ریاض فردوسی۔9968012976
اور جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں رات گزارتے ہیں(سورہ الفرقان۔آیت۔64)
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آرام کرنے کے بعد رات میں کچھ نہ کچھ نفلی عبادت ضرور کیا کرے تاکہ اس میں کامل ایمان والوں کے اوصاف پیدا ہوں اور آخرت کے لئے نیکیوں کا کچھ ذخیرہ جمع ہو۔خاص طور پر ماہ رمضان کی راتوں میں۔
رمضان المبارک میں تین دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح پڑھانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، اور بعض روایات سے بیس رکعات تراویح کی نسبت بھی خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک لوگوں کو تراویح پڑھائی پھر لوگوں کے شدت ذوق وشوق کو دیکھ کر اس اندیشہ سے پڑھنا ترک فرمادیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے کہ لوگوں کو مشقت ہوگی۔
اماں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی مسجد میں جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف نہ لائے پھر جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں دیکھا تھا تو مجھے تمہاری طرف نکلنے کے لئے کسی نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ راوی کےمطابق یہ واقعہ رمضان المبارک ہی کے بارے میں تھا”۔(صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب الترغیب فی قیام رمضان،ج:1،ص:259)امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (با جماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔(ابن حبان، الصحيح،1 :353،رقم:141۔ابن خزيمة، الصحيح،3، 338،رقم:2207)
تعدادرکعات کے بارے میں کوئی مرفوع روایت موجود ضنہیں،البتہ اس بارے میں بعض احادیث میں مختلف تعداد صحابہ کرام ؓ سے منقول ہے۔تعداد رکعات کے بارے میں ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ”(مصنف ابن ابی شیبہ،باب من کان یری القیام فی رمضان،ج:2،ص:394۔)
نیزاسی طرح کی روایت التلخیص الحبیرمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ
”أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالناس عشرين ركعۃ ليلتين فلما كان في الليلة الثالثة اجتمع الناس فلم يخرج إليهم ثم قال من الغد خشيت أن تفرض عليكم فلا تطيقوها”(التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر،باب صلوۃ التطوع،ج۔2۔ص۔53)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو سب سے زیادہ جاننے والے صحابہ کرام ہیں اورصحابہ کرام ؓ کااتفاق ہے کہ تراویح کی رکعات بیس ہیں،بس صحابہ کرامؓ کابیس رکعات پراتفاق اس بات کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ہی پڑھائی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دور خلافت میں داخلی اور خارجی فتنوں کی کثرت اور مدت خلافت کی قلت کی بنا پر اس سنت عظیمہ کے قیام کا موقع نہ مل سکا، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس سنت کو جو عارض کی بنا پر موقوف تھی لیکن اب وہ عارض چونکہ باقی نہیں رہا تھا اس لیے جاری فرمادیا۔ ملا علی قاری علامہ طیبی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں: وإن کانت لم تکن في عہد أبي بکر رضي اللہ عنہ فقد صلاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وإنما قطعہا أشفاقًا من أن تفرض علی أمتہ و کان عمر ممن تنبہ علیھا وسنہا علی الدوام فلہ أجرہا وأجر من عمل بہا إلی یوم القیامة ”اگرچہ تراویح باجماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نہیں تھی لیکن چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں تھے جو اس حقیقت سے باخبر تھے، انھوں نے دائمی طور پر جاری فرمادیا تو انھیں اس کا بھی اجر ہے اور قیامت تک جو لوگ عمل کرتے رہیں گے ان کا بھی اجر ہے (مرقات) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں تراویح بیس رکعت کے ساتھ باجماعت جاری فرمایا، موطا امام مالک میں ہے: کان الناس یقومون في زمان عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- في رمضان بثلاث وعشرین رکعة کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں 23/ رکعتیں پڑھتے تھے (بیس تراویح کی اور تین رکعات وتر کی) اور یہ بات بھی محقق ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے اور ان کی وفات کے بعد تک تمام صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس پر عمل رہا، ان کا اختلاف نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یقیناً ان حضرات کی نگاہوں میں اس کے مآخذ اور دلائل رہے ہوں گے کیونکہ صحابہ کرام کسی منکر اور بدعت بات پر جمع ہونے والے نہیں تھے، بلکہ وہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال دیکھ کر اس کی نقل کرنے والے تھے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں: أما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان یتوضأ فیری الصحابة وضوء ہ فیأخذون بہ من غیر أن یبین أن ہذا رکن وذلک أدب وکان یصلي فیرون صلاتہ فیصلون کما رأوہ یصلي وحج فرمق الناس حجہ ففعلوا کما فعلوہ رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد مبارک تو آپ وضو فرماتے تھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے وضو کو دیکھ کر اس پر عمل کرتے تھے، بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کے کہ یہ رکن ہے، وہ مستحب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے پس صحابہ اکرام جس طرح آپ کو نماز پڑھتا ہوا دیکھتے تھے خود بھی نماز پڑھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا، پس لوگوں نے بھی دیکھ کر ویسے ہی افعال حج ادا کیے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیے (حجة اللہ البالغہ)
مدینہ کے حضرات چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کو دیکھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے تھے اسی بنیاد پر امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تعامل اہل مدینہ بھی دلیل شرعی ہے۔
مزید معلومات کے لئے بخاری، ج:1،ص:269، مسلم، ج:1، ص:259۔بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب : تحريض النبی صلی الله عليه وآله وسلم علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1 : 380، رقم : 1077۔بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التروايح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 708، رقم : 1908۔مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 : 524، رقم : 761۔أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 2 : 49، رقم : 1373۔نسائي، السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب قيام شهر رمضان، 3 : 202، رقم : 1604، کا ضرور مطالعہ کریں۔احادیث سے بیس رکعت تراویح کا پڑھنا مسنون ہے۔دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں 1200 سال تک بیس یا اس سے زائد رکعتیں پڑھی جاتی رہیں۔
حضرت یحییٰ بن سعیدؒ فرماتے ہیں کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کوحکم دیاکہ وہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائے(مصنف ابن ابی شیبہ، ج:2، ص:293)
۳:… حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیاکہ میں رمضان میں لوگوں کو تراویح پڑھائوں، پس بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں۔ (کنزالعمال،ج:8، ص:264)
سیدنا امام حسن علیہ السّلام سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر اکٹھا کر دیا، آپ رضی اللہ عنہ انہیں بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔(سیراعلام النبلاء، ج:1،ص:400۔ جامع المسانیدوالسنن، ج:1،ص:55)
حضرت عبدالعزیزبن رفیع ؒ فرماتے ہیں کہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں مدینہ طیبہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے اور تین وتر پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج:2،ص:393)
حضرت یزیدبن رومانؒ فرماتے ہیں کہ: لوگ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں رمضان میں (23) رکعات پڑھا کرتے تھے (یعنی 20 تروایح اور 3وتر)۔ (مؤطاامام مالک، ج:1،ص:98۔ سنن کبریٰ بیہقی، ج:2،ص:496)
سنت ہے۔ (بدایة المجتہد)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا(المغنی)
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہو رعلماء سے نقل کیا ہے۔(المجموع)
علامہ ابن تیمیہ حنبلی لکھتے ہیں: حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) نے لوگوں کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھائی، اسلئے جمہور علماء کے نزدیک یہی سنت ہے۔ کیونکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا(فتاویٰ ابن تیمیہ)
مولانا محمود حسن قاسمی فرماتے ہیں کہ جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (20) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (20) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (8) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے۔
آخر میں!
اس علمی اور فقہی اختلاف کو چند جہلا لوگ دلوں میں نفرت، بغض اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں،حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز کی تعداد متعین نہیں کی تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے۔امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
لڑائی کس بات کی ہے آپ کو20 رکعت پڑھنی ہے 20 پڑھو 8 پڑھنی ہے 8 پڑھو اور آپ کو 20 سے بھی زیادہ پڑھنی ہے پڑھو لڑائی کس بات کی ہے آپ کو جتنی پڑھنی ہے پڑھو جھگڑے مت کرو کسی کی کو بدعتی یا غلط مت کہو۔ایک کے نزدیک 20رکعت پڑھنا جائز نہیں اور دوسرے کے نزدیک جائز ہے۔
ایک گروہ 20پڑھنا چاہتا ہے وہ 8رکعت نہیں پڑھے گا اور 8پڑھنا چاہتا ہے وہ 20نہیں پڑھے گا۔
آخر نماز ہی تو ہے جو میرے نبی ﷺ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔جو جتنی زیادہ پڑھے گا وہ اتنی زیادہ ٹھنڈک پہنچاۓ گا۔فرض نماز تو نہیں ہے نا پھر اختلاف کیوں؟
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/