سرقہ نویسی ۔ اخلاقی وقانونی جرم

سرقہ نویسی ۔ اخلاقی وقانونی جرم
از: سلمان ابوصالح جامعی

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الكريم أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد۔
کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرماں رواؤں پر بٹھاتا ہے قلم

لفظ قلم عربی زبان کا لفظ ہے جو ” قلم (ض) القلم ونحوه” سے مشتق ہے جس کے معنیٰ کاٹنا، تراشنا،قلم کی نوک بنا نا وغیرہ (القاموس الوحيد از وحید الزماں قاسمی:1350)
چونکہ زمانئہ قدیم میں قلم تراش کر ہی قلم سازی کی جاتی تھی اس لئے آلہ کتابت کو بھی قلم سے تعبیر کیا جاتا ہے.

قلم علم وعرفاں اور ثقافت انسانی کی ارتقاء کا وسیلہ ہے،
بیابانوں اور غاروں میں بسیرا کرنے والا منش قلم ہی کی طاقت سے وحشیانہ اور بدویانہ زندگی کے خول سے نکل کر مہذب دنیا میں داخل ہوا.
اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی پہلی وحی کے اندر قلم کا ذکر فرما کر اس کی اہمیت وافادیت کو طشت از بام کردیا ہے:
ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِی خَلَقَ خَلَقَ ٱلۡإِنسَـٰنَ مِنۡ عَلَقٍ ٱقۡرَأۡ وَرَبُّكَ ٱلۡأَكۡرَمُ
ٱلَّذِی عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَـٰنَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ(العلق:1-5)
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،جس نے انسان کو خون کےلوتھڑے سے پیدا کیا،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا،جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
قرآن کریم اور ذخیرہ حدیث کو قلم کے ذریعے لکھ کر ہی محفوظ کیا گیا،نبی کریم ﷺ نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں وقت کے حکمرانوں کو قلم کے استعمال سے ہی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق رب کائنات کی سب سے پہلی تخلیق “قلم” ہی ہے :إنَّ أولَ ما خلق اللهُ القلمُ(صحيح ابوداؤد:4700)
معراج کے موقع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم کے چلنے(قلم کے لکھنے) کی آواز سنی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
ثُمَّ عُرِجَ بِی حَتّٰی ظَهرْتُ لِمُسْتَوَی أَسْمَعُ فِیْه صَرِیْفَ الْأَقْلَامِ(صحیح بخاری:349)
’’ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی ۔‘‘
یعنی جہاں فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور اس کے احکامات لکھ رہے تھے مجھے وہاں تک لے جایا گیا ۔(زاد الخطیب ازڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد :278)
اس کی اہمیت کو دوچند کرنے کیلئے یہی بات کا فی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں اس کی قسم اٹھائی ہے:نۤۚ وَٱلۡقَلَمِ وَمَا یَسۡطُرُونَ
(القلم:1) ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ قلم کاری ایک مہتم بالشان فن ہے لہٰذا شریعتِ اسلامیہ کسی قلم کار کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی تحریر یا عبارت کو اپنے نام سے شائع کرے یا بغیر کسی احالہ کے اپنے مضمون یا کتاب کا حصہ بنا لیں، جس کے باعث قلم کی تاثیر اور برکت سلب ہو جاتی ہے اور ایسی تحاریر ومضامین کا نام ونشاں تک باقی نہیں رہتا لہٰذا سرقہ نویسی شرعی اعتبار سے بھی جرم ہے اور قانون ہند کی روشنی میں بھی ایک جرم ہے.

اس مضمون میں درج ذیل عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے :
أ۔ سرقہ نویسی کی تعریف
ب۔ سرقہ نویسی کی تاریخ
ج۔ سرقہ نویسی کی مذمت قرآن وحدیث کی روشنی میں
د۔ سرقہ نویسی کی مذمت اقوال سلف کی روشنی میں
ھ – سرقہ نویسی آئین ہند (Indian constitution) کی نظر میں
و۔ سرقہ نویسی میں موجود شرعی قباحتیں

أ- سرقہ نویسی کی تعریف
ادبی دنیا میں دوسروں کی علمی وتحقیقی باتیں اپنی جانب منسوب کرنا یا بغیر حوالہ کے اپنی کتاب یا مضمون میں جگہ دینا “علمی سرقہ” کہلاتا ہے.
“سرقہ” چوری چکاری کے معنی میں معروف اور متداول ہے
سرقہ باب (ض) سے مصدر ہے، امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:السرقة – اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لینے کے ہیں جس کے لینے کا حق ہی نہ
ہو(مفردات القرآن للراغب:193/1)
امام زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اہل عرب کے نزدیک سارق سے مراد وہ شخص ہے جو خفیہ طور دوسروں کے مال کو محفوظ جگہ سے حاصل کرے(تاج العروس للزبيدي:13/213)
اردو کی مشہور لغت فرہنگ آصفیہ میں سرقہ کی تعریف یوں درج ہے: (علم معانی میں ) دُوسرے کے کلام یا مضمون کو (بغیر ماخذ بتائے ہوئے) اپنے کلام میں شامل کرلینا
(https://xn--mgbqf7g.com/%D9%81%D8%B1%DB%81%D9%86%DA%AF/35830)

عربی زبان میں علمی سرقہ کے لئے “الإنتحال العلمي” کا لفظ مستعمل ہے
عربی لفظ انتحال کسی کے قول یا شعر کو اپنی طرف منسوب کرنے کے معنیٰ میں مستعمل ہے، امام ابن منظور رحمہ اللہ لسان العرب میں اس کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں:
إنتحل فلان شعر فلان. أو قال فلان إذا ادعاه أنه قائله. وتنحله: ادعاه وهو لغيره -ونحله القول ينحله نحلا: نسبه إليه. ونحلته القول أنحله نحلا، بالفتح: إذا أضفت إليه قولا قاله غيره وادعيته عليه…..
ويقال: نحل الشاعر قصيدة إذا نسبت إليه وهي من قيل غيره(لسان العرب لإبن المنظور:650/11)
یعنی “إنتحل فلان شعر فلان” کا معنیٰ یہ کہ جب کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ شعر اس کا ہے حالانکہ وہ شعر اس کا نہ ہو
“نحله القول” اور “نحلته القول” اس وقت کہا جاتا ہے جب کسی کا کہا ہوا قول اپنی طرف منسوب کیا جائے اور اس کے اپنے ہونے کا دعویٰ کیا جائے
اسی ضمن میں “نحل الشاعر قصيدة” اس وقت بولا جاتا ہے جب شعر کسی کا ہو اور اس کو اپنی طرف منسوب کیا جائے.

انگریزی زبان میں “plagiarism” کا لفظ مستعمل ہے
ڈاکٹر محمد فیروز الدین شاہ نے لکھا ہے کہ “Joseph
gibaldi” نے اس کی تعریف یوں کی ہے:
کسی کے خیالات و احساسات کو اپنی تحریر میں اس کا شکریہ یا مصدر کی نسبت ظاہر کئے بغیر استعمال کرنا سرقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے؛plagiarism کا لفظ لاطینی زبان میں
” plagiarisus” سے ماخوذ ہے ،ایک طرح سے فکری مواد کی چوری کے لئے بولا جاتا ہے
(علمی سرقہ وانتحال .. از ڈاکٹر محمد فیروز الدین شاہ کھگہ:1)

ان تمام باتوں کا فحوائے کلام یہ ہے کہ دوسروں کی علمی وتحقیقی باتیں اپنی جانب منسوب کرنا یا بغیر حوالہ کے اپنی کتاب یا مضمون میں جگہ دینا “علمی سرقہ” کہلاتا ہے

ب- سرقہ نویسی کی مختصر تاریخ

علمی سرقہ اور علمی بد دیانتی کی تاریخ بہت پرانی ہے دراصل اس کا دارومدار اخلاص اور اخلاق وتربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم میں بھی اس نو عیت کے مسائل کا پتہ چلتا ہے چنانچہ امام ابوبکر الخوارزمی رحمہ اللہ(383ھ) نےاپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ:آفة العلم خيانة الوراقين(رسائل أبي بكر الخوارزمي:150)علم کی آفت وراقین کی خیانت ہے.

اس سلسلے میں امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) رحمہ اللہ کا “الفارق بين السارق والمصنف” نامی بڑا ہی دلچسپ رسالہ ہے جو ہلال ناجی رحمہ اللہ کی تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع ہوا ہے ،دراصل یہ کتابچہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے لیکن تحقیق وتخریج کے ساتھ 68 صفحات پر مشتمل ہے.

اس رسالے کا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب کتاب نے ایک ایسے شخص کو آڑے ہاتھ لیا ہے،جس نے ان کی کتاب’’الخصائص‘‘ اور “المعجزات ” سے سرقہ کرکے ایک دوسری کتاب لکھی تھی،سرقہ کرنے والا ان کاایک معاصر تھا،جس نے ان کی یہ دونوں کتابیں ان کے بعض شاگردوں سے حکمراں خانوادے کے بعض افراد کے ذریعے سفارش کرواکے منگوائی تھی اور پھر بغیر حوالے کے ان کے مضامین کو اپنی کتاب میں شامل کرلیاتھا.

رسالے کا آغازسورہ نساء کی اس آیت کریمہ سے ہوتا ہے:إِنَّ ٱللَّهَ یَأۡمُرُكُمۡ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلۡأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰۤ أَهۡلِهَا(النساء:58) ” اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ”.

اب یہاں سے امام سیوطی رحمہ اللہ سارق کوزجرو توبیخ سے مملو اور سخت ترین الفاظ میں کہتے ہیں کہ:هل أتاک حدیث الطارق؟ وما أدراک ماالطارق؟الخائن السارق،والمائن المارق،الذی توسل إلینا بأولاد الحنفاء،وتوصل إلینا بأبناء الخلفاء،فأوسعناہ بشرا،فقابله بجفا،وعاملنا بغدرإذعاملناہ بوفا،وتطفل علینا فی الموائد،فأنعمناله بشيء ممالدینا من الفوائد،وأذنالطلبتنا أن یسمحواله بإعارۃ مصنفاتنا الدررالفرائد،إکراما لمن تشفع به من بنی العباس،وإبرامالحبل ودادهم الذي هو عندنا محکم الأساس،
وتفادیالرد شفاعة هذہ السلالة الذین هم رؤوس الأشراف وکواهل الناس،فماکان من هذاالعدیم الذوق إلا أنه نبذ الأمانة وراء ظهرہ وخان،وجنی ثمار غروسنا وهوفیما جناہ جان،وافتض أبکارعرائسنا اللائي لم یطمثهن في هذاالعصرإنس قبلنا ولاجان،وأغارعلی عدۃ کتب لنا أقمنافي جمعهاسنین‘‘.
“آپ کورات کے وقت دستک دینے والے کی کچھ خبر ہے؟
آپ کوکیا پتہ کہ وہ کون شخص ہے؟ وہ ایک خائن،چور،جھوٹا اور بد اطوارانسان ہے،جس نے کچھ شریف زادوں اور ابناء خلافت کے ذریعے ہم تک پہنچنے کی شش کی،توہم نے اس کا خوش دلی سے استقبال کیا،جبکہ اس نے تنگ دلی کا مظاہرہ کیا،ہم نے اس سے وفاداری کی،تواس نے بے وفائی کی،ہمارے دسترخوان(علم) پر طفیلی بن کر آیا،توہم نے اسے نوازا اور اپنے طلبہ کو اجازت دی کہ وہ اسے ہماری یکتاموتی جیسی کتابیں بطور عاریت دے دیں،یہ دراصل ہم نے ان لوگوں کے احترام اوران کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کو استوار کرنے کے مقصد سے کیا،جن سے اس نے سفارش کروائی تھی،ہم یہ چاہتے تھے کہ ان اَشراف واہلِ قیادت کے خانوادے کی سفارش رد نہ کریں،مگر اس بے ذوق انسان نے امانت داری کو پس پشت ڈال دیااور بدعہدی کی،اس نے مجرمانہ انداز میں ہمارے پودوں کا پھل توڑا،اس نے ہماری ایسی باپردہ (علمی)خواتین کی بکارت زائل کردی،جنھیں اس سے پہلے نہ توکسی انسان نے ہاتھ لگایاتھا،نہ کسی جن نے،اس نے ہماری کئی ایسی کتابوں پر دھاوابول دیا،جن کی ہم نے کئی سالوں میں جمع وتالیف کی تھی”. (ص:33، بحوالہ
https://qindeelonline.com/%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c-%d8%b3%d8%b1%d9%82%db%92-%d9%be%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%a7%d9%84%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%ac%d9%84%d8%a7%d9%)

اگر کوئی قلمکار یا مصنف کسی کتاب یا شیخ سے استفادہ کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تحریر میں مستفاد منہ کا حوالہ ضرور دیں
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جس نے کوئی تحقیق پہلے کی ہے اور آپ اس سے استفادہ کررہے ہیں ، تواول الذکر کا حق ہے کہ آپ اس کے تئیں احسان شناسی کا ثبوت دیں ، اپنی تحریر میں اس کا احالہ کریں،اس کی افضلیت و اولیت کو تسلیم کریں ،اس سے آپ کے علم میں برکت بھی ہوگی اور اس کی نافعیت کے امکانات بڑھ جائیں گے،ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ کی چوری کبھی بھی پکڑی جاسکتی ہے اور پھر آپ کو بسااوقات ذلت و شرمندگی کابھی سامنا کرنا پڑسکتاہے یا جس کامال آپ نے چوری کیاہے،اس کی بددعاؤں کی زدمیں آپ آسکتے ہیں(ص:41، مع حذف واضافہ، بحوالہ
https://qindeelonline.com/%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c-%d8%b3%d8%b1%d9%82%db%92-%d9%be%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%a7%d9%84%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%ac%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%b3%db%8c%d9%88%d8%b7%db%8c/)

اس سلسلے میں صاحب کتاب نے تین واقعات نقل کئے ہیں:
۱۔ امام ابوحامد اسفرائینی رحمہ اللہ (406ھ) کے بارے میں علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے نقل کیاہے کہ: ایک مجلس میں کسی کے بارے میں یہ ذکر آیاکہ اس نے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں،توامام اسفرائینی رحمہ اللہ نے کہاکہ:لاؤ،ذرامیں بھی اس کی کتابیں دیکھوں،جب انھوں نے دیکھا،توپتہ چلاکہ وہ ساری کتابیں خود امام اسفرائینی کی تصانیف سے سرقہ شدہ تھیں،یہ دیکھ کر امام اسفرائینی رحمہ اللہ کاماتھاٹھنکااور انہوں نے وہیں اس پر بددعاکی کہ “بتر كتبي بتر الله عمره” کہ اس شخص نے میری کتابوں سے کانٹ چھانٹ اور چوری کرکے اپنی کتابیں تیار کیں،اللہ اس کی زندگی کوکانٹ چھانٹ کرمختصرکردے ، لوگوں نے دیکھاکہ وہ شخص چند سال بعدہی وفات پاگیا اور اس علمی مقام و مرتبے سے محروم رہا جو اس کے بہت سے معاصرین کو حاصل ہوا.

۲۔ امام ابوشامہ عبدالرحمن بن اسماعیل (665ھ) نے لکھاہے کہ ان کی کتاب’’ البسملة‘‘ جس میں آپ نے چالیس احادیث جمع کی تھیں ، سے کئی سارے خطیبوں نے بلاحوالہ لفظ بہ لفظ نقل کرکے کتابیں مرتب کیں؛چنانچہ ان سارقین کی کتابوں سے کسی کوکوئی فائدہ نہیں ہوااور وہ کتابیں بے نام و نشان ہی رہیں

۳۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کے ایک بڑے شاگردنے ان سے تاج الدین سبکی رحمہ اللہ کی “طبقات الشافعیة الکبری” پڑھنے کے لیے مستعار لیا،ان کے پاس اس کا جو نسخہ تھا،اس پر انہوں نے جابجاحاشیہ چڑھایاتھا،اصل کتاب پر اپنے مطالعہ و معلومات کی روشنی میں اتنا اضافہ کیاتھاکہ وہ ایک مستقل تصنیف کی شکل اختیار کرسکتاتھا،ابن حجر نے اپنے اس بڑے شاگردکو وہ کتاب پڑھنے کے لیے دے دی،وہ کتاب لے کر گئے،اصل کتاب سے جو کچھ استفادہ کرنا تھا،کیا،مگر اس کے ساتھ ہی اس پر ان کے استاذ نے جو حواشی چڑھائے تھے،انہیں بھی جو کا توں اٹھالیا اور بغیر حوالہ دیے اپنی کتاب’’اللمع الألمعیة لأعیان الشافعیة‘‘ میں نقل کردیا،جب حافظ صاحب کو اس بات کا علم ہوا،توانھوں نے خط لکھ کر ان کی کلاس لگائی اورلکھاکہ:
’’فقدحرمت بذلک خیرا کثیرا،وفضلا کبیرا‘‘
تم خیرِکثیر اورانعامات و افضالِ الہی سے محروم رکھے جاؤگے
سیوطی رحمہ اللہ آگے لکھتے ہیں :’’فواللہ ماطلعت لتلک الطبقات طالعة ،ولا رآهاأکثرالناس،ولاطرق خبرهامسامعهم
وهکذاسنة اللہ فیمن أغار علی کتب المصنفین،ولم یؤدالأمانة من المؤلفین،أن یخمل ذکرہ،وذکر کتابه،ویعدم النفع به فی الدنیاإلی یوم مآبه‘‘ .
“اللہ کی قسم اس طبقات کو کوئی قبولیت نہیں ملی،نہ اکثر لوگوں نے اسے دیکھا،نہ اس کے بارے میں سنااور جو شخص دوسرے مصنفوں کی کتابوں پر ڈاکہ ڈالتاہے اور علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتاہے،اس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ اسے اور اس کی کتاب کو گم نام و بے نشان کردیتاہے اور قیامت تک کے لیے اس کی نافعیت کوختم کردیتا ہے”
۔(ص:41-44, مع حذف واضافہ ، بحوالہ مhttps://qindeelonline.com/%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c-%d8%b3%d8%b1%d9%82%db%92-%d9%be%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%a7%d9%84%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%ac%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%b3%db%8c%d9%88%d8%b7%db%8c/)

آگے مزید فرماتے ہیں کہ:جب شعر وادب کے باب میں ،جوفضیلت و مرتبے کے اعتبار سے سیرت جیسے موضوع سے یقیناً کم تر ہے،اس میں سرقہ نویسی کو برداشت نہیں کیاجاتا اوراگر کوئی شاعر یا ادیب کہیں سے سرقہ کرتاہے
تواس کی سرزنش کی جاتی ہے،اس کی ملامت کی جاتی ہے اور اسے عار دلایا جاتا ہے،توسیرت جیسے متبرک علمی موضوع پر سرقہ نویسی کو کیسے برداشت کیا جاسکتاہے؛
اس سلسلے میں صاحب کتاب نے کئ واقعات نقل کئے ہیں

۱۔ قاسم بن محمد البصری حریری (516ھ) نے مشہور زمانہ کتاب ’’مقاماتِ حریری‘‘ میں ’’الشعریة‘‘کی ایک فصل قائم کی ہے،جس میں ایک استاذاپنے طالب علم کا قضیہ لے کر والیِ حکومت کے پاس پہنچتا ہے اور اپنے شاگرد پر الزام لگاتاہے کہ میں نے اس کی تعلیم و تربیت کی اور اسے بچپن سے پرورش کرکے جوان کیا،پھر جب یہ بڑا ہوگیا ،تومجھ پر ہی ظلم وزیادتی کرنے لگا،اس کا شاگرد یہ سن کر حیرت واستعجاب میں پڑگیا اوراس نے اپنے استاذ سے کہا:شیخ !میں تو آپ کا فرماں بردار شاگرد ہوں اور کبھی میں نے آپ کے ادب و احترام میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے،تواستاذ نے کہا :اس سے بڑی نافرمانی،عیب اور برائی کیاہوسکتی ہے کہ تم نے میری تصنیف کو غصب کرلیا، میرے اشعار چوری کرکے اپنے نام سے نشر کردئے ،تمھیں معلوم نہیں کہ شعراء کے لیے ان کے اشعار کی چوری سونے چاندی کی چوری سے بھی زیادہ خطرناک ہے،وہ اپنے افکار و خیالات کی بے حرمتی کے تئیں ایسے ہی باغیرت ہوتے ہیں،جیسے اپنی کنواری بیٹیوں کی بے حرمتی کے تئیں،
یہ سن کر شاہِ وقت اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:ہلاکت ہوتمھارے لیے،تم تو ایک بداطوار فاضل اورایک چورشاگردہو!

۲۔ شہاب الدین ابن الخیمی انصاری یمنی(685ھ) اپنے زمانے کے مشہور صوفی شاعر تھے،انھوں نے ایک خانقاہ میں قیام کیااور وہاں بیٹھے بیٹھے ایک نظم لکھی،جب وہاں سے نکلے،تواپنی نظم وہیں بھول گئے،اتفاق سے ان کے بعد وہاں ایک دوسرے صاحب نجم الدین بن اسرائیل ابوالمعالی شیبانی(677ھ)نے قیام کیا،انہیں وہ نظم مل گئی؛چنانچہ انہوں نے اس نظم کو اپنے نام سے منسوب کردیا ، جب شہاب الدین یمنی کو معلوم ہوا،تووہ طیش میں آگئے،دوسرے ادیبوں ،شاعروں سے اس کا ذکر کیا اور معاملہ عمربن فارض(632ھ)تک پہنچا،جواس وقت استاد شعراءمیں شمار ہوتے تھے انہوں نے دونوں سے کہاکہ اپنی اپنی نظم سنائیں،دونوں نے سنائی،توانہیں اندازہ ہوگیا کہ نظم اصل میں ابن الخیمی کی ہے اور نجم الدین بن اسرائیل نے چوری کی ہے؛چنانچہ انھوں نے ابن الخیمی کے حق میں فیصلہ سنادیا،یہ سن کر نجم الدین نے کہا:یہ توتواردہے،توانھوں نے کہاکہ: شروع سے آخرتک توارد تونہیں ہوتا،یہ چوری ہے! (ص:46-50، بحوالہ https://qindeelonline.com/%d8%b9%d9%84%d9%85%db%8c-%d8%b3%d8%b1%d9%82%db%92-%d9%be%d8%b1-%d8%a7%d8%a8%d9%86-%d8%a7%d9%84%da%a9%d8%aa%d8%a8-%d8%ac%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%b3%db%8c%d9%88%d8%b7-2/)
امام سیوطی رحمہ اللہ نے اہل قلم کو ایک طویل نصحیت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: سارق قلم کاروں سے اپنی کتابیں چھپاکر رکھیں،ان کے ہاتھ نہ لگنے دیں اور ساتھ ہی جوشخص بھی ایسی علمی چوری میں پکڑاجائے،توبے تحاشااس کا پردہ فاش کریں؛ تاکہ کوئی دوسرا آئندہ ایسی بددیانتی کی جرأت نہ کرسکے اور اگر کوئی ایسے شخص کی حمایت میں کھڑا ہو،تواس کی بھی چتھاڑکریں؛تاکہ کوئی شخص کسی غلط کام کرنے والے کی حمایت میں کھڑا ہونے کی جرأت نہ کرے.
(الفارق بين السارق والمصنف للإمام السيوطي:50 -51)،مع حذف واضافہ)
ابوالقاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ اپنی کتاب “دفاع صحیح بخاری” میں رقمطراز ہیں کہ:
قاضی محمود بن احمد بدر الدین حنفی، جو حافظ ابن حجر (852ھ) کا ہم عصر بلکہ رشتہ دار تھا، نہایت متعصب شخص تھا، جس پر مولوی عبدالحی حنفی مرحوم کو بھی کہنا پڑا کہ:”لو لم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود و أجود ” (الفوائد البهية :76)
“اگر اس میں مذہبی تعصب کی بو نہ ہوتی، تو نہایت عمدہ شخص تھا۔”
جب حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے فتح الباری کی تالیف شروع کی، تو عینی کو نہایت حسد ہوا، لیکن خود فن حدیث میں اتنی استعداد نہیں رکھتا تھا کہ حدیث اور خصوصاً بخاری کی شرح لکھے، حافظ کے ایک معمولی شاگرد برہان بن خضر نامی کو ساٹ کر فتح الباری کے اجزاء منگواتا اور زیادہ تر اس سے اور کچھ رکن الدین احمد بن محمد قریمی کی شرح سے چرا کر عمدۃالقاری شرح بخاری تیار کرتا، جیسا کہ ملا کاتب چلپی لکھتے ہیں:
“واستمد فيه من فتح الباري بحيث ينقل منه الورقة بكمالها، و كان يستعيره من البرهان بن خضر، وتعقبه في مواضع ، وطوله بما تعمد الحافظ ابن حجر حذفه من سياق الحديث بتمامه …الخ
(كشف الظنون للحاجي خليفة:367/1 مصری )
” اور عینی نے اپنی شرح میں فتح الباری سے مضامین لئے ہیں، اس طرح کہ سارے اورق مکمل طور پر نقل کئے اور فتح الباری برہان الدین بن خضر کے ذریعہ سے ہاتھ لگتی تھی، عینی نے اپنی شرح میں (بوجہ منافرت و معاصرت) فتح الباری پر بعض جگہ تعاقب کیا ہے، جس کو حافظ ابن حجر نے قصداً حذف کردیا تھا، اس کو بیان کرکے مضمون کو طول دےدیاہے۔”
فتح الباری سے نقل کرنا منع تو نہیں، لیکن عینی کا منقول عنہ کا حوالہ دینا ضروری تھا، بخلاف اس کے کہ عینی فتح الباری کا ذکرتک نہیں لاتے، علاوہ بریں ملا چلپی نے ایک حکایت نقل کی ہے کہ بعض فضلاء نے حافظ ابن حجر سے کہا کہ عینی کی شرح نوادرات میں آپ کی شرح سے ترجیح لے گئی، تو حافظ نے اس وقت فرمایا:
هذا شيء نقله من شرح لركن الدين، وقد كنت و قفت عليه قبله، ولكن تركت النقل منه لكونه لم يتم، إنما كتب منه قطعه … إلى قوله: ولذا لم يتكلم العيني بعد تلك القطعة بشيءٍ من ذالك … انتهى
(كشف الظنون:368/1)
“عینی نے سب کچھ رکن الدین کی شرح سے نقل کیا ہے، جس پر میں پہلے ہی سے واقف تھا، لیکن چونکہ وہ شرح پوری نہ تھی، اس لئے میں نے اس سے کچھ نقل نہیں کیا (اور نہ مجھے ضرورت ہے) رکن الدین نے تو صرف ایک ٹکڑے کی شرح لکھی تھی اسی وجہ سے اس ٹکڑے کے بعد عینی کچھ نہ لکھ
سکے.”
معلام ہوا کہ اگر فتح الباری بھی تکمیل کو نہ پہنچتی، تو عینی کی شرح بھی ناتمام رہ جاتی، چہ جائیکہ عینی کو حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ کا مرہون منت ہونا چاہئے تھا، لیکن ہم زمانہ ہونے کی وجہ سے ایسی منافرت ہوئی کہ حافظ پر ہاتھ چھوڑ دیا اور جس سے مضمون لیا اسی پر اعتراض کر دیا۔ اسی کو کہتے ہیں: جس برتن میں کھائے اسی میں سوراخ کرے.
(دفاع صحیح بخاری از محمد ابو القاسم سیف بنارسی:87-88)

ج۔ سرقہ نویسی کی مذمت قرآن وحدیث کی روشنی میں

عربی شاعر ناصر الدین حسن بن شاور الکنانی کہتا ہے:

سارق الشعر على الأبيات عاد أي عاد
فهو لص آمن من قطع كف في فساد
إنما قطع يديه قطعكم عن الأيادي.
“اشعار چوری کرنے والا شخص پرلے درجے کا ظالم ہے،یہ ایسا چورہے جس کا چوری کرکے فسادپھیلانے کی وجہ سے ہاتھ بھی نہیں کاٹاجاسکتا،پس اس کاہاتھ کاٹنے کی شکل یہی ہے کہ تم اسے انعامات و اکرا مات سے محروم رکھو”

بعضے افراد کو مصنف ، شارح اور محشی بننے کا بھوت سوار رہتا ہے، خود میں تو اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ پانچ سے چھ سطر خودی سے قلم کو جنبش دے سکے لہٰذا اس خواب کو پورا کرنے کے لئے آسان راستہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ دوسروں کی تصنیف کو اپنے نام سے منسوب کرلیتے ہیں.
“کسی کی بات نقل کرنا برا نہیں ہے، مگر اسے اپنا کہہ کر منسوب کرنا ایک نامناسب اور نا جائز حرکت ہے،لیکن منصب ،جاہ ومال اور اعلیٰ سندات کے حصول کے لئے یہ علمی سرقہ(plagiarism) اس دھڑلے سے کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پناہ! ، یہ بھی خیال رہے کہ علمی سرقہ کرنے والا ہمیشہ غیر معروف شخص نہیں ہوتا، بلکہ خاصے معروف حضرات بھی اس آگ میں ہاتھ سینکنے کا کام کرتے ہیں”.
(https://afif.in/%DA%A9%D8%B3%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%86%D9%82%D9%84-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%8C-%DB%81%D9%88-%D8%AA%D9%88-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%B6%D8%B1%D9%88)

دوسروں کا کریڈٹ اپنے جھولے میں بٹورنا منافقین کی روش ہے، اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے:لَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِینَ یَفۡرَحُونَ بِمَاۤ أَتَوا۟ وَّیُحِبُّونَ أَن یُحۡمَدُوا۟ بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوا۟ فَلَا تَحۡسَبَنَّهُم بِمَفَازَةࣲ مِّنَ ٱلۡعَذَابِۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِیمࣱ(آل عمران:188)
وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے دردناک عذاب ہے.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پربہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف ہونا پسند آتا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چیڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون “ نازل فرمائی.
(صحیح بخاری:4567)

حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اس میں ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے، یہ بیماری جس طرح عہدرسالت کے بعض لوگوں میں تھی جس کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا، اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پروپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے(أحسن البيان:196)

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میری ایک پڑوسن یعنی سوکن ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا اگر میں اسے جلانے کے لیے کہوں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ یہ چیزیں دی ہیں جو اس نے نہیں دی ہیں، آپ نے فرمایا: المتشبِّعُ بما لم يُعطَ كلابسِ ثوَبْي زورٍ.
”جلانے کے لیے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لیے ہوں“(صحیح ابوداؤد:4977،صحيح مسلم:2129، صحیح بخاری:5219 ، بحوالہ تفسير القرآن العظيم للإمام ابن كثير:181/2)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:الْمُتَشَبِّع’’ کا معنی ہے ایسی چیز سے اپنے آپ کو متزین ظاہر کرنا جو اس کے پاس ہے ہی نہیں، تاکہ اس جھوٹی بناوٹ کے ذریعہ لوگوں کے سامنے بڑائی ثابت کرسکے،جیسا کہ یہ عورت جس کی ایک سوکن بھی ہے تو اس نے محض اس کا دل جلانے کے لئے جھوٹا دعوی کیا کہ اسے اپنے شوہر کی طرف سے بہت ساری سہولیات وآسائش حاصل ہیں جبکہ معاملہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے (فتح الباری لإبن حجر:9/278)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’الْمُتَشَبِّع‘‘وہ ہے جو ظاہر کرے کہ میں پیٹ بھرا عیش میں ہوں حالانکہ دراصل ایسا نہیں، اور یہاں اس کا معنی یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسے خاص فضلیت حاصل ہے حالانکہ وہ اسے حاصل نہیں اور’’وَلابِسُ ثَوْبَي زُورٍ‘‘ (جھوٹ کےدولبادے اوڑھنے ) کا مطلب ہے جھوٹ وفریب والا جو لوگوں کو اہل زہد، اہل علم یا اہل ثروت ہونے کا فریب پر مبنی تاثر دیتا ہے ، تاکہ لوگوں کو مغالطے میں رکھ سکے، حالانکہ درحقیقت وہ ان صفات سے متصف نہیں۔اور اس کے علاوہ بھی اس بارے میں اقوال ہیں، واللہ اعلم۔
(ریاض الصالحین للإمام النووي،تحقيق للإمام ناصر الدين الألباني: 551 -552)

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَمَنِ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِيَتَكَثَّرَ بهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا قِلَّةً(صحیح بخاری:6047، بحوالہ تفسير القرآن العظيم للإمام ابن كثير:181/2)
اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرے اپنا مال بڑھانے کے لیے تو اللہ اس کا مال اور کم کر دے گا.
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث عام ہے ہر اس دعویٰ کے بارے میں جس کے ذریعہ کوئی شخص ایسی چیز کے حامل ہونے کا دعویٰ کرے جو اسے نہیں دی گی ہے، چاہے وہ مال ہو جسے وہ بناوٹی زینت بنا کر تکبر کرتا پھرے، یا وہ کوئی نسب ہو جس کی طرف وہ منسوب ہو حالانکہ اس نسل سے اس کا تعلق ہی نہیں، یا علم کے ذریعہ جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کا حامل نہیں، یا دین داری ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کے لائق ہی نہیں، ان سب کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان کے اس دعوے میں برکت نہیں دی جائے گی اور یہ اس کی کمائی کو پاک نہیں کرے گی. (إكمال المعلم للقاضي عياض: 1/ 391)

(https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B9%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%82%DB%81.98703/
http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/16967/)

د۔ سرقہ نویسی کی مذمت اقوال سلف کی روشنی
اسلاف کرام رحمہم اللہ کسی کے قول کو اپنی جانب منسوب کرنے یا بغیر احالہ کے اپنی کتابوں میں بیان کرنے کو علمی خیانت تصور کرتے تھے
١. امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر”الجامع لأحكام القرآن” میں رقمطراز ہیں:
وشرطي في هذا الكتاب إضافة الأقوال إلى قائليها، والأحاديث إلى مصنِّفيها، فإنّه يُقال: من بركة العلم أنْ يُضاف القول إلى قائله.(الجامع لأحكام القرآن:25/1)
اس کتاب میں میری شرط یہ ہے کہ میں اقوال کو ان کے قائلین کی طرف اور احادیث کو ان کے مصنفین کی طرف منسوب کروں گا. کیونکہ کہا جاتا ہے کہ قول کو اس کے قائل کی طرف منسوب کرنا علم کی برکت میں سے ہے.

۲.شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:ومن أراد أن ينقل مقالة عن طائفة فليسم القائل والناقل، وإلا فكل أحد يقدر على الكذب(منهاج السنة لإبن تيمية:309/2)
اور جو شخص کسی گروہ کی بابت کوئی بات نقل کرنا چاہتا ہے تو اسے قائل وناقل دونوں کا نام لینا چاہئے ورنہ جھوٹ بولنے پر تو ہر ایک قادر رہتا ہے.

٣. امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امام مزنی رحمہ اللہ نے اپنی ’’مختصر ‘‘ (مختصر المزني في فروع الشافعية) کا آغاز امام شافعی رحمه الله کے انداز سے کیا ہے،توانھوں نے لکھا ہے کہ: کتاب الطهارۃ، قال الشافعي رحمه الله :قال اللّٰہ تعالیٰ:وَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ طَهُورࣰا(الفرقان:48)
ظاہر ہے کہ یہ آیت انہیں براہِ راست قرآن مجید میں مل جاتی اور وہ سیدھے طورپر’’قال الله‘‘سے اپنی بات کا آغاز کرسکتے تھے،مگر چوں کہ یہ طریقہ ان سے قبل امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیاتھا اس لیے انہوں نے امام کا حوالہ دینا ضروری سمجھا (الفارق بين السارق والمصنف للإمام السيوطي:34-35)

٤. علامہ محمد ناصر الدین البانی فرماتے ہیں کہ: علماء کرام فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ علم کی برکت میں سے ہے کہ چیز کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، کیونکہ اسے اپنا کر اس جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے جس کی جانب رسول اللہ نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے: ‘‘الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ’’ (جلانے کے لیے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لیے ہوں). ( الكلم الطيب لإبن تيمية ت للألباني:11-12)

٥.علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:يقال: إن من بركة العلم أن تضيف الشيء إلى قائله (جامع بیان العلم وفضلہ: 2/922)
کہا جاتا ہے کہ علم کی برکت میں سے ہے کہ چیز کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے.

٦.ابن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ بات صحیح سند سے منقول ہے کہ :
فائدہ کو مفید کی طرف منسوب کرنا راہ علم میں سچ بولنے اور حصول علم پر شکر گزاری کی علامت ہے لیکن فائدہ کا ذکر کرکے خاموشی اختیار کرنا(بغیر حوالہ کے ذکر کرنا یا کسی کےفائدہ کو اپنی طرف منسوب کرنا) راہ علم میں کذب گوئی اور علم کی ناقدری کی نشانی ہے.
(هداية السالك إلى المذاهب الأربعة في المناسك لإبن جماعة: ⅓)

٧. عبد الرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ﺇﻥ ﻛﻞ ﻓﺎﺋﺪﺓ ﻟﻢ ﺗﺴﻨﺪ ﺇﻟﻰ ﺻﺎﺣﺒﻬﺎ ﻓﻬﻲ ﻟﻘﻴﻄﺔ ﻛﺎﻟﻄﻔﻞ ﺍﻟﻤﻨﺒﻮﺫ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﺃﺑﻮﻩ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﻨﺘﺴﺒﻴﻦ.
(آثار الشیخ العلامة عبد الرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی: 1/49)
ہر وہ فائدہ جسے اس کے کہنے والے کی طرف منسوب نہ کیا جائے تو انتہائی گھٹیا ہے، اور یہ اس گرے ہوئے بچے کی طرح ہے جس کا باپ نا معلوم ہو.

٨.شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آپ کسی کاتب کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی دوسری کتاب سے کوئی عبارت مکمل نقل کرتا ہے اور وہ یہ ذکر نہیں کرتا کہ میں نے فلاں کی کتاب سے یہ عبارت نقل کی ہے تو یہ علمی سرقہ ہے اور ایسا کرنے والا شخص ہماری نظر میں چور ہے. (شرح حلية طالب العلم لإبن عثيمين: 297)

٩.شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
کبر و غرور ایک طالب علم کو سیکھنے اور سکھانے میں مانع ہے. اور اس کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم کو اسکے ناقل کی طرف منسوب نہ کرنے سے ایک طالب علم، علم کی برکت سے محروم ہو جاتا ہے اور یہ کبر و حسد کا باعث ہے. (التأصيل في طلب العلم لمحمد عمر بازمول: 36)

١٠.امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امام نووی رحمہ اللہ نے بدعت کو پانچ انواع میں تقسیم کیا ہے اس تقسیم کے سلسلے میں اپنے معاصر عزالدین بن عبدالسلام کی کتاب ’’قواعدالاحکام‘‘سے استفادہ کیا،توباقاعدہ ان کانام لے کراس کی وضاحت کی ہے .(الفارق بين السارق والمصنف:36-37)

١١. امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:جب حافظ (ابن حجر) اپنے طلبہ کو پڑھاتے اور دورانِ درس کسی کی روایت کردہ حدیث نقل کرتے یااس کی تخریج کا حوالہ دیتے اوراس کی اصل کا انہیں علم نہ ہوتا،تووہ اپنے شاگردوں سے کہتے کہ آئندہ جب تم اپنے شاگردوں کو پڑھانا یااس روایت کوتحریری طورپر نقل کرنا تویوں کہنا “رواه فلان أوخرج فلان بإفادۃ شیخنا ابن حجر” کہ میرے شیخ استاذ ابن حجر کے واسطے سے فلاں کی روایت یا تخریج مجھ تک پہنچی ہے.(مصدر سابق:41)

۱۲۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:وهکذاسنة اللہ فیمن أغار علی کتب المصنفین،ولم یؤدالأمانة من المؤلفین،أن یخمل ذکرہ،وذکر کتابه،ویعدم النفع به فی الدنیاإلی یوم مآبه‘‘
(مصدر سابق:44)جو شخص دوسرے مصنفوں کی کتابوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور علمی بددیانتی کا مظاہرہ کرتاہے،اس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ اسے اور اس کی کتاب کو گم نام و بے نشان کردیتاہے اور قیامت تک کے لیے اس کی نافعیت کوختم کردیتاہے.(مصدر سابق:44)
(https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B9%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%B3%D8%B1%D9%82%DB%81.98703/
http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/16967/)

ھ ۔ سرقہ نویسی (plagiarism) آئین ہند(Indian constitution) کی نظر میں
حقوق کی جدید صورتوں میں سے ادبی حقوق کو باقاعدہ قانونونی حیثیت حاصل ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی اور کو تخلیق کار کی اجازت کے بغیر تخلیق شدہ چیز کو کسی بھی طرح کے استعمال اور خریدوفروخت سے باز رکھا جا سکے
اس لئے ایک مصنف اور محقق کو کاپی رائٹ (copyright) کے نام سے ایک قانونی حق مل جاتا ہے

کاپی رائٹ کا مفہوم:
ولیم یس اسٹرانگ نے شکاگو میںوئل آف اسٹائل میں کاپی رائٹ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : جب بھی کوئی کتاب یا مقالہ، نظم یا محاضرہ ،کوئی معلوماتی ذخیرہ یا ڈرامہ منصہ شہود پر آتا ہے تو اس کو خود بخود کاپی رائٹ کا حق حاصل ہوجاتا ہے بشرطیکہ سامنے آنے والی چیز “fixed” ہو یعنی اس کو کسی ایسے طریقے سے محفوظ کرلیا گیا ہو کہ وہ آسانی سے منتقل نہ ہوسکے اور “tangible” ہو یعنی ایسی مادی شکل میں ہو جو اصلی اور ذاتی وصف کی حامل ہو، اس میں صرف کاغذ یا روایتی میڈیا وغیرہ ہی نہیں بلکہ برقیاتی محفوظ اشیاء (electronic memory) بھی شامل ہیں.
(علمی سرقہ وانتحال اور اس سے تحفظ کے قانونی، فقہی واخلاقی ضوابط از ڈاکٹر محمد فیروز الدین شاہ کھگہ:7-10، مع حذف واضافہ)

کاپی رائٹ لاء کا تاریخی پس منظر:
اس قانون کے وضع کرنے کا سبب قدیم آئر لینڈ سے متعلق ہے Royal Irish acadmy Dublin میں کھیتک آف سینٹ کولمبا کا قدیم ترین مجموعہ مخطوط کی کی شکل میں محفوظ ہے جس میں زبور کے کچھ حصے شامل ہیں، یہ دراصل کاپی شدہ زبوری نسخہ ہے جو ایک رات میں جلدی جلدی کاپی کیا گیا تھا، یہ نسخہ حقیقت میں سینٹ فی نینینکی ملکیت میں تھا اور سینٹ کولمبا نے(597ء) بطور قرض حاصل کیا تھا اس واقعہ کا علم ہوتے ہی اس نسخہ کی ملکیت کے بارے میں نزع شروع ہوا تو اس وقت کے حاکم(Diarmait mac cerbhail) نے ایک فیصلہ سنایا جس کے مطابق “جیسے ہر بچھڑا گائے کا ہے اسی طرح ہر نقل اس کی کتاب کی طرف راجع ہوگی”
اور یہ نزاع اتنا طول پکڑا کہ اس کے نتیجے میں جنگ تک ہو گئی ،اس جنگ کو تاریخ نے (Battel of Book) یعنی کتاب کی جنگ کے نام سے یاد رکھا ہے اور یہ جنگ چھٹی صدی عیسوی میں شمال مغربی آئرلینڈ میں لڑی گئ.
جب 1450ء میں طباعت کا رواج عام ہوا تو سویٹزرلینڈ میں ایک معاہدہ (borne convention 1886) ہوا جس میں کتابوں کی بلا اجازت اشاعت کو سرقہ قرار دیا گیا اور بعد ازاں دنیا کے دیگر ممالک نےبھی کاپی رائٹ قانون کی منظوری دی
(مصدر سابق:10-11،مع حذف واضافہ)

copyright act 1957 :
کاپی رائٹ ایکٹ 1957 کے تحت دوسروں کی ادبی تخلیقات وغیرہ کو اپنے نام سے شائع کرنا یا اپنی کتاب میں بغیر حوالہ جات(citations) کے ذکر کرنا ازروئے آئین ہند جرم ہے جس کے بنا سرقہ (plagiarism) کرنے والے مجرم کو چھ ماہ سے تین سال تک قیدوبند کی صعوبتیں جھلینی پڑیں گی اور مزید دو لاکھ / 2,00,000 روپئے بطور جرمانہ سارق قلمکار سے وصول کیا جائے گا.
(https://youtu.be/TXNLPY4dRBE, https://blog.ipleaders.in/plagiarism-law-india/)

و ۔ سرقہ نویسی (plagiarism) میں موجود شرعی مفاسد

علمی سرقہ کے اندر بہت سارے شرعی مفاسد اور قباحتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

١.اخلاص کے منافی امر
ایک مسلمان کو جمیع عبادات وطاعات میں اخلاص کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ(البينة:5)
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا.
جو شخص دوسروں کی تحاریر ومضامین پر ڈاکہ ڈال کر اپنے نام سے شائع کرتا ہے تو یہ اس کے اخلاص کے فقدان کا نتیجہ ہے اور قلیل عرصہ میں شہرت وناموری پانے کا بھوت اس پر سوار ہوچکا ہے اور اگر وہ یہ حرکت اللہ کی رضا جوئی اور ذخیرہ عقبیٰ کے لئے کررہا ہے تو پھر اسے اس بات کا علم ہونا چائے کہ اللہ تعالیٰ خبیث چیزوں کو قبول نہیں کرتا جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:أَيُّها النَّاسُ، إنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا(صحیح مسلم:1015)اے لو گو! اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک (مال) کے سوا ( کوئی مال) قبول نہیں کرتا.

۲۔ دوسروں کی محنت کا کریڈٹ خود لینے کی مذموم کوشش:
اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے:لَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِینَ یَفۡرَحُونَ بِمَاۤ أَتَوا۟ وَّیُحِبُّونَ أَن یُحۡمَدُوا۟ بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوا۟ فَلَا تَحۡسَبَنَّهُم بِمَفَازَةࣲ مِّنَ ٱلۡعَذَابِۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِیمࣱ(آل عمران:188)
وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے دردناک عذاب ہے.
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
ایک خاتون نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری سوکن ہے اگر اپنے شوہر کی طرف سے ان چیزوں کے حاصل ہونے کی بھی داستانیں اسے سناؤں جو حقیقت میں میرا شوہر مجھے نہیں دیتا تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا یعنی (دوسروں کے کپڑے) مانگ کر پہنے۔(صحیح بخاری:5219)
محمد جمال الدین قاسمی شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:تصنیف کے باب میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ فوائد، مسائل اور نکات کو ان کے ارباب کی منسوب کرنے سے انسان سرقہ اور انتحال علمی سے بری ہوجاتاہے لیکن علمی انتساب سے دامن بچانا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا یعنی (دوسروں کے کپڑے) مانگ کر پہنے،اس لئے آپ دیکھیں گے کہ میں نے اس کتاب کے تمام مسائل کو حرف بحرف قائلین کی طرف منسوب کیا ہے(قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث لمحمد جمال الدين قاسمي:40)
٣. چوری:
استاد عصام ھادی وفقہ اللہ فرماتے ہیں کہ :شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی علماء کے کلام کو ان کی طرف منسوب کئے بغیر(تاکہ عوام میرا قول سمجھ کر میری تعریفوں کے پل باندھنے لگ جائیں) نقل کرتا ہے تو کیا یہ چوری ہے؟
آپ رحمہ اللہ نےفرمایا: بالکل، یہ بھی چوری ہی ہے جو شرعا ًجائز نہیں، کیونکہ وہ ایسی بات بیان کرکے فخر کررہا ہے کہ جو حقیقتاً اس کی نہیں اس میں تدلیس اور لوگوں کو مغالطہ دینا بھی ہے کہ یہ کلام یا یہ تحقیق اس کی اپنی علم ودانش کے بل بوتے پر ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے.
(محدث العصر الإمام محمد ناصر الدين الألباني كما عرفته لعصام موسى هادي:74)
٤،٥۔ سلب برکت اور عدم شکر
امام نووی رحمہ اللہ( الدِّين النَّصيحة ) والی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ومن النصيحة: أن تضاف الفائدة التي تستغرب إلى قائلها، فمن فعل ذلك بورك له في علمه وحاله، ومن أوهم ذلك وأوهم فيما يأخذه من كلام غيره أنه له: فهو جدير أن لا ينتفع بعلمه، ولا يبارك له في حاله، و لم يزل أهل العلم والفضل على إضافة الفوائد إلى قائليها ، نسأل الله تعالى التوفيق لذلك دائماً. (بستان العارفين للإمام النووي:28)
(دین نصیحت کا نام ہے) اور نصیحت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نئے فائدے کو اسکے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، جس نے بھی ایسا کیا اسکے علم اور حال میں برکت ہوگی، اور جس نے اس کو اور دوسرے کے کلام کو گڈمڈ کر کے پیش کیا تاکہ دوسرے کے کلام میں شبہ پیدا ہو اور دوسرے کا کلام بھی اس کا کلام معلوم ہو تو ایسے شخص کے علم و عمل میں برکت نہیں ہوگی. اور علماء کرام کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ
وہ فائدے کو اسکے قائل کی طرف ہی منسوب کرتے رہے ہیں.
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:علم کی برکت اور شکر گزاری میں سے ہے کہ علم کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے(المزهر في علوم اللغة للسيوطي:273/2:)
(https://islamqa.info/ar/answers/153846/)

اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سرقہ نویسی جیسی مذموم صفت سے محفوظ فرمائے آمین

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *