محمد وسیم راعین
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے فضل وکرم سے اپنے بندوں کے لئے خیر کےبہت سے مواقع اور موسم(سیزن) مقرر كئے ہیں تاکہ ان خیر کے موقعوں کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ کے بندے نیکی اور اطاعت وفرمابرداری کے کام زیادہ سے زیادہ کر سکیں ، ان کی نیکیوں میں اضافہ اوربڑھوتری ہو،ان کے گناہ معاف کر دئے جائیں،ان میں وه كم ہی گناہوں اورغلطیوں کا ارتکاب کریں ۔
انہیں خیر کے سیزنوں میں رمضان کا موسم بھی ہے ، رمضان کے اس بابرکت موسم کو نیکیوں میں گزارنا چاہیے،حتی الامکان زیادہ سے زیادہ نیکیوں سے اپنے دامن کو بھرلینےکی کوشش اور فکر کرنا چاہیے اور اس ماہِ مبارک میں مختلف قسم کے نیکیاں کرنے کی کوشش ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے اس بابرکت مہینہ کو گنتی کے چند ایام بتایا ہے جو آتا ہے اور بڑی تیزی سے چلا جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے استقبال اور انتظار میں تھے کہ بڑی تیزی سے اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔
۱۔قرآن مجید کی تلاوت :رمضان کے اس بابرکت مہینہ میں جو مختلف نیک اعمال انجام دینا چاہیے انہیں مختلف نیک اعمال میں سے قرآن کریم کی تلاوت ہے ۔ اللہ تعالی نے رمضان کے مہینہ کو قرآن کا مہینہ کہا ہے : {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} [البقرة: 185].”ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے“۔
غور کیجئے کہ رمضان المبارک کی عظمت اور فرض روزے کا شریعت کی نگاہ میں جو مقام ہے وہ اپنی جگہ، لیکن اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں بتایا کہ قرآن کے نزول کے مہینہ کو روزہ کے لئے انتخاب کیا گیا ہے جس سے قرآن عظمت اور اس ماہ میں قرآن کی تلاوت کی اہمیت کا علم ہوتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ روزانہ مل کر قرآن مل کر پڑہنے کا خصوصی اہتما کرتے تھے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ»(صحيح البخاري:6، صحيح مسلم:2308)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جبریل علیہ السلام سے ملتے تواور زیادہ ہی سخی ہوجاتے ۔جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے ۔
سلف صالحین اس ماہ میں قرآن کی تلاوت کا خصوصی اہتما م کرتے ۔امام مالک رحمہ اللہ ۔تصنیف وتالیف ‘درس وتدریس چھوڑ دیتے اور کہتے کہ یہ مہینہ کھانا کھلانےا ور قرآن پڑہنے کا مہینہ ہے ۔
بعض سلف صالحین ہر تین دن میں قرآن کے ختم کا اہتمام کرتے اور بعض سات دن میں ۔ قتادہ رحمہ اللہ عموما سات دن میں قرآن ختم کرتے تھے ۔ لہذا ہر مسلمان کی حرص ہونی چاہیے کہ وہ کئی بار قرآن ختم کرے یاکم سے کم ایک بار تو ضرور کرے ۔
۲۔صدقہ وخیرات : صدقہ و خیرات،خیر کا بڑادروازہ ہے۔ اللہ تعالی نے خرچ کرنے والے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: {الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُون} [البقرة:274]. ”جو لوگ اپنے مالو ں کو رات و دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب تعالی کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی“۔
جسے مال ودولت سے نوازا گیا اور اس نے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا تو وہ خسارے میں ہوں گے۔صحیحین کی روایت ہے عن أبي ذر رضي اللهُ عنه قال: انتهيت إلى النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهو جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: «هُمُ الأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ»، قال: فجئت فَجَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ فَقُلْتُ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي مَنْ هُمْ؟ قَالَ: «هُمُ الأَكْثَرُونَ أَموَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا» من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله «وَقَلِيلٌ مَا هُمْ» (متفق عليه واللفظ لمسلم).
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا جب آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ‘آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا :”رب کعبہ کی قسم وہی لوگ زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں ” میں آکر بیٹھا اور اطمینان سے بیٹھا بھی نہیں تھا کہ اٹھ کھڑا ہوا ‘ میں نے کہا :میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا:”وہ زیادہ مال والے ہیں سوائے اس کے جس نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں ایسے‘ایسے اور ایسے کہا یعنی لے لو لے لو اور ایسے بہت کم لوگ ہیں”۔
ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:دینا اور صدقہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑی محبوب چیز تھی ۔لینے والے کو کسی چیز کے ملنے سے جو خوشی ہوگی اس سے کہیں زیادہ آپ کو دینے میں خوشی ہوتی ۔خیر کے سلسلہ میں لوگوں میں بڑے سخی تھے، اگر کوئی محتاج آجاتا تو اپنے آپ پہ اسے ترجیح دیتے، کبھی کھانے کی چیزوں کے ذریعے،کبھی لباس کے ذریعے۔ آپ صدقہ کا حکم دیتے اور زبان حال ومقال سے اس کی ترغیب دلاتے ۔اسی وجہ سے تمام مخلوقات میں آپ بڑے ہی منشرح صدر ‘ پاک طینت اور دل کے اعتبار سے بڑے سکون واطمینان میں تھے کیونکہ شرح ِ صدر کے لئےصدقہ اور نیکی کی عجیب ہی تاثیر ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کے بڑے حریص تھے ‘ صدقہ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اسی لئے میں یہ حدیث ملاحظہ کیجئے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لاَ تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلاَثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ» (متفق عليه).”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو بھی مجھے اس میں خوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے البتہ اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لئے کچھ رکھ لوں تو یہ اور بات ہے” ۔
رمضان المبارك ميں دگر دنوں کے مقابلہ صدقہ کا خاص مقام اور رمضا ن میں صدقہ کرنے کی خاص خصوصیت ہے لہذا اس ماہ میں اس جانب خاص توجہ کی ضرروت ہے ۔
صدقہ کرنے میں کھانا کھلانا بھی داخل ہے اللہ تعالی اپنے نیک بندے کے اوصاف کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لاَ نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلاَ شُكُورًا (9)} [الإنسان]. “اور اس کی محبت میں مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالی کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری”۔
کھلانے والوں کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس روایت سے بھی لگائیے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَفْشَى السَّلَامَ، وَصَلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ» (صحيح ابن حبان:509)” یقینا جنت میں ایسے کمرے ہیں جس کا ظاہر‘ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے ۔اسے اللہ تعالی نے ان کے لئے تیار کر رکھا ہے جو کھانا کھلائے ‘ سلام کو پھیلائے اور لوگ جب سوجائیں تو راتوں کو اٹھ کر نماز پڑہے “۔
۳۔افطار کرانا :رمضا ن کے اس بابرکت مہینہ میں نیکیوں کی جو مختلف راہیں ہیں انہیں میں سے افطار کرانا ہے جس کی فضیلت واضح ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْءٌ» (سنن الترمذي:807)”جو کسی روزہ دارکو افطار کرائے تو اسے روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا لیکن روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی “۔
۴۔قیام اللیل :رمضا ن کے اس بابرکت مہینہ میں نیکیوں کی جو مختلف راہیں ہیں انہیں میں قیام اللیل بھی ہے :اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے جن اوصاف کا ذکر کیا ہے ان میں قیام اللیل بھی ہے‘ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:{تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُون}[السجدة:۱6، 17].”ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اپنے رب کو خوف اورامید سے پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے چھپا رکھا ہے اس کے بدلہ جو وہ کرتے تھے”۔
قیام اللیل کی فضیلت واہمیت کا اندازہ اس روایت سے لگائیے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:«عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلَى رَبِّكُمْ وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَنْهَاةٌ لِلْإِثْمِ» (سنن الترمذی:، صحيح ابن خزيمة:1135).
“اپنے آپ پہ قیام اللیل کو لازم کرلو کیونکہ یہ پہلے کے نیک لوگوں کا عمل ہے ‘ یہ تمہارے رب سے قریب کرنے والا ہے اور گناہوں کو مٹانے اور برائیوں سے روکنے والا ہے “۔
رمضان میں رات کے نماز کی خصوصی فضیلت ہے صحیحین کی مشہور روایت ہے : «مَن قَامَ رَمَضَان إِيمَاناً وَاحتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ» (متفق عليه). “جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے”۔
قیام رمضان کا اطلاق رات کے ابتداء سے لیکر آخری پہر کی نماز پہ ہوتا ہے اور تراویح اسی میں داخل ہے لہذا اس کا اہتمام ہونا چاہیے اور اللہ تعالی سے اجر و ثواب کی امید میں اس کی شدید حرص ہونی چاہیے ۔بندہ مؤمن ان گنتی کے چند راتوں کو موقع جان کر اس عبادت کا خصوصی اہتمام کرے اور امام کے ساتھ ہی اس سے فارغ ہو جیساکہ ایک روایت میں ہے: «إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ» (سنن ابي داود:1375،سنن الترمذي:806).”جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لئے مکمل رات قیام کا ثواب لکھا جائے گا”۔
الله سبحانہ وتعالی ہمیں اس بابرکت مہینہ میں ہر قسم کی نیکیوں کی توفیق دے ۔آمین۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/