بھارت کی تاریخ میں مغلیہ سلطنت کے خدمات

بھارت کی تاریخ میں مغلیہ سلطنت کے خدمات !

ریاض فردوسی۔9968012976

بادشاہوں،نوابوں اور امراء کی تاریخیں  جنگوں سے بھری ہوتی ہیں۔جنگیں صرف دو ہی مقاصد کے لیے کی جاتی تھیں۔اول سلطنت کی توسیعی عمل کے لیے اور دویم باغیوں کی سرکوبی کے لیے۔
ہندوستان میں مغلوں نے بھی ان ہی دو عزائم کے لیے جنگیں کی۔ہندوستان میں مغل خاندان کی بنیاد بابر نے ڈالی جب اس نے سال 1526 ء میں پانی پت کی پہلی جنگ  میں ابراہیم لودی کو شکست دی۔
بابر کا نسبی تعلق تاریخ کے دو عظیم سلطنتوں سے تھا۔ماں کی طرف سے وہ مشہور منگول فاتح اور حکمران چنگیز خان اور باپ کی طرف سے مشہور  ترک حکمران تیمور کی اولاد میں سے تھا۔
بابر کی حکومت ازبکستان میں واقع فرغانہ میں تھی،جب  وہاں اس کی حکومت ختم ہوگئی تو وہ ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا۔پانی پت کی جیت کے بعد بابر نے میواڑ کے راجہ رانا سانگا اور اسکے حلیف راجپوتوں کو سال 1527ء میں کھنوا کی جنگ میں شکست دیکر شمالی ہندوستان پر قابض ہو گیا۔ہمیں یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہیے کہ جنگوں کے ادوار میں زمینوں،خطوں اور علاقوں کا مالک اور متصرف وہی لوگ ہوتے ہیں،جو اپنی فوجی طاقت سے اسے جیت کر اس پر قابض ہوتے ہیں۔جدید دور میں جب قومیت کے نام پر قومی ریاست کا وجود پزیر ہوا تب سے یہ عالمی قانون بن گیا ہے کہ اب کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ آور نہیں ہوگا اور ہر ملک کی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا،اگرچہ اب بھی طاقتور ملک اس بات کا حریص ہوتا ہے کہ کمزور ملک پر فوج کشی کر کے اس پر قابض ہو جائے۔ دوسری بات جنگوں میں وہی لوگ مارے جاتے ہیں جو جنگ کے میدان میں آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ہمارے ملک بھارت میں مسلمان بادشاہوں کے ہاتھوں غیر مسلم اس لیے قتل ہوۓ کیونکہ میدان جنگ میں مسلمان بادشاہوں کے مقابل میں وہی لوگ تھے۔
کشان خاندان کے زوال کے بعد  بابر کا فتح ہند پہلا موقع تھا کہ کابل اور قندھار شمالی بھارت کا حصہ بن گیا۔بابر نے پانی پت کی جنگ میں توپ خانے کا استعمال کرکے لوگوں کو جدید جنگی ہتھیار  سے متعارف کرایا۔بابر ایک تعلیم یافتہ حکمران تھا۔
اسے عربی،فارسی اور ترکی زبانوں کا علم تھا۔
اس نے ترکی زبان میں تزک بابری (جسے بابر نامہ بھی کہتے ہیں‌) کو قلمبند کیا جسے بعد میں شہنشاہ اکبر نے فارسی زبان میں ترجمہ کروایا۔بابر باغات کا کافی شوق رکھتا تھا۔اس نے بھارت کے حیوانات اور نباتات کا تفصیلی مطالعہ کیا تھا۔اس نے باغات لگوائے اور اس میں پانی کے بہاو کا بھی اہتمام کروایا۔سڑکوں کی ماپ کے لیے اس نے گج بابری نامی پیمائش کا استعمال کیا تھا۔
سال 1530ء‌ میں بابر کی وفات کے بعد اس کا لڑکا ہمایوں دہلی کے مسند پر تخت نشیں ہوا لیکن شیر بہار شیرشاہ سوری کے ہاتھوں  1539ءمیں بکسر کی جنگ میں اور ایک سال بعد 1540ء میں  کنوج کی جنگ میں ہمایوں کی شکست ہوئ اور مغلیہ سلطنت کا دور ختم ہو گیااور قریب پندرہ سالوں تک ہمایوں کو  ایران میں جہاں سفاوید خاندان کی حکومت قائم تھی ہندوستان سے بھاگ کر پناہ لینی پڑی۔ 22 جون 1555ء کو سرہند کی جنگ میں ہمایوں نے ایرانی فوج کی مدد سے سکندر شاہ سوری کو شکست دی اور دوبارہ مغلیہ حکومت کو قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ہمایوں اپنے بھائی کامران مرزا سے کابل اور قندھار بھی فتح کر لیا۔جب ہمایوں ایران سے واپس لوٹا تو اسے کے ساتھ ایرانی شرفاء بھی ہندوستان تشریف لائے اور ان کے آنے سے ہندستان میں  ایرانی زبان و ادب،فنون اور فن تعمیر کو فروغ  حاصل ہوا۔
ہمایوں کے انتقال کے بعد اس کا لڑکا جلال الدین محمد اکبر جو مغلیہ تاریخ میں اکبر اعظم کے نام سے مشہور ہے 1556 ء میں تخت نشیں ہوا اور سال 1605ء تک حکومت کیا۔شہنشاہ اکبر کے ابتدائی ایام میں اس کی حکومت کو خطرہ سوری خاندان کے آخری حکمران عادل شاہ سوری اور اس کے سپہ سالار ہیموں یا ہیم چندر وکرما دیتیہ سے تھا۔پورے شمالی ہندوستان میں پنجاب سے لیکر بنگال تک ہیموں افغان باغیوں کے خلاف 22 جنگیں جیت چکا تھا۔ہیموں نے مغلوں کی ایک فوج کو جس کی قیادت تاردی بیگ خان  کر رہا تھا دہلی کے قریب تغلقہ باد میں اکتوبر 1556ء میں شکست دی تھی لیکن ایک ماہ بعد نومبر 1556ء میں  پانی پت کی جنگ  میدان میں ایک تیر ہیموں کی ایک آنکھ میں لگنے سے  اندھا ہو گیا،اسے گرفتار کرکے اس کا سر قلم کر دیا گیا اور اس طرح سوری خاندان کا خطرہ مغلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔اس جیت کے بعد مغل فوج کا دہلی اور آگرہ پر قبضہ ہو گیا۔ مغل شہنشاہ اکبر ساری زندگی فوجی مہم میں مصروف رہا۔اکبر نے لاہور اور پنجاب کے شہر ملتان، اجمیر اور گوالیار کے قلعوں اور مالوا کو فتح کیا۔ اس کے بعد 1564ء میں مغلوں نے گونڈہ کی راجپوت مہارانی درگاوتی کو شکست دی اور اس کی سلطنت کو ملحق کر لیا۔اس کے
بعد 1572ء میں گجرات کی طرف رخ کیا اور احمدآباد  کو فتح کیا،گجرات کی فتح کے یاد میں اکبر نے فتح پور سکڑی میں بلند دروازہ تعمیر کروایا جو دنیا کا سب سے اونچا دروازہ ہے۔سال 1575ء میں بنگال بھی فتح ہو گیا۔سال 1576ء میں اکبر نے میواڑ کے راجہ مہارانا پرتاپ سنگھ کو ہلدی گھاٹی کی جنگ میں شکست دی۔اکبر سال 1581ء سے سال 1593ء تک کابل،کشمیر،لداخ اور سندھ یہ سبھی علاقوں کو فتح کر لیا۔سال 1595ء میں قندھار بھی مغلیہ سلطنت کے ساتھ جڑ گیا۔
سال 1593ھ میں شہنشاہ اکبر جنوبی ہند کے سلطانوں کے طرف متوجہ ہوا اور سال 1595ء میں اکبر نے احمد نگر قلعہ کا محاصرہ کیا مجبوراً سلطانہ چاند بیوی کو صوبہ برار اکبر کو  سونپنا پڑا۔ اس طرح شہنشاہ اکبر نے ہندوستان کو جو مختلف سلطنتوں میں منقسم تھا فتح کے ذریعہ اسے متحد ( Unification)  کرنے میں کامیاب ہوا۔
اکبر ایک سیکولر حکمران تھا۔وہ سیکولرزم میں اس انتہا کو پہونچ گیا کہ اسے علماء سے کفر کا فتویٰ بھی سننا پڑا۔سال 1564ء میں اس نے ہندوؤں پر لگنے والے جزیہ ٹیکس منسوخ کر دیا۔اس نے اس سے پہلے بنارس،پریاگ اور دیگر مذہبی مقامات کے زیارت کے لیے جانے والے زائرین پر سے زیارت ٹیکس بھی معاف کر دیا تھا۔اس نے اپنے نورتنوں میں ہندوؤں کو بھی شامل کیا تھا۔آمیر کے راجہ بھارمل کے پوتے اور بھگوان داس کے لڑکے مان سنگھ جو مغلیہ فوج کا سپہ سالار  تھا،راجہ ٹوڈرمل جو زمین کے خراج کے متعلق آفیسر تھے اور بیربل اور تانسین جسے سنگیت سمراٹ کہا جاتا ہے یہ تمام لوگ اکبر کے نورتنوں میں سے تھے۔اکبر نے ہندوؤں کے مذہبی کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کروایا۔ فیضی نے جہاں ایک  طرف اکبر نامہ کتاب لکھی  وہیں دوسری طرف اس نے گیتا اور مہابھارت  کا فارسی میں  ترجمہ کیا۔اس کے علاوہ اکبر نے  اتھروید اور سنگھاسن بتیسی،بائبل کا بھی ترجمہ کروایا۔اکبر نے راجپوتوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کیا۔اس نے آمیر کے راجہ بھارمل کی بیٹی جودھابایی کے ساتھ شادی کی۔اس کے علاوہ جیسلمیر اور بیکانیر کے راجپوت راجاؤں کی لڑکیوں سے بھے شادی کی۔سال 1575ء میں اکبر نے فتح پور سکڑی میں ایک عظیم عبادت خانہ تعمیر کروایا جہاں تمام مذاہب مثلاً ہندو،عیسائی،جین،مجوسی کے لوگ عبادت کرتے تھے۔
یہاں اکبر مختلف مذاہب کے علماء کے مابین بحث و مباحثہ بھی سنتا تھا۔چتور کےفتح کے بعد اکبر نے رانا اودیے سنگھ کے دو وفادار بہادر سپاہیوں جےمل اور فتہ جو اپنے راجہ کی غیر حاضری میں مغلیہ فوج کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے انتقال کر گیے ان کے اعزاز میں آگرہ کے قلعہ کے مین  گیٹ پر ہاتھی پر سوار ان دونوں کی پتھر کی مورتیاں قائم کرنے کا حکم دیا۔
شہنشاہ اکبر نے سماج اور تعلیم کے میدانوں میں بھی نمایاں کام انجام دیا۔اس نے ہندو سماج سے ستی پرتھا کو ختم کر دیا،اس نے بیوہ کی نکاح کو قانونی درجہ دیا۔شادی کی عمر لڑکیوں کے لیے چودہ سال اور لڑکوں کے لیے سولہ سال متعین کر دی۔
اکبر نے تعلیمی نصاب میں بھی اصلاح کا کام کیا۔ اس نے اخلاقیات،زراعت،ریاضیات،جیومیٹری،علم فلکیات،علم الکلام،تاریخ جیسے مضامین کی پڑھائی پر زور دیا۔
شہنشاہ جہانگیر بھی اکبر کی طرح سیکولر مزاج کا تھا۔وہ اپنے باپ کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے راجپوتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیا۔
اپنے تخت نشینی کے ساتویں سالگرہ کے موقع پر اس نے رکھشا بندھن تیوہار منایا اور اپنی کلایی پر راکھی بندھوایا۔جہانگیر کی ساس عصمت بیگم یعنی نورجہاں کی ماں نے گلاب سے عطر بنانے کے طریقہ ایجاد کی جسے  وہ اپنی بیٹی کو  بھی سکھایا۔مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جہانگیر عدل جہانگیر کے نام سے مشہور ہے۔اس نے سونے کی ایک لمبی زنجیر بنوائی جس میں گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کو راج محل کی دیوار سے لٹکا دیا گیا۔اس زنجیر کو کھینچ کر کوئی بھی فریادی اپنی فریاد کو بادشاہ کے سامنے پیش کر سکتا تھا۔
شہنشاہ شاہ جہاں کو فن تعمیر کا  کافی شوق تھا۔ اس نے دہلی کے قریب شاہ جہاں آباد شہر کی بنیاد ڈالی۔اس نے آگرہ میں تاج محل بنوایا جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے لوگ آتے ہیں یہ ہماری مرکزی اور یوپی ریاست کی آمدنی کا بہت بڑا  ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ شاہجہاں نے دہلی کا لال قلعہ،جامع مسجد،چھوٹا قطب مینار اور آگرہ میں موتی مسجد تعمیر کروایا۔اس نے لال قلعہ کے اندر دیوان عام اور دیوان خاص بھی بنوایا۔
شاہ جہاں کا  تخت طاووس (Peacock Throne) سونے کا بنا ہوا تھا اور  کوہی نور ہیروں سے جڑا ہوا تھا۔اس نے موجودہ پاکستان کے لاہور میں مسجد وزیر خان،لاہور قلعہ کے اندر موتی مسجد،لاہور میں شالیمار گارڈن، پیشاور میں مہابت خان مسجد اور سندھ میں شاہ جہاں مسجد تعمیر کروایا۔
شاہجہاں کے دور حکومت  میں سندر داس،چنتامنی اور کو یندرا چاریہ جیسے  ہندی کے عظیم شعراء  تھے۔شاہجہاں نے سنسکرت کے عظیم شاعر جگن ناتھ کو مہا کوی رائے کا خطاب دیا۔شاہجہاں کا بڑا لڑکا دارا شکوہ بھگود گیتا اور اپنیشد کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ان شاہی لوگوں نے اپنے اعمال سے ثابت کیا کہ ان کو نہ ہی زبان سے تعصب تھا اور نہ ہی ہندو رعایا سے۔یہ لوگ عدل و انصاف اور مساوات کے علمبردار تھے۔
اورنگزیب کے دور حکومت میں مغل خاندان پورے برصغیر ہند تک توسیع کر  چکا تھا اور اپنی عروج کے انتہا تک پہونچ چکا تھا۔اپنے فتوحات کی وجہ سے وہ عالمگیر کے نام سے مقبول ہوا۔
مغل شہنشاہوں میں اورنگزیب ہی واحد مغل شہنشاہ  ہے جو غیر مسلموں میں غیر مقبول ریا ہے۔ اس کی مذہبی پالیسی کی وجہ سے غیر مسلم اسے  ناپسند کرتے ہیں حالانکہ ہمارے یہاں مذہبی علماء صرف ان ہی کے نام پر دعایہ کلمات رحمت اللہ علیہ کا استعمال کرتے ہیں۔اورنگزیب پر الزام ہے کہ اس نے ہندوؤں پر دوبارہ جزیہ ٹیکس لگا دیا۔
اس نے ہندو تیوہاروں کو عمومی طور پر مناۓ جانے سے  منع کر دیا۔اس پر ہندوؤں کے مندروں کے توڑے جانے کا الزام ہے۔اس نے ہندو زائرین پر ہندو مذہبی مقامات کے زیارت کرنے پر ٹیکس لگا دیا،لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے کاشی کے کو یندرا چاریہ کے التجا پر کاشی سے زیارت ٹیکس ہٹا دیا تھا۔گجرات کے کھمبات کے ہندوؤں کی  درخواست پر اس نے گو کشی پر پابندی لگا دی اور احمدآباد کے چنتامنی مندر کا از سر نو مرمت کروا دیا۔اورنگزیب کا بعض مذہبی اقدام بلاشبہ عین اسلامی تھا۔اس نے جھروکہ درشن کے رسم کو جو  شہنشاہ ہمایوں کے وقت سے چلا آ رہا تھا ختم کر دیا۔جھروکہ درشن (Emperor worship) کی ہی ایک شکل تھی۔اس رواج میں بادشاہ محل یا قلعہ کے بالکونی میں بیٹھا ہوتا اور رعایا اس کی طرف نظروں سے دیکھتا گویا کوئی مورتی کو دیکھ رہا ہو۔اس کے علاوہ اورنگزیب نے  مسلم لڑکی کا ہندو لڑکا سے نکاح پر پابندی عائد کر دی۔
اورنگزیب سے سکھ قوم بھی ناراض ہو گئ تھی۔ ابتداء میں سکھوں کے گوروؤں کا دھیان صرف مذہبی امور اور روحانیت پر مرکوز تھا،لیکن آہستہ آہستہ سکھوں کے گورو  سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگے اور اپنی فوج بھی تشکیل کرنے لگے اور خود اس فوج کے سربراہ بننے لگے اور مغل حکومت کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ بھی ہو گیے۔ جہانگیر نے سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو کو شہزادہ خسرو کے بغاوت میں حمایت کرنے اور مدد دینے کی جرم میں پھانسی دے دی۔
سکھوں کی طاقت لگاتار بڑھ رہی تھی۔اس بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے اورنگزیب نے سال 1675ء میں  سکھوں کے نویں گورو تیگ بہادر کو پھانسی کی سزا  دی۔سکھوں کے دسویں اور آخری گورو گووند سنگھ کے دو بڑے لڑکے مغلوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے سال 1704ء میں مارے گئے۔
سرہند کے مغل گورنر وزیر خان کی فوج نے گورو گووند سنگھ کے دو چھوٹے لڑکوں کو گرفتار کیا اور دونوں کو دین اسلام قبول نہیں کرنے پر دیوار میں زندہ چنوا دیا۔سال 1707ء اورنگزیب کے انتقال کے بعد وزیر خان نے گورو گووند سنگھ کا قتل کروا دیا۔
این۔سی۔ای۔ار۔ٹی (NCERT) نے تاریخ کی کتاب سے مغلیہ سلطنت کے ابواب کو نکال دیا۔اس کی وجہ غالباً اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی کہ NCERT  نہیں چاہتی کے جدید دور کے  غیر مسلم مسلمان بادشاہوں کے ہاتھوں ہندو راجاؤں کی شکست کی تاریخ پڑھے اور مسلمان بادشاہوں کی عظمت بیان کی جائے۔NCERT نہیں چاہتی ہندو حکومتوں کا ہندوستان سے خاتمہ اور مسلمانوں کی حکومت کا قیام کی تاریخ پڑھ کر ملک کا ایک طبقہ احساس کمتری میں رہے اور حوسلہ پست( demoralized) ہو جائے۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *