داماد کا انتخاب، معیار کیاہو؟

داماد کا انتخاب، معیار کیاہو؟
محمد ابوسعید خان

مدینہ منورہ کے بہت بڑے عالم اور متقی سعید بن مسیب جو اپنے گھر پر درس دیا کرتے تھے، کئی دن سے اپنے شاگرد ابووداعہ کی غیرحاضری سے خاصے فکرمند نظر آرہے تھے، اور اپنے شاگردوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ابووداعہ کیوں نہیں آرہے ہیں خدا ناکردہ بیمار تو نہیں ہیں، ابووداعہ بہت غریب طالب علم تھے مگر دین سیکھنے کا جذبہ دل میں رکھتے تھے اور بڑی پابندی سے درس میں شریک ہوتے تھے، جب ان کا کچھ پتہ نہ چلا تو حضرت سعید نے ایک طالب علم سے بلوا بھیجا، جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت کیا: ابووداعہ اتنے دنوں سے تم کہاں غائب تھے؟ ابووداعہ نے کہا: حضرت میری بیوی کا انتقال ہو گیا تھا، اس وجہ سے گھر کے کام کاج اور بچوں کے دیکھ بھال میں رہ گیا۔
حضرت سعید نے کہا: اچھا تمہاری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ کم سے کم میں تجہیز و تکفین میں تو شریک ہو جاتا، ابووداعہ نے کہا: حضرت! میں نے سوچا آپ کو کیا زحمت دوں، سارے امور ٹھیک ٹھاک انجام پاگئے، تھوڑی دیر میں جب تمام طلبہ رخصت ہوگئے اور ابووداعہ نے بھی اجازت چاہی تو حضرت سعید نے انہیں اپنے پاس بلایا اور کچھ رقم دی اور ہدایت کی کہ اس سے اپنا قرض ادا کرو پھر پوچھا: کیا تم نے دوسری شادی کی بھی فکر کی یا نہیں؟ ابووداعہ بولے میں نے بڑی کوشش کی مگر کسی نے مجھے قبول نہیں کیا، میرے پاس نہ جائیداد ہے نہ مال و دولت، میں ایک نادار اور فاقہ کش آدمی ہوں، خدا کی محبت اور خوف کے سوا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ حضرت سعید نے فرمایا: اللہ اکبر! لوگ تمہیں اس بناپر قبول نہیں کرتے کہ تم نادار اور مفلس ہو؟ خدا کی قسم تم معمولی قسم کے آدمی نہیں ہو، تمہارے پاس تقویٰ کی دولت ہے اور دین کا علم سیکھنے کا جذبہ ہے، یہ کہہ کر اور سرد آہ کھینچ کر خاموش ہوگئے، تھوڑی دیر بعدابووداعہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے: بیٹے! تم تیار رہو میں تم کو اپنی فرزندگی میں لیتاہوں، ابووداعہ یہ فقرہ سن کر حیران رہ گئے اور کہا: بخدا اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات کیا ہوگی؟ حضرت سعید نے اسی وقت چند لوگوں کو بلایا اور ان کی موجودگی میں چند درہم پر اپنی صاحبزادی کا نکاح اپنے غریب شاگرد سے پڑھا دیا۔
اب سنیے حضرت سعید ابن مسیب کی یہ بیٹی وہ تھی جس کے لیے خلیفہ وقت عبد الملک نے اپنے بیٹے ولید کے لیے پیغام بھیجا تھا لیکن حضرت سعید نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا؟ ادھر ابووداعہ خوشی خوشی گھر پہنچے مگر فکر یہ دامن گیر تھی کہ رخصتی کا سامان کیسے فراہم کریں! ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی، انہوں نے پوچھا: کون؟ جواب ملا: میں سعید، ابووداعہ نے آواز پہچان لی، ارے یہ تو ہمارے استاذ مشفق ہیں، حضرت سعید بن مسیب تو اپنے گھر اور مسجد کے سوا کہیں نہیں جاتے، یہاں کیسے؟ حیرت و مسرت میں دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب کھڑے ہیں۔ حضرت سعید: السلام علیکم، ابووداعہ: و علیکم السلام، ابووداعہ کہتے ہیں: حضرت! آپ نے کیوں زحمت فرمائی، خادم کو بلوا لیتے، حضرت سعید فرماتے ہیں: نہیں بیٹے! کوئی حرج نہیں، میں نے سوچا تمہاری منکوحہ موجود ہے، تم تنہا کیوں رات بسر کرو؟ تمہاری بیوی کو لے کر آیا ہوں، اتنا کہا اور صاحبزادی کو اشارہ کرکے دروازے میں داخل کر کے خود واپس لوٹ آئے۔
ذرا ذہن پر زور ڈالیے، خدارا کچھ سوچیے جس خاتون کا رشتہ خلیفہ وقت کے یہاں سے آرہاہو، اس کو ایک مفلس و نادار شخص سے بیاہ دینا کوئی معمولی واقعہ ہوسکتاہے؟ مدینہ کے باہر چھوٹے اور بڑے گھرانوں والوں نے دیکھا اور سنا اور عبرت حاصل کی سبق لیا اور اللہ ہی کو علم ہے کہ کتنوں نے اس کی تقلید کی ہوگی جس دین نے ایسا پاکیزہ اور مثالی معاشرہ جنم دیا، اسی دین کے پیروکار آج اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں مارواڑیوں کو شرمانے چلے ہیں، اسلام میں نکاح کو آسان بنایا گیا تھا مگر ہم نے اس کو اتنا مشکل اور کٹھن بنادیا، اتنا خرچیلا کردیا کہ اب کوئی جلدی شادی کا نام لینے کو بھی تیار نہیں ہوتا، لڑکی کیا پیدا ہوئی کہ فکر دامن گیر ہوگئی، یااللہ! اب کیا ہوگا؟ کیسے عزت بچے گی،کہاں سے اتنا سرمایہ آئے گا کہ اس کے ہاتھ پیلے کیے جاسکیںگے، پیٹ کاٹ کر فاقہ کرکے، رشوت لے کر، باپ دادا کی زمینیں اور جائیداد بیچ کر شادی کا انتظام کیا جائے گا۔
ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق و شیدا ہیں اور جھوم جھوم کر کہتے ہیں رسول کا دامن نہیں چھوڑیں گے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرسکتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرمائیں کہ نکاح وہ اچھا ہے جس میں خرچ کم سے کم ہو اور ہم ایسا زور دار نکاح کریںگے جس میں خرچ زیادہ سے زیادہ ہو پھر بھلا کیسے ہمارا بھلا ہوگا۔ ابووداعہ کے واقعہ سے کیا یہ سبق نہیں ملتا کہ رشتہ اچھا مل جائے تو ایں و آں اور لیت و لعل سے ہرگز کام نہیں لینا چاہیے اور چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ کرنا چاہیے، لیکن کیا ہم میںکا کوئی فرد ایسا کرنے کو تیار ہوتاہے، ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ایسے جو تقویٰ کو معیار بناکر اپنے بیٹے یابیٹی کا نکاح کرتے ہوں، بات تو سب دین و تقویٰ کی کرتے ہیں مگر پیروی خالص دنیاداروں کی، رئیسوں اور امیروں کی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ کافروں اور مشرکوں کی کرتے ہیں، اسی لیے ہماری شادیاں اکثر ناکام ہوتی ہیں، ہمارے پڑوس کی ایک بستی کے ایک بڑے رئیس نے اپنی بیٹی کی شادی میں بے حساب سرمایہ صرف کیا اور بستی کے تمام لوگوں کو کھانا کھلایا مگر اپنی بیٹی کو خوشی نہ دے سکے، داماد شادی کے بعد سالہا سال تک مطالبات پورے کراتا رہا، بالآخر بیوی کو طلاق دے دیا، معلوم ہوا کہ دولت سے خوشحالی تو آسکتی ہے مگر دل کی خوشی اور حقیقی مسرت نہیں خریدی جاسکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن اور خوش ہو تو اس سے شادی کردو، اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں زبردست فتنہ پھیل جائے گا“(ترمذی) سوال پیدا ہوسکتاہے کہ کیا آج زمین فتنوں کی آماجگاہ نہیں بنی ہوئی ہے؟ کیا ہمیں اپنی شادی سادہ طریقے پر کرکے زمین کو فتنوں سے بچا نہیں لینا چاہیے؟ اور جب زمین فتنوں سے بچا نہیں لینا چاہیے؟ اور جب زمین فتنوں کی آماجگاہ بن جائے گی تو خلق اللہ پر آفت نہیں ٹوٹ پڑے گی اور کیا ہمیں اس کا سبب و ذریعہ نہیں ٹھہرائے جائیںگے۔
ہم شادی بیاہ کے موقع پر مارواڑیوں کی، بنیوں اور لالاو¿ں کی، ٹھاکروں اور پنڈتوں کی نقل کرسکتے ہیں، عیسائیوں اور یہودیوں سے ان کی رسمیں مستعار لے سکتے ہیں، مگر نہیں کرسکتے ہیں تو حضرت سعید بن مسیب کی تقلید ….ذرا سوچئے تو سہی حضرت سعید کا معیار انتخاب کیا تھا اور ہم نے کیا معیار مقرر کر رکھا ہے اور ہمارا معاشرہ کس طرف جارہاہے، اگر آج ہم نے اس کی فکر نہیں کی تو ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور پوچھے جائیں گے۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *