*ہم اور بعد رمضان!!!*
✒️عالم فیضی
رمضان کا مبارک مہینہ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ہم سے رخصت گیا،اس کے فیوض و برکات سے ہمیں جس قدر مستفید ہونا تھا ہوگیے۔جہاں تک ہوسکا ہم نے اسے یادگار بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔آسمان سے آگ برساتی اتنی شدید دھوپ کے باؤجود محض رضائے الہی کی خاطر صبح سے شام تک بھوک و پیاس کو برداشت کرتے رہے۔یہی نہیں بلکہ جہاں تک ہوسکا ہر قسم کے گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی پوری کوشش کیے۔نیکیوں کے اس سدا بہار موسم میں لایعنی مجلسوں سے پہلو تہی اختیار کرکے خلوت کو اوڑھنا اور بچھونا بنالیے۔اس خاص موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پابندی سے پنج وقتہ نمازیں پڑھے۔اپنے معمولات سے کچھ وقت نکال کر قرآن کریم کی تلاوت کیے،ساتھ ساتھ اللہ نے جو کچھ دے رکھا تھا حسب استطاعت اس کی راہ میں خرچ کرتے رہے،یعنی ماہ مبارک پاکر نیکیوں کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑے۔
لیکن رہ رہ کر دل میں یہ خیال انگڑائیاں لیتا ہے کہ اسے ابھی اور رہنا چاہئے تھا،اتنی بھی کیا ضرورت تھی جلد جانے کی،اس مہینے کو پاکر ابھی ہم اور نیکیاں کمالیتے،نماز روزوں سے اپنے اعمال کو سجا اور سنوار لیتے،کیوں کہ دنیا جانتی ہے کہ گزرے ہوئے ایام کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے،وقت تیزی کے ساتھ پگھلتے چلا جارہا ہے ،جس طرح امسال بھی تیزی کے ساتھ پگھل گیا،اور ہم سستی و کاہلی کے شکار نیکیاں کمانے کے لیے اب اور تب میں لگے رہے۔
ابھی ہم اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کا سوچ ہی رہے تھے کہ کل سے زیادہ نیکیاں کریں گے، لیکن وہ کل آیا ہی نہیں کہ ہم آسانی سے ماہ شوال میں قدم رکھ دئے۔افسوس ہوتا ہے کہ یہ رمضان کس قدر تیزی سے آیا اور چلا گیا،ذہن و دماغ کی نازک میموری میں اب صرف اس کی یادیں باقی رہ گئی ہیں جو رہ رہ کر گزرے ہوئے ایام کی یاد دلا رہی ہیں۔
وہ کتنا حسین اور روح پرور منظر تھاجب مساجد مصلیوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ دامنی کا شکوہ کررہی تھیں،وضو خانوں پر گہماگہمی رہا کرتی تھی،گھروں میں متنوع قسم کی لذیذ پکوان دلوں کو معطر کررہی تھی۔ہر نمازوں کے بعد افطار و طعام کے اعلان کی خوش کن صدائیں رمضان کا پتہ دے رہی تھیں،ان تمام باتوں سے بڑھ کر ہر عام و خاص کی خوشی خوشی پورے جوش و خروش کے ساتھ اس میں شرکت مدعوئین کو شکریے کا موقع فراہم کررہی تھیں۔لیکن رمضان کا مبارک مہینہ ختم ہوتے ہی یہ سارے جذبے ،جوش و خروش،للہیت،اخلاص نیکی کے کاموں میں سبقت،تقوی،اور پنج وقتہ نمازوں میں حاضری سرد مہری کا شکار ہوگیے،اب وضو خانے اور مسجدیں ویران دکھائی دے رہی ہیں،گنے چنے مصلی اب مسجدوں کی رونق بنے ہوئے ہیں،جن پر پورا شہر اور گاؤں فخر محسوس کرتا دکھائی دے گا۔
دھیرے دھیرے رمضان کا ایک مہینہ گزر گیا،لیکن ابھی تلک افطار و سحر اور دن کے سارے معمولات ذہن سے نہیں نکلے،قبل اس کے کہ ہم مزید کاہلی اور سستی کا شکار بنیں،بہتر یہ ہوگا کہ ہم اپنا محاسبہ کریں،آیا ہم نے اس ماہ میں
کیا کھویا اور کیا پایا،ہمارے روز و شب رب کی رضا میں گزرے یا نافرمانی میں۔ہم نے رب کی بارگاہ میں عجز و انکساری کا دامن پھیلاکر گناہوں کی معافی کرالی یا یونہی دوستوں کی لایعنی مجلسوں میں گپ شپ کرکے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع و برباد کردیا۔یا ایسا تو نہیں کہ ٹائم پاس کے نام پر سیریل،فلم اور لوڈو وغیرہ جیسی فالتو گیم کھیل کر رب کی ناراضگی مول لے لی۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مصداق قرار پائے:جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اور اپنے گناہوں کی معافی نہ کراسکا اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہو۔
یہ مہینہ تو ہم سے چلا گیا،لیکن ہم اس مہینے میں جس طرح عبادات کا اہتمام کیے ویسے ہی عام دنوں میں بھی اس کا اہتمام کریں۔ہم عبادات کا جو بہترین لائحہ عمل اس ماہ میں بنایا تھا وہی لائحہ عمل دیگر مہینوں میں بھی بنائیں،جس طرح ہم ہر قسم کے گناہوں سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیار کرتے تھے اسی طرح عام دنوں میں بھی گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کریں،تقوی کا جو عملی نمونہ رمضان میں پیش کیے ہوبہو وہی عملی نمونہ اب بھی پیش کریں،تاکہ رمضان کا جو تقاضہ ہے “لعلکم تتقون”اس زمرے میں ہمارا شمار ہونے لگے۔
26اپریل 2023
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/