اے ایمان والو نماز قائم کرو

ریاض فردوسی۔9968012976

نماز کے شرائط!
طہارت یعنی نمازی کا بدن اور کپڑے پاک ہوں۔نماز کی جگہ پاک ہو۔سترِ عورت یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے،وہ چھپا ہوا ہو۔مردکے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے ہاتھوں،پاؤں اور چہرہ کے علاوہ سارا بدن ستر ہے۔منہ اور سینہ قبلہ کی طرف ہو۔نماز کا اپنے وقت پر پڑھناچاہئے۔دل کے پکے ارادہ کا نام نیت ہے اگرچہ زبان سے کہنا مستحب ہے۔

نماز میں چند فرائض ہیں!
(1) تحریمہ یعنی اللہ اکبر سے نماز شروع کرنا۔(2) قیام یعنی کھڑا ہونا۔
(3) قرأت یعنی فرض نماز کی دو رکعت میں اور سنن نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں قرآن کریم کی کوئی بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا۔
(4) رکوع کرنا۔
(5) سجدہ کرنا۔
(6) تشہد پڑھنے کے بقدر قعدہ اخیرہ میں بیٹھنا۔بعض حضرات کے نزدیک خرج بصنعہ یعنی اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنا بھی فرض ہے۔
(صرف شرائط اور فرائض نماز کو درج کیا ہے،واجبات اور سنن کا ذکر موضوع کے دوسرے سمت اختیار کرنے کے خدشہ سے ذکر نہیں کیا ہے)
قرآن مجید میں سو سے زائد مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے جن میں سے 80 مقامات پر صریحاً نماز کا حکم وارد ہوا ہے۔کتاب اللہ میں عموماً نماز کی جتنی جگہ تاکید آئی ہے،لفظ اقامت کے ساتھ آئی ہے، اقامت کے لفظی معنی سیدھا کرنے اور ثابت رکھنے کے ہیں اور عادةً جو عمود یا دیوار یا درخت وغیرہ سیدھا کھڑا ہوتا ہے،وہ قائم رہتا ہے اور گرجانے کا خطرہ کم ہوتا ہے،اس لیے اقامت کے معنی دائم اور قائم کرنے کے بھی آتے ہیں۔قرآن وسنت کی اصطلاح میں اقامت صلاة کے معنی نماز کو اس کے وقت میں پابندی کے ساتھ اس کے پورے آداب وشرائط کی رعایت کرکے ادا کرنا ہے،مطلق نماز پڑھ لینے کا نام اقامت صلاة نہیں ہے۔نماز کے جتنے فضائل اور آثار وبرکات قرآن وحدیث میں آئے ہیں، وہ سب اقامت صلاة کے ساتھ مقید ہیں۔رجوع الی اللہ اور خوف خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے،کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو،اس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے،لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائماً کرنا ہوتا ہے،اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے،آدمی کو بار بار دہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے۔مزید برآں کفار اور اہل ایمان، دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت رب کی روش اختیار کر لی ہے۔اہل ایمان پر اس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی علامت فوراً ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے باخبر کر دے۔ کفار پر اس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوند حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے،اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرماں برداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہوتی رہے۔ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامت صلوۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے۔اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامت صلوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کے اس دور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفار قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی 9 برس تک پستی رہی۔اس وقت دور دور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا۔اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں،یا اقامت صلوۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ ’’ نظام ربوبیت ‘‘ چلانا ہوتا،جیسا کہ منکرین سنت کا دعوی ہے،تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اور یہ حکم آنے کے بعد 9 سال تک نبی ﷺ اور مسلمان اس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے ؟

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ نماز تک تو ٹھیک پڑھ نہیں سکتے لیکن درہم چٹکی میں لیتے ہی وزن بتا دیا کرتے ہیں۔

اب جو بندے سفر میں ہو،بس پر،کسی سواری پر یا ٹرین میں یہ بہانہ نہیں بناسکتے کہ کیسے سجدہ کریں،کیسے رکوع کریں،نماز اظہار بندگی ہے جو کسی بھی حالت میں بنا کسی شرعی مجبوری(بعض ہماری بہنوں کے حیض کے دنوں میں) معاف نہیں۔جگہ کی قلت کوئ بہانہ نہیں ہے۔قضاء کرنے سے اچھاہے اشارے سے ہی ادا کرلی جائے۔

نماز کی لزت ارکان نماز کو مکمل طور پر دل سے ادا کرنے میں ہے،خاص طور پر رکوع اور سجود خلوص دل سے ادا کرنے میں بندہ سب چیزوں سے بے نیاز ہوکر بارگاہ خداوندی میں اپنی تمام عرضداشت پیش کرتا ہے اور خود کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حوالے کر دیتا ہے اور رو رو کر اپنی فریاد اللہ کو سناتا ہے،والد کو بیٹا یا بیٹی کہتاہے کہ میرا کون والد ہےآپ کے سوا میں کس سے مانگو تو والد خود کو فروخت کرکے بھی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔عبد کو معبود سے ابدی تعلق اور کشش ہے۔اسی رشتہ کو قائم و دائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا ہے۔نماز اپنے ظاہری اراکان کے اظہار سے ظاہری عبادت ہےلیکن اس میں باطنی کیفیات پنہاں ہیں۔نماز کی اس باطنی کیفیت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں خشوع و خضوع ہے۔

نماز میں خشوع و خضوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو اور اس میں اللہ کے سوا کوئ شۓ باقی نہ رہے،اَعضاء و جوارح اطمینان اور پرسکون ہو،

حالت نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت امت کو جن چیزوں کی وصیت فرمائی ان میں سے سب سے زیادہ تاکید نماز کی فرمائی، بلکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی حد یثِ صحیح کے مطابق آخری الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر بار بار آتے تھے وہ یہی تھے :

الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا ﷲَ فِيْمَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ.

(أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب في حق المملوک، 4 : 378، رقم : 5156)

’’نماز کو لازم پکڑو اور اپنے غلام، لونڈی کے بارے میں ﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔‘‘

آخر میں!

یقیناً اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرا تو اُمید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہوں گے(سورہ التوبہ۔آیت۔18)

مسجدیں آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں ، مسجدوں کو آباد کرنے میں یہ اُمور بھی داخل ہیں : جھاڑو دینا، صفائی کرنا، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ، مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: 18، 2 / 222، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ:18، ص۔429)

            مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے اعلیٰ فرش حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ڈالے، اس سے پہلے صرف بجری تھی۔ اس کی عالیشان عمارت سب پہلے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بنائی۔ اس میں سب سے پہلے قندیلیں حضرت تمیم داری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے روشن کیں۔ عہدِ فاروقی میں رمضان کی تراویح کے موقعہ پر حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چراغاں کیا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نور ِقبر کی دعا دی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بیتُ المقدس میں کِبْرِیَّتِ اَحمر کی روشنی کی جس کی روشنی بارہ مربع میل میں ہوتی تھی اور اسے چاندی سونے سے آراستہ فرمایا۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: 18، 3 / 399-400)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *