہیں:
آدمی کے لیے جائز نہیں ، کہ بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دے اور بیٹی کی ( پیدائش پر) مبارک باد نہ دے، بلکہ وہ یا تو دونوں کی (پیدائش پر) مبارک باد دے یا دونوں پر نہ دے ، تاکہ وہ طریقہ جاہلیت سے بچ جائے ، کیونکہ ان کی اکثریت بیٹے کی (پیدائش پر) مبارک باد دیتی تھی اور بیٹی کی ولادت کی بجائے اس کی وفات پر مبارک باد دیتی تھیں۔ ( احکام المودود باحکام المولود : 34).

نیک بیٹیوں کا ثواب اور امید میں بیٹوں سے بہتر ہونا۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
“الْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَة الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ اَمَلًا ( سورۃ الکہف: 46).
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقیات صالحات آپ کے رب کے ہاں ثواب میں اور امید کی رُو سے زیادہ اچھی ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے الباقیات الصالحات کو ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا۔ (الباقیات الصالحات)سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ امام عبید بن عمیر کے قول کے مطابق ان سے مراد نیک بیٹیاں ہیں۔ علامہ قرطبی نقل کرتے ہیں، کہ انہوں نے آیت شریفہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: “یَعْنِي الْبَنَاتِ الصَّالِحَاتِ ھُنَّ عِنْدَ اللّٰه لِآبَائِھِنَّ خَیْرٌ ثَوَابًا، وَخَیْرٌ أَمَلًا فِيْ الْآخِرَۃِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ”
یعنی نیک بیٹیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے احسان کرنے والے باپوں کے لیے آخرت میں ثواب اور اچھی امید کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس بات کی خبر دی ہے، کہ احسان کرنے والے باپ کے لیے بیٹیاں دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی، اور ان کو جنت میں داخل کروائیں گی ۔
اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مَنْ کَانَ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاهنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِه کُنَّ لَه حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَة۔‘( رواہ البخاری فی الادب المفرد:رقم 76).
جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی).

2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا واقعہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مَنْ ابْتُلِي مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَه سِتْرًا مِنَ النَّارِ” ( متفق علیہ)
جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے (جہنم کی) آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹیوں کے لئے ایثار کرنے والی والدہ بھی وجوب جنت اور آزادی جہنم اور رحمت الہی کے مستحق ہوں گی۔
بیٹیاں جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے وہیں والدین کے لئے نجات کا باعث اور جنت کے حصول کا ذریعہ بھی ہوتی ہے ۔
3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مَا مِنْ مسلم یکون لَه ابْنَتَانِ فَیُحْسِنُ إِلَیْہِمَا، مَا صَحِبَتَاہُ، أَوْ صَحِبَہُمَا، إِلَّا أَدْخَلَتَاہُ الْجَنَّة” ( رواہ البخاری فی الادب المفرد رقم: 77).
کوئی شخص ایسا نہیں، کہ اس کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ دونوں جب تک اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ احسان کرتا رہے، مگر وہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروا دیں گی۔

اگر کسی شخص کی صرف ایک بیٹی ہو تو وہ بھی بالکل نا امید نا ہو، بلکہ اس کے ساتھ احسان کرتا رہے، تو وہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کروا دے گی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنْ کَانَ لَه ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَی لَآوَائِهنَّ وَضَرَّائِهنَّ وَسَرَّائِهنَّ أَدْخَلَه الْجَنَّة بِفَضْلِ رَحْمَتِه إِیَّاھُنَّ”
جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی شدت، سختی اور خوشی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ ان (بیٹیوں) پر اس کی شفقت کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرما دیں گے۔
ایک شخص نے عرض کیا: “أَوِ اثْنَتَانِ یَا رَسُوْلَ اللّٰه؟”
یا رسول اللہ! یا دو بیٹیاں ہو (یعنی اگر تین کی بجائے دو بیٹیاں ہوں تو)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أَوِ اثْنَتَانِ” یا دو (یعنی دو بیٹیاں ہوں، تو وہ دو بھی اس کو جنت میں داخل کروانے کا سبب بنیں گی۔)
پھر اس آدمی نے عرض کیا: “أَوْ وَاحِدَۃٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰه؟” یارسول اللہ! یا ایک؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أوْ وَاحِدَۃٌ” ( یا ایک ہو پھر بھی) ۔ ( رواہ أحمد فی مسندہ، رقم الحدیث ۸۴۲۵).
یعنی اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک بیٹی ہو تو وہ بھی قیامت کے دن اپنے باپ کو جہنم میں جانے سے رکاوٹ بن جائے گی ۔

اسی طرح دو بیٹیوں کے سرپرست کو روز قیامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میسر ہوگی ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتَّی تَبْلُغَا جَاء یَوْمَ الْقِیَامَة أَنَا وَھُوَ ہکذا” وَضَمَّ أَصَابِعَہُ۔( رواہ مسلم)
جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح۔‘‘
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملایا۔
بیٹیاں اپنے سرپرست کے لئے جنت میں دخول کا سبب بنیں گی۔ اس سلسلے میں تاریخ میں ایک دلچسپ واقعہ ملتا ہے جس کو عبد المالک مجاہد حفظہ اللہ نے اپنی کتاب “سنہری کرنیں” میں ذکر کیا ہے ۔

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناں چہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور۔

رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعة
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔

اس لئے جن لوگوں کا قضا وقدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ سرا سر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ایسی صورت میں ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ تعالی کی قضا وقدر پر راضی ہو اللہ تعالی نے سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے؛ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآؤ اِِنَاثًا وَّیَهبُ لِمَنْ یَّشَآء الذُّکُوْرَ۔
اۓ مسلمانوں!
اللہ کے واسطے بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھو ، یہ گھر کی رونق ہے ، یہ خاندان کی زینت ہے، والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ بیٹا اگر نعمت ہے تو بیٹیاں یقینا رحمت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے اور بیٹیوں کے مابین انصاف قائم کرنے کی توفیق دے آمین ۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *