جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

بسم اللہ الرّحمن الرحیم

دنیا میں کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی
ہیں جونکہت باد بہاری کے مانند جہاں ہوتی ہیں اطراف وجوانب کو معطر اور ملنے والوں کو خوشبوۓ علم ادب سے معمور اور اپنی رعنائ انداز وبیا‌ن سے مخمور کردیتی ہیں.
ایسی ہی ایک شخصیـت شیخ عبدالحمید فیضی حفظہ اللہ کی بھی ہے جو شہر علم وفن مئوناتھ بھنجن میں تقریباًً نصف صدی سے علوم وفنون کی ابیاری میں پوری تندہی سے منہمک ومشغول ہے
علمی حلقے میں آپ کی شخصیـت محتاج تعارف نہیں
ٹیچر ایشوشییشن مدارس عربیہ اتر پردیش کے صدر اور جامعہ فیض عام کے مؤقر ومعتبر استاذ ہیں

یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ آج موتی گنج سے متصل موضع سوننرسا کے ایک قہوہ خانے پر آپ سے باریابی کا زریں موقع نصیب ہوا .راقم کی آپ سے موبہ مو پہلی ملاقات تھی لیکن پہلی ملاقات سے ایسا محسوس ہوا کہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے برسوں کا یارانہ ہے
کیا اصاغر اور کیا اکابر سب سے خندہ روئ سے ملنا غالبا آپ کا امتیاز ہے اسے کہتے ہیں مرنجا مرنج شخصیـت
شیخ کی معیت میں جب تک رہا دست شفقت پھیرتے رہے
ویسے آپ کے سامنے میں تو طفل مکتب سے بھی کمتر باوجود اس کے آپ کا رویہ میرے ساتھ نہایت مشفقانہ ,دوستانہ اوربھر پور توجہانہ رہا

رہی غرور سےنفرت خجستہ کاروں کو
قلم کی طرح جب بھی سر جھکا کے چلے

تقریبا دوگھنٹے کی ملاقات میں متعدد علمی وادبی موضوعات زیر سخن آے .
راقم بھی موقع خاص کو غنیمت جانتے ہوۓحظ واستفادہ کی خوب خوب کوشش محمود کرتا رہا.
یہ حقیقت ہے کہ مطالعۂ ذخیرۂ کتب سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو کسی علمی شخصیـت کی ادنی رفاقت ومصاحبت سے ہوتا ہے
راقم الحروف موتی گنج کتابوں کی حصولیابی کی خاطر گیا تھا حصول مرام تو نہ ہوا البتہ علمی کتب خانہ سے باریاب ضرور ہوا اور یہ باریابی نہایت مفید وکار آمد اور نفع بخش ثابت ہوئ
اثناۓ گفتگو برمحل اشعار سے بات کو مزید دلچسپ بنانے کا ہنر کوئ آپ سے سیکھے. اشعار کو یوں پیش کررہے تھے جیسے وہ آپ کے حضور صف بستہ ہوکر دست بدستہ خود کو پہلے پیش کرنے کی التجاۓ خاص کررہے ہوں

اسی بیچ مولوی خورشید ممتازی نے شیخ سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی تفسیر تفہیم القُرآن کا مطالبہ کیا جس پر شیخ نے انہیں منع کرتے ہوۓ مولانا علیہ الرحمہ کے متعلق کہا کہ مولانا مودودی کہا کرتے تھے کہ قرآن، عربی مبین میں ہے تو میر تفسیر اردوۓ مبین ہے

یہ سچ ہے کہ مولانا نے تفسیر کے نام پر اردو زبان دانی اور مفکرانہ سوچ کا خوب خوب مظاہرہ مذکورہ تفسیر میں کیا ہے لیکن اسلاف کی رہ مستقیم سے برگشتہ ہوکر فکری کجی کا شکار ہوگئے ہیں. ایسے میں تفسیری مواد بہت کم قرانی آیتوں کی تحقیر کا پہلو زیادہ ہے
بہرحال شیخ نے انکی مثبت وتعمیری کتب (پردہ, الجہاد فی الاسلام وغیرہ کے مطالعہ کی جانب سائل کی رہنمائ کرنے کے ساتھ کتب تفسیر میں تفسیر ابن کثیر ,تفسیر قرطبی ,فتح القدیر وغیرہ پڑھنے کو کہا

شیخ علم وادب کے جوہر سے ہم خوردو‌ں کو مالا مال کر ہی رہے تھے کہ میں نے شب گزشتہ کے مطالعہ سے ایک شعر کی تفہیم طلب کی پھر کیا تھا اس سے متعلق استاذ شعراء کے کلام کی برسات کرکے راقم کو انگشت بدنداں کردیا
وہ شعر تھا مرزا غالب کا

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
میں آئینے سے ڈرتا ہوں مردُم گزیدہ ہوں

اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئ جب شیخ نے کہا کہ میں اردو سے ایم اے ہوں مزید وضاحت طلبی پر گویا ہوۓ اور کہا کہ ۱۹۸۱میں کانپور یونیورسٹی سے کامل کی سند سے ایم اے کیا ہو‌ں

شعر وادب کے متعلق بات ہورہی تھی تو آپ نے منور رانا کا درج ذیل شعر پیش کرکے کہا کہ یہ زمینی شاعری ہے

نہ رویا کر بہت رونے سے چھاتی بیٹھ جاتی ہے
بہت پانی برستا ہے تو مٹی بیٹھ جاتی

خاطر خواہ توجہ اور پذیرائ پر شعر کا بقیہ حصہ بھی پیش کردیا
کہ
سیاست دشمنی کا زخم بھرنے ہی نہیں دیتی

جہاں بھرنے پہ آتا ہے تو مکھی بیٹھ جاتی ہے

عصرحاضر میں مشاعروں کی دنیا کے دو معروف شعراء منور اور راحت کے مابین موازنہ کرتے ہوۓ
شیخ نے کہا کہ منور کی شاعری میں سنجیدگی اور راحت کے یہاں حماسیت پائ جاتی ہے

محفل میں بارہا راقم کو مخاطب کرکے مومن وغالب کے مشہور و برمحل اشعار پیش کرتے ہے
بات غالب کی آئ تو شیخ نے یاد گار غالب (مولانا حالی )کے حوالے سے بتایا کہ گرچہ غالب کے اشعار میں شریعت کا استہزاء اور تضحیک ہے لیکن غالب کی اہلیہ نہایت تقوی شعار اور پابند صوم وصلوۃ تھیں انکی پاکیزہ نفسی اور پابندئ صوم صلوۃ کی بنا پر غالب ایک مرتبہ اپنے حجرے میں جوتا بدوش داخل ہوۓ تو اہلیہ نے سبب دریا کیا جواب آیا
“کیا کروں تم نے پورے گھر کو مسجد بنا ڈالا ہے اور مسجد میں جوتا پہن کر داخل ہونا گستاخی ہے”
اس واقعہ سے جہاں غالب کی شوخئ طبع اور ظرافت کا پتا چلتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انکی اہلیہ کتنی پاک وصاف تھیں

یہ سب باتیں ہورہی تھیں کہ مدرسہ سراج العلوم سونبرسا کے ناظم صاحب نے مدرسہ کی زیر تعمیر عمارت کے مشاہدہ کو کہا “شیخ غالبا اسی مقصد سے آۓ بھی تھے” شیخ وہاں سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اٹھے اور تادیر پند ونصائح سے نوازتے ہوۓ مزید علم وہنرکے حصول کی سعی پیہم کی تلقین کی. اس درمیان مہرو وفا اور الفت ویگانت کا جو مظاہرہ آپ نے کیا اس سے بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجاۓ وہ لوگ
آپ نے شاید نا دیکھیں ہوں مگر ایسے بھی ہیں
بوقت رخصت میں نے ایک شعر

غنیمت جانئے مل بیٹھنے کو
جدائ کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے

سنایا تو شیخ نے رخصتی کے موضوع پر یکے بعد دیگرے کئ اشعارپیش کرکے سب کو آبدیدہ کردیا
یہ تھی شیخ سے اتفاقی ملاقات کی وہ روداد جو کہہ رہی ہے

تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے
ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوۓ دیکھا

۲۳/۳/۲۳

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *