ناشکری اللہ کو ناپسند ہے

ریاض فردوسی۔9968012976

سورہ النساء۔آیت۔147میں ہےکہ کیا کرے گا اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دینے سے اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ؟ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی سے قدر کرنے والا،سب کچھ جاننے والا ہے۔
کتاب اللہ میں دوسرے مقام پر ہے کہ!
اور جب تمہارے رب نے صاف اعلان کر دیا تھا کہ یقیناً اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور ہی زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بلاشبہ بڑا سخت ہے(سورہ ابراھیم۔آیت۔7)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص۔11)

عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی۔(تفسیر بیضاوی)

شکر تمام عبادتوں کی اصل ہے۔(تفسیر کبیر)

نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔

نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج۔19،ص۔67)

“حافظ صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر احسن البیان۔صفحہ۔268 میں
فرماتے ہیں شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں
سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا ہےیہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے،اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید ربوبیت پر اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت پر ایمان ہے۔”
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نعمتیں مجھے ملی ہیں سب میری کوششوں کا نتیجہ ہیں اس میں اللہ کا کوئی احسان نہیں ہے،ایسے لوگ کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے ایسے لوگ قارون صفت ہیں،جس کو اللہ نے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسادیاتھا۔
آخر میں!
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔
’’کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ایک کوڑھی،دوسرا اندھا،تیسرا گنجا۔اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان تینوں کا امتحان لیں،ایک فرشتہ کو اختیارات دےکر بھیجا۔
فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کون سی چیز پسند ہے؟اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بیان کیا کہ بحکم خداوندی فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور چمڑی بھی اچھی ہوگئی۔فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم پسند کرتے ہو؟اس نے جواب میں اونٹ یا گائے کہا اسحاق بن عبد اللہ کو اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ یا گائے کی خواہش ظاہر کی اور دوسرے نے گائے کی،چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی،اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تمہیں کیا چیز پسند ہے؟اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہوجائے۔کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔فرشتے نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے سر میں عمدہ بال آگئے۔فرشتے نے کہا تمہیں سب سے زیادہ کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا کہ گائے۔ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے دے دی،اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہیں کیا چیزپسند ہے؟اس نے کہا اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں،فرشتے نے اس کی(آنکھوں) پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس لوٹا دی،پھر پوچھا تمہیں سب سے زیادہ کس طرح کا مال پسند ہے،اس نے کہا کہ بکریاں فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری دے دی،پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی،گائے بیل سے گنجے کی وادی بھر گئی،اور بکریوں سے اندھے کی وادی بھر گئی۔(اب اللہ نے نعمتوں کا امتحان لینے کے لۓ فرشتے کوان کی پہلی حالت سے ملتی جلتی کیفیت بنا کر بھیجا)۔فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس گیا اس کی پہلی صورت کی طرح اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین اور فقیر آدمی ہوں میرے سفر کے تمام سامان اور اسباب ختم ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں،لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر، جس نے تمہیں اچھا رنگ،اچھا چمڑا اور اچھا مال عطا کیا ہے ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر پورا کرسکوں، اس نے فرشتے سے کہا میرے ذمہ اور بہت سے حقوق ہیں۔فرشتے نے کہا غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے؟
تم ایک فقیر اور قلاش انسان تھے،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ چیزیں عطا کیں؟
اس نے کہا یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آرہی ہے؟
فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت پر لوٹادے۔فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی،اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا ہی جواب دیا ، فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اس کی پہلی صورت میں،اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں،سفر کے تمام سامان ختم ہوچکے ہیں،اور اللہ کے سوا کسی اورسے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔میں تم سے اس ذات کاواسطہ دے کر،جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دے دی۔
ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کرسکوں،اندھے نے جواب دیا کہا کہ واقعی میں اندھا تھا،اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی۔واقعی میں فقیر و محتاج تھا،اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا، تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ،اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دے دیا تو جتنا بھی تمہاراجی چاہے لے جائو میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا،فرشتے نے کہا تم اپنا مال اپنے پاس رکھو،یہ تو صرف امتحان تھا،اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے،اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے(او کما قال ﷺ صحیح البخاری۔3464)
حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے،اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔(التحریر والتنویر ج۔1۔ص۔512)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *