یکتائے زمانہ؛ مولانا شفیع احمد اصلاحیؒ

*یکتائے زمانہ؛ مولانا شفیع احمد اصلاحیؒ*

*اسلم رحمانی*
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور،بہار
رابطہ:6201742128

تحریک سید احمد شہید ؒ کے پاسبان علمائے صادق پور مولانا عنایت علی صادق پوری، مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا عبدالرحیم صادق پوری، مولانا عبد الخبیر صادق پوری اور مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری محتاج تعارف نہیں ہیں۔ ان کی عظمت و رفعت سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔اس جماعت کی صحبت میں کئی ہستیوں کا ظہور ہوا انہیں میں ایک عظیم ہستی جید عالم دین، مصنف،ادیب و شاعر، انشاء پرداز، شفیق مدرس، مصلح اور صادقان صادق پور کی جماعت کے ترجمان راقم السطور کے ناناجان مولانا شفیع احمد اصلاحی(سابق پرنسپل مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ) ہیں۔ آپ مجاہد آزادی مولانا عبد الخبیر جعفری صادق پوری کے جانشین امارت اہل حدیث صادق پور پٹنہ ( ہند ) کے امیر ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے رکن ، ابو الکلام آزاد بیداری سینٹر کے رکن اور متعدد دینی و فلاحی اداروں و انجمنوں کے سرپرست و رکن مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری کے رضاعی بھائی تھے، مولانا شفیع احمد اصلاحی ایک فرد نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ،وہ اسلاف کی روایت اور اقدار کے امین تھے۔آج محترم نانا جان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ذہن میں بہت سی باتیں ابھر آئیں جو اب ہمارے لیے صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ بچپن میں جب ہم چھٹیوں میں نانہال جایا کرتے تھے تو گھر میں عید کا سماں ہوتا تھا۔بچپن میں ہم سب بچے نانا جان کے ہجرے میں ان کی چارپائی کے اردگرد جمع ہوتے، ان کو دباتے اور نانا جان ہم سے باتیں کرتے۔ان کی گفتگو زیادہ تر علمی ہوتی تھی۔ پوچھتے تھے کہ کہاں پڑھتے ہیں، کون کون سی کتاب پڑھتے ہیں، اور فلاں کتاب کے مصنف کا کیا نام ہے وغیرہ۔ آپ کی ولادت 1938 میں بشن پور ٹولہ پیر میاں، ڈاکخانہ کانٹی ضلع مظفرپور ریاست بہار انڈیا میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام حافظ شعیب دادا محترم کا نام حافظ حنیف اور جد امجد کا نام محمود ہے، آپ کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ آپ کی تعلیم و تربیت اور فراغت کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے نبیرہ محترم مجاہد مظفر شفیع سر گزشت حیات شفیع احمد اصلاحیؒ میں رقمطراز ہیں کہ:مولانا شفیع احمد اصلاحی ۱۹۳۸ میں بہار کے ضلع مظفر پور کے ایک علمی و ادبی قصبہ بیشن پور ٹولہ پیر میاں میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے اسی قصبہ میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ اور ان بزرگوں کے سائے تلے ایام طفولیت گزارے جنہوں نے علم و دانش کے آفتاب و مہتاب بن اپنے گرد ونواہ کے قصبوں کو علم و عمل کی روشنی سے منور کیا۔ ساتھ ہی آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی اپنے ان ہی بزرگوار سے حاصل کی۔ آپ کا یہ قصبہ پورا کا پورا ایک خاندان اور گھرانہ ہی تھا۔ اور یہ گھرانہ اپنے قرب جوار میں علم و ادب اور ثقافت کا مرکز و محور مانا جاتا تھا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا قصد کیا اور وہاں سے 1957 میں سند تحصیل کرنے کے بعد اصلاح المسلمین پٹنہ کا قصد کیا چونکہ آپ کا گھرانہ خانوادہ صادق پور سے مستفید ہوتا چلا آرہا تھا ۔ اور اپنے مذہب اور اپنے وطن کی پاسداری و پاسبانی کے لئے وقتاً فوقتاً خانوادہ صادق پور کے دوش بدوش علمی اور عملی فرائض انجام دے رہا تھا۔ آپ کے والد محترم جناب حافظ شعیب صاحب رحمہ اللہ بھی انہی جیالوں میں سے تھے جہنوں نے اپنی پوری زندگی مدرسہ اصلاح المسلمین (موجود جامعہ اصلاحیہ سلفیہ) کو وقف کر دی۔ اور اس میں تا عمر زندگی خدمات انجام دیتے رہے۔ مولانا شفیع احمد اصلاحی بھی وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چل پڑے ۔ اور پورے تن من کے ساتھ خدمت خلق میں اپنے آپ کو صرف کردیا۔
زہد وقناعت اور علم وعمل کا پیکر خاکی:آپ کی زہد و قناعت اور علم و عمل کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی چھوٹی صاحبزادی اور راقم کی والدہ محترمہ فرزانہ شفیع کہتی ہیں کہ:اباجی (مولانا شفیع احمد اصلاحی) علماء کے قدر داں ، مہمان نواز ، دریا دل ، بیواؤں، یتیموں، غریبوں، کے مسیحا تھے غریبوں کی مدد کرنے میں ان کی پوری زندگی وقف تھی۔آپ کا نام دور دراز مقامات پر بھی روشن ہو گیا اپنی اور اپنے بچوں کو سنت کی پیروی پر آمادہ رکھا ، مجال نہ تھی کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی خلاف سنت کوئی کام کرسکتا ، جودو سخا میں یکتائے زمانہ تھے ، آپ خلیق با مروت کرم فرما تھے۔

*عادات و اطوار*:آپ نیک خدا ترس ، متقی شب زندہ دار تھے پوری زندگی درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ میں صرف کردی،انتہائی خو د دار تھے پوری زندگی کسی سرمایہ دار کے جیب پر بوجھ نہ بنے۔مولانا مرحوم توحید و سنت پر دل سے شیدا تھے اپنی ساری عمر آپ نے جس پرہیز گاری اور احتیاط سے بسر کی، اس کی مثال ملنی مشکل ہے آپ کا اکل حلال ضرب المثل بنا، ﷲ رب العزت نے آپ کو حق گوئی امانت دیانت خلوص توکل اور استغناء جیسی صفات سے نوازا تھا ہمیشہ حق بات کہتے تھے خواہ کوئی ناراض کیوں نہ ہو جائے،مہمان نوازی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیشہ ایک دو مہمان آپ کے یہاں رہا کرتے تھے۔نہایت متواضع ، منکسر اور ملنسار تھے۔ علماء ، طلبا سے بدرجہ غایت محبت رکھتے تھے ۔ہر طالب علم کی ذہنی اور علمی صلاحیت کا خیال رکھتے تھے اور اس نہج سے بات کرتے جو وہ آسانی سے سمجھ سکتا۔
علما ء وطلباء کے علاوہ غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے رابطہ رکھتے۔ رشتے داروں اور غیر رشتے داروں سب سے حسن سلوک کا برتاؤ فرماتے ۔ سب کی بات توجہ سے سنتے اور مشورہ لینے والوں کو مفید مشورہ دیتے۔
ان کا زیادہ تر وقت درس و تدریس ، مطالعہ و تصنیف اور قرآن و حدیث کے مسائل پر غور و تدبر میں صرف ہوتا یا عبادت اور ذکر الہی میں مشغول ہوجاتے۔ نرم کلام اور شیریں گفتار تھے۔ وقار و متانت کا پیکر اور رعب وجلال کے مالک ۔ لوگوں سے ملتے اور ان کی ضروری باتیں سنتے لیکن کسی کو ان کی مجلس میں کسی شخص کی غیبت کرنے یا کسی کے متعلق ناشائستہ الفاظ کہنے کی مجال نہ تھی۔ اگر کسی کی زبان سے اس قسم کا کوئی لفظ نکل جاتا تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے ۔ ان اوصاف وکمالات کی وجہ سے لوگ ان سے انتہائی متاثر تھے اور ان کے دلوں میں ان کی بے پناہ قدر تھی۔ مولانا عبدالباقی قاسمی رقمطراز ہیں کہ:

حضرت مولانا شفیع احمد اصلاحی صاحب نوراللہ مرقدہٗ پرانی قدروں کے اور پرانی پیڑھی کے یادگار بزرگوں میں تھے۔ آپ کے اندرعاجزی اور انکساری بیحد بھری ہوئی تھی اپنے اسلاف کے بے حد قدر دانوں میں تھے۔ خاص کر مولانا عبد الخیر صاحب نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی اور بزرگی سے آپ نے بے حد فیض پایا اور عالم باعمل کے اوصاف حمیدہ آپ کے اندر پایا جانے لگا تو آپ کی بحالی بھی مدرسہ اصلاح المسلمین میں ہوگئی قبل سے آپ کے والد محترم صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ اصلاح المسلمین میں زمانہ قدیم سے تھے آپ نےاپنے بزرگوں کا زمانہ دیکھا تھا خاص کر حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب سلفی نوراللہ مرقدہٗ دربنھگہ کا زمانہ بھی کافی دیکھا تھا اس وقت حضرت مولانا محمد صداقت حسین صاحب قاسمی مدرسہ ھذا کے صدر المدرسین ہوا کرتے تھے پھر حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری صاحب سرپرست مدرسہ ھذا کے ساتھ رہاکرتےتھے۔

شفیع احمد اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے اندر خاکساری بہت زیادہ تھی مدرسہ اصلاح المسلمین کے ہر ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے تھے ہر کسی سے بات چیت بے حدنرمی سے کیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ ان کی زبان میں مٹھاس ہے اور اکرام کا بےحد جذبہ ہے پان چباتے رہتے اور باتوں ہی باتوں میں آپ پیار بھرا جملہ بولنے کے عادی تھے انہیں دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا وہ بےحد مطمئن اور مستغنی ہیں کوئی فکر و تردد نہیں جب دیکھیےان کے اندر ایک ہی دھن سوار ہے کہ مدرسہ کی ترقی اور فلاح کے لئے کام کیا جائے آپ نےنہایت ملنسار چھوٹے اور بڑے کا بہت خیال فرمایا کرتے تھے۔

(مضامین ڈاٹ کام اشاعت 11/اپریل 2019)

 

*باجماعت نماز کی پابندی*:نماز باجماعت کا نظام امت کی دینی تعلیم و تربیت اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبری کا ایک ایسا غیر رسمی اور بے تکلف انتظام بھی ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور ایک مسلمان کی زندگی میں ترتیب، نظم و ضبط، پابندی وقت اور اسلامی و معاشرتی اقدار خوب خوب نظر آتی ہیں۔باجماعت نماز کی وجہ سے مسجد میں عبادت و انابت اور توجہ الیٰ اللہ و دعوت صالحہ کی جو فضاقائم ہوتی ہے اور زندہ قلوب پر جو اس کے اثرات پڑتے ہیں باجماعت نماز کے ذریعے ہی امت میں اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میںشریک ہوتے ہیں جس سے دینی اخوت اور محبت ایمانی کا پورا اظہار و استحکام ہوتا ہے، جس کا شریعت ہم سے تقاضا کرتی ہے اور قرآن و حدیث میں جابجا اس کی فضیلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا شفیع احمد اصلاحی باجماعت نماز کے بہت پابند تھے آپ کے فرزند اکبر مظفر شفیع اصلاحی بتاتے ہیں کہ:
اباجی(مولانا شفیع احمد اصلاحی)باجماعت نماز کے بہت پابند تھے کیامجال تھی کہ نماز کے وقت گاؤں کا کوئی شخص مسجد کے علاوہ دوسری سمت ان کے سامنے سے گذر جائے ، نماز کے معاملہ میں وہ کسی کو نہیں بخشتے تھے۔ اذان ہوتے ہی گھر سے نکلنا ضروری ہوجاتا تھا سنت کے بڑے پابند تھے تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑتے تھے گھر کا ماحول بالکل کسی مدرسہ کی طرح تھا۔ راقم نے آپ کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے بارہاں دیکھا ہے۔آخری عمر میں جب کہ اعضاء کمزور ہوگئے تب بھی آپ مسجد جانے کی کوشش کر تے تھے اورباجماعت نماز پڑھا کرتے تھے۔

*زہد وقناعت*:آپ حقیقی معنوں میں زاہد تھے۔انھوں نے دنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی ۔ پوری زندگی تمام تر مسائل کو نظر انداز کرکے صرف درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کو لیکر متحرک رہیں۔ ان کی زندگی نہایت درویشانہ اورغریبانہ تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش وآرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ وہ علماء اور عوام کے مرکز عقیدت تھے اور حکومت بھی ایک زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی۔ لیکن وہ فکر علماء صادق پور کو لیکر اس طرح دنیا سے منقطع ہوکر بیٹھ گئے کہ پھر موت کے سوا ان کے زاوئیے سے ان کو کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔ آپ کے آبائی وطن سے متصل برہمپورہ ہائی اسکول انتظامیہ کی طرف سے معقول مشاہرے پر آپ کو وہاں کی صدر مدرسی کی پیش کش ہوئی ، لیکن آپ نے جمعہ کی نماز میں گاؤں کی مسجد مصلیان کرام کے سامنے اشکبار آنکھوں سے کہا کہ اللہ میری پگڑی کی لاج رکھ لجیے اور یہ کہتے ہوئے آپ نے یہ پیش کش قبول نہیں فرمائی۔ فرمایا بقدر کفاف جو کچھ مجھے مل رہا ہے ،میں اس پر خوش ہوں۔آپ علمائے ربانین میں سے ایک عالم باعمل ، خشوع و خضوع کے پیکر، رقیق القلب ، کثیر البکاء ، سخی اور طلباء کیلئے ایثار پیشہ اور انتہائی خیر خواہ خورش وپوشش میں تکلف سے دور، دنیا سے بے نیاز ، عہدہ و منصب اور تنخواہوں کی حرص سے پاک ۔ مطالعہ و تصنیف اور ذکراﷲ میں مشغول۔ سلیم الطبع، صاحب اللسان مگر خاموشی پسند۔ مولانا عبدالباقی قاسمی لکھتے ہیں کہ:

وہ اکثر مسکراتے رہا کرتے تھے ہر کوئی سے ایسے گھل مل کر باتیں کرتے تھے جیسے سبھی ان کا عزیز ہی ہو وہ چائے پان کے بہت عادی تھے ان ہونٹ ہر وقت لاہی لال رہتا تھا۔ کبھی آپ کے چہرے پر غم کے آثار نہیں دیکھا ۔شفیع احمد اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم بھی قبل سے ہی مدرسہ اصلاح المسلمین میں مدرس کی حیثیت سے تھے میں نے آپ کے والد محترم کو بھی دیکھا ان کے چہرہ پر غم کے آثار نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی بے حد نیک مجاز ملنسار اور خاکسار عاجزی و انکساری آپ کے اندر موجود تھی۔تو گویا اپنےوالدمحترم اور بزرگوں سے زندہ دلیوالی خوبیاں انہیں ورثہ میں ملی تھیں-

زندگی زندہ دلی کانام ہے

مردہ دل کیاخاک جیاکرتے ہیں

(ایضا)

*بہترین خطیب*:مولانا شفیع احمد اصلاحی ایک بہترین خطیب بھی تھے،ان کاطرزخطابت علمی وادبی چاشنی سے بھرپورہونے کے باوجودعوام میں اس قدرمقبول تھاکہ 1961-1962 کے عہد میں درزی ٹولہ پٹنہ کی جامع مسجد میں نمازِعصر کی ادائیگی کے بعد مجمع آپ کی تقریرکے سحرمیں یوں ہمہ تن گوش رہتاتھاکہ کسی چہرے پرتھکن کااحساس ہوتاتھااورنہ ہی کسی زبان پرکوئی شکوہ ڈاکٹر اسلم جاوداں مولانا شفیع احمد اصلاحی ایک یادگار شخصیت میں لکھتے ہیں کہ:

مولانا جس موضوع کو اٹھاتے کم وقت اور کم الفاظ میں بتدریج منتہائے مقصود تک پہنچا دیتے۔ جب تقریر شروع کرتے تو نہایت دھیمے لہجے میں اپنی باتیں پیش کرتے،ایسا لگتا کہ کچھ سنائی دے رہا ہے اور کچھ سنائی نہیں دےرہا ہے۔چند ہی سکنڈوں میں لوگ ہمہ تن گوش ہوکر ان کی بات پر کان دھرنے کی کوشش کرتے اور حاضرین پر سکوت طاری ہوجاتا۔
(قومی تنظیم پٹنہ، جمعہ 22/ دسمبر 2006)
*مصنف، ادیب اور انشاءپرداز*:آپ ایک ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرز ادیب بھی تھے،مجاہد مظفر شفیع لکھتے ہیں کہ:مولانا علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ ادبی صلاحیتوں کے بھی غیر معمولی طور پر حامل تھے۔ آپ کو اردو ادب کی شاعری پر کافی گرفت حاصل تھی جا بجا بر محل اشعار کہا کرتے تھے۔ آپ اپنے وقت کے ابھرتے ہوئے شاعر و ادیب تھے لیکن افسوس کہ زندگی نے آپ کے ساتھ وفا نہ کی ۔ اس کے باوجود آپ نے ایک قلیل سی مدت میں انشا پردازی میں وہ خدمات انجام دیئے جس کو آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا آپ کے مضامین کئی اخباروں اور رسالوں کی زینت بنی آپ نے کئی کتابوں کو مرتب کیا۔ لیکن افسوس ان میں سے کئی کتابیں حوادث زمانہ کے ساتھ ناپید ہو گئی ان کی تخلیقی کتاب جیسے “دجال کے ہتھکنڈے”اور “دود شمع”وغیرہ کو پڑھ کر اسلوب شفیع اصلاحی کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یقینا ان کا طرز و اسلوب نہایت ہی شائستہ ہے ۔ان کی قلمی کاوشویں نہایت ہی شاندار اور لہکدار ہے۔

*بحیثیت شاعر*:آپ ایک ممتاز عالم دین، کامیاب مدرس، منتظم، مربی، محسن اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے، آپ کے شاعرانہ ذوق کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم جاوداں رطب اللسان ہیں کہ:

رمضان کے مہینے میں ہر دن مسجد( درزی ٹولہ پٹنہ) کے باہر بورڈ پر مولانا موصوف کوئی اصلاحی پیغام یا حدیث یا قرآن کی آیات کا ترجمہ لکھ دیتے گویا اس دن کا سبق ہوتا اکثر و بیشتر وہ قیمتی اور حکیمانہ اشعار بھی تحریر فرما دیتے، میں روزانہ اس بورڈ کو تاکید سے پڑھا کرتا اور انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرتا اس زمانے کے یاد کردہ چند اشعار آپ بھی سن لیں:

عشق کا دعوٰی زبانی کرکے میں بھی تھا مطمئن
دریں عبرت دے گیا جل جل کے پروانہ مجھے

میں آواز جریں ہوں پے بہ پے فریاد کرتا ہوں
جگا دے کارواں کو خواب سے شاید فغاں میری

(قومی تنظیم پٹنہ، جمعہ 22/ دسمبر 2006)

*مدرسہ تقویۃالایمان کاقیام*:انیسویں صدی بر صغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کے بعد کی صدی تھی. مغل حکومت کے اختتام اور بر طانوی سامراج کے استحکام نے مسلم معاشرے کے لئے سنگین مسائل پیدا کر دئے تھے، اقتدار سے محرومی نے جہاں ایک طرف شکست خوردگی کی ذہنیت کو جنم دیا وہیں بہت سی معاشرتی برائیاں بھی در آئیں. جہالت، بدعات اورمشرکانہ رسوم مسلم معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی تھیں. مظفرپور کا دور افتادہ علاقہ بش پور ٹولہ پیر میاں بھج ان مسائل سے متاثر تھا، لہذا تحریک سید احمد شہید کو پروان چڑھانے اور کتاب وسنت کے نشر و اشاعت کے لئے بش پور میں آپ نےمدرسہ تقویۃ الایمان کی داغ بیل ڈالی۔ بقول مظفر شفیع اصلاحی:
چمن منزل درزی ٹولہ پٹنہ کے خاص تعاون سے ۱۹۸۱ء میں مدرسہ تقویۃ الایمان کی بنیاد رکھی جس سے مسجد کے منبر ومحراب آباد ہوئے تو وہیں بچوں میں دینی تعلیم وتربیت کا فروغ ہوا جو آج سامنے ہے۔علم وادب کا یہ چمکتا سورج 13/ مارچ 2010کو بشن پور ٹولہ پیر میاں، کانٹی، مظفرپور، بہار، انڈیا میں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا اور ہمارے دلوں پر اُداسی کے سائے چھوڑ گیا۔ لیکن ان کے لکھے ہوئے لفظوں کی روشنی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی، اہل ادب کو راستہ دکھاتی رہے گی۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *