موجودہ حالات میں اِسْتِقامَت فی الدین(قسط اول)
🍁✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
❃ آزمائش اور اِسْتِقامَت فی الدین
❃ اِسْتِقامَت کا مفہوم
❃ قرآن کی نظر میں اِسْتِقامَت فی الدین
❃ اِسْتِقامَت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
❃ صحابہؓ کا عمل اور اِسْتِقامَت فی الدین
❃ راہِ حق میں صحابہ کرامؓ کی ثابت قدمی
❃ اِسْتِقامَت کی اصل بنیاد دِل
❃ اِسْتِقامَت فی الدین کیسے اختیار کریں
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
عالمِ اسلام اور خصوصاً ملّتِ اسلامیہ ہند تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہی ہے۔ مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کی سازشیں عروج پر ہے۔ روزانہ نت نئے طریقوں سے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنایا جارہا ہے، ایسے ناسازگار حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ مسلمان گھٹنے ٹیک کر کلمۂ کفر و شرک کا اقرار کرتے ہوئے فتنۂ ارتداد کا شکار ہو جائیں۔
مسلمانوں کو دہشت گرد، خونخوار، بے رحم، دوسروں کی آزادی سلب کرنے والا بتا کر شعائر اللّٰہ اور شعائرِ اسلام کی بے حرمتی، کبھی لو جہاد تو کبھی لینڈ جہاد، کبھی موب لنچنگ تو کبھی نسل کشی، کبھی حجاب تو کبھی طلاقِ ثلاثہ، کبھی مساجد و مدارس کو جلایا جارہا ہے تو کبھی مسلمانوں کے عبادت خانوں اور گھروں پر بلڈوزر چلا کر مسمار کیا جارہا ہے، کبھی مسلمانوں کی بڑی تعداد کر جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے، تو کبھی انکاؤنٹر کے نام پر مسلم نوجوانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، تو کبھی مسلمانوں کو ملک و انسانیت دشمن بتا کر ان کے قتل عام کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اب تو نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے مذہبی تہواروں پر جلسے و جلوس نکال کر مسلم بستیوں میں جاکر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے سامنے کھڑے ہوکر شرانگیزیوں کا ننگا ناچ کھیلا جارہا ہے۔ سخت بندوبست میں عبادت گاہوں پر مذہبی پرچم لہرا کر اپنی بزدلی کا ببانگِ دہل اعلان کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے ردعمل پر مسجدوں کو شہید کرکے مسلمانوں کی بستیوں میں ظلم و استہزاء کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد کو جرم بے گناہی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔
25؍اپریل 2023ء کو نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما ایم ایل اے جتیندر اوہاڈ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ “رام نومی اور ہنومان جینتی صرف ریاست میں فسادات کرانے کے لیے ہیں۔ آنے والا برس فرقہ وارانہ فسادات کا برس ہوگا کیونکہ حکمران ملک کے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دے پارہے ہیں۔ مہنگائی کو کم نہیں کیا جاسکتا لہذا حکومت کے پاس مذہبی تقریبات کرکے ووٹ اکٹھے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں”۔ (ممبئی اردو نیوز: 26.04.2023)
سینئر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید جیسے گھاگھ سیکولر لیڈر کو یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ مسلم ایشوز پر سیاسی پارٹیوں کے منہ پر تالے پڑھ گئے ہیں، بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ (روزنامہ خبریں: 10.03.2023)
آج نظام باطل کے عہدِ حکومت میں جہاں مسلمان معاشی بدحالی، فاقہ کشی، تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کررہے ہیں۔ جس کا راست فائدہ اسلام دشمن طاقتیں حاصل کرکے اقتدار کے منصب پر فائز ہوکر اپنی ظلم و جبر کی کہانی رقم کرنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں زہر بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ان کو اکسا کر طرح طرح کے وہ کام کیے جارہے ہیں جس سے انسانیت بھی شرمسار ہوجائے۔ ان حالات میں سدھار آنے کے بجائے روز بروز بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور اس کے پیچھے چند ایسے عناصر کار فرما ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں اور اس کو تقویت دینے کے لیے اپنی آخری کوششیں صرف کررہے ہیں۔
یہ دور امت مسلمہ کے لئے سخت آزمائش کا دور ہے۔ آزمائش کے اس دور میں ہمیں صبر و اِسْتِقامَت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا۔ کیونکہ صبر و اِسْتِقامَت کی راہ ہی کامیابی کی راہیں ہموار کریں گی۔
اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لاکر انسان یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اللّٰہ کے احکامات کی بجا آوری کا پابند ہوں، اس کے مقابلے میں کسی دوسری قوت کا تابع نہیں ہوں۔ یہ قوت خواہ انسان کی اپنی ذات ہو یا مخلوق میں سے کوئی اور طاقت، مسلمان کسی چیز کے ساتھ اگر کوئی ربط و تعلق رکھتا یا توڑتا ہے تو اس کی بنیاد محض اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کو اپنا الٰہ تسلیم کرنے کا اقرار و اعلان ہی ہوتا ہے۔ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو اس کو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن و سنّت نے ان مشکلات میں اہلِ ایمان کو صبر و اِسْتِقامَت کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
❃ آزمائش اور اِسْتِقامَت فی الدین:
آزمائش و ابتلاء، فتنہ اور تمحیص کا باب ہر ایک کی زندگی سے جوڑا ہوا ہے۔ کبھی یہ آزمائش انفرادی ہوتی ہے تو کبھی اجتماعی۔ کبھی یہ آزمائش دنیاوی اعتبار سے ہوتی ہے تو کبھی دین کی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ الغرض اس دنیائے رنگ و بو میں ہر کوئی اپنی حیثیت و استطاعت کے حساب سے آزمائش کے مراحل کو انگیز کرتا ہے۔ ہمیں اس بات کا شعوری علم ہونا چاہئے کہ آزمائش بہتری و خوشخبری اور وعدۂ جنّت کا ذریعہ ہے۔ بندۂ مومن کا مصیبت سے دوچار ہونا اس کے لئے نیک بختی ہے، محبت الٰہی کی علامت ہے۔
اللّٰہ ربّ العزت کی راہ میں صبر و اِسْتِقامَت اختیار کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارتیں بھی سنائی ہیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم نے رسول اللّٰہﷺ سے اپنی حالت زار بیان کی جب کہ اس وقت آپ کعبے کے سائے میں اپنی چادر اوڑھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی: آپ ہمارے لیے اللّٰہ تعالیٰ سے مدد کیوں نہیں مانگتے؟ آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: “تم سے پہلے جو لوگ تھے ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا، زمین میں اس کے گڑھا کھود کر اس میں اسے بٹھا دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اور ہڈیوں کو الگ الگ کر دیا جاتا لیکن یہ آزمائشیں اسے اپنے دین سے برگشتہ نہ کرتی تھیں۔ اللّٰہ کی قسم! یہ (اسلام کا) کام ضرور مکمل ہوگا حتی کہ صنعاء سے حضرت موت کا سفر کرنے والا شخص اللّٰہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا اور نہ بھیڑیے کے علاوہ بکریوں کو کسی سے خطرہ ہوگا لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو”۔ (صحیح بخاری، کتاب الاکراہ: 6943)
عروہ بن زبیر کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاصؓ سے کہا مجھے وہ واقعہ بتائیے، جس میں مشرکینِ مکّہ نے رسول اللّٰہﷺ کو بہت سخت ایزا دی ہو۔ انہوں نے کہا، رسول اللّٰہﷺ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت عقبہ بن ابی معیط نے آتے ہی آنحضرتﷺ کا مونڈھا پکڑا اور آپﷺ کی گردن میں کپڑا ڈال کر زور سے آپﷺ کا گلا گھونٹا ابوبکرؓ نے آکر اس دشمنِ خدا کا کندھا پکڑا اور اسے آنجنابﷺ سے الگ کرکے دھکیل دیا اور فرمایا (بدبختو!) کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا مالک اللّٰہ ہے اور وہ تمہارے ربّ کی طرف سے تمہار سے پاس واضح نشانیاں لایا ہے۔ (بخاری)
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعودؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبیﷺ حرم میں بیت اللّٰہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے۔ ابوجہل بھی وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا ابوجہل نے کہا وہ کون ہے جو فلاں لوگوں کی اونٹنی کی جِھلّی لائے (دوسری روایت کی رو سے اس خون آلود جِھلّی میں گو بر بھی لائے) اور محمدﷺ جب سجدہ میں جائیں تو ان کے کندھوں کے درمیان پیٹھ پر غلاظت کا یہ ڈھیر رکھ دے؟ ایک انتہائی بدبخت (عقبہ بن ابی معیط) نے اٹھ کر یہ فرمائش پوری کر دی اور انتظار کرنے لگا یہاں تک کہ جب نبیﷺ سجدہ میں گئے تو اس نے غلاظت کا یہ ڈھیر آنحضرتﷺ کے کندھوں کے درمیان پیٹھ پر رکھ دیا حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ نے کہا، میں یہ مکروہ منظر دیکھ رہا تھا لیکن بے بس ہونے کی وجہ سے میں ان کی شرانگیزی کو نہیں روک سکتا تھا کاش (مکّہ میں) میرا کوئی با اثر قبلہ ہوتا تو غلاظت کے ڈھیر کو حضورﷺ کی پشت مبارک سے ہٹا دیتا، انہوں نے ہنسنا شروع کیا مارے ہنسی کے وہ لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر رہے تھے رسول اللّٰہﷺ نے اپنا سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا یہاں تک کہ ایک آدمی کی اطلاع پر حضرت فاطمہؓ بنتِ محمد (دوڑ کر) آئیں اور آنحضورﷺ کی پشت مبارک سے اس غلاظت کو اُٹھا کر دُور پھینکا پھر آپ نے سجدے سے اپنا سر اٹھایا۔ (بخاری کتاب الوضو، مسلم کتاب الجہاد والسیر)
حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے فرمایا: ابوجہل نے کہا اگر میں نے محمدﷺ کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو میں پاؤں سے ان کی گردن روند ڈالوں گا۔ یہ بات نبیﷺ تک پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو اسے فرشتے پکڑ لیں گے۔ (بخاری کتاب التفسیر، ترمذی ابواب التفسیر)
ابوجہل نے لوگوں کے سامنے یہ اشتعال انگیز بات کہی تھی۔ دوسری روایات میں یہ مضمون ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس نے حضورﷺ کو نماز کے دوران تین بار کہا کیا میں نے تمہیں اس سے نہیں روکا تھا؟ آپﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر اسے ڈانٹا اور دھمکی دی۔ ابوجہل نے کہا تم کس کے بل بوتے پر دھمکی دیتے ہو تم جانتے ہو کہ مکّہ کے اکثر لوگ میرے حمایتی ہیں۔ مطلب یہ ہے اگر میرے مقابلہ میں تم دھمکیوں پر اتر آئے ہو اور مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو تو جان لو کہ تم مجھ پر غالب نہیں آسکتے کیونکہ اس وادی کے اکثر لوگ میرے حامی ہیں میرے خلاف تمہیں کس کی حمایت حاصل ہے؟
یاد رہے کہ حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی ہونے کے علاؤہ ان کے بہنوئی بھی تھے۔ حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب سعیدؓ کے نکاح میں تھیں۔ سعیدؓ اور فاطمہؓ کے اسلام لانے پر وہ بہت زیادہ غضبناک ہوئے اور انہیں رسیوں سے باندھ کر قید میں رکھا۔ اور دوسری روایات کی رو سے، جب بنی زُہرہ کے ایک آدمی نے حضرت عمرؓ کو بتا یا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ مارے غصّہ کے ان کے پاس آئے۔ بات چیت کے دوران، سنی ہوئی خبر کی تصدیق ہو گئی۔ سعیدؓ کو پکڑ کر خوب مارا لاتوں سے ان کی خوب مرمت کی، فاطمہؓ سے نہ رہا گیا وہ اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے آئیں تو انہوں نے اسے بھی پیٹا اور اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ اس کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔ اس ظلم اور تشدد کے باوجود میاں بیوی اپنے ایمان پر جمے رہے یہ صورت حال حضرت عمرؓ کے لیے لمحۂ فکریہ تھی، ان کے ذہن نے پلٹا کھایا اور انہوں نے اس دین کو اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔
راہ اسلام میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والوں کو کفار و مشرکین کی جانب سے اذیتیں پہنچانا آج سے نہیں بلکہ انبیاء و رسل کی زندگی سے ثابت ہوتا ہے۔ ہمارا مطالعہ بتاتا ہے کہ کلمۂ شہادت کے اعلان کرنے میں حضرت ابوذر غفاریؓ کو کعبہ کے صحن میں بار بار بری طرح پیٹا گیا۔ لوگوں کا ہجوم ان پر ٹوٹ پڑا اگر حضرت عباسؓ ان کی حمایت اور دفاع نہ کرتے تو طاغوت کے کارندوں نے انہیں جان سے مار دیا ہوتا لیکن وہ آڑے آئے بپھرے ہوئے کافروں کو معاشی خطرے کا واسطہ دے کہ انہیں چھڑایا اور کہا کہ مکّہ اور شام کی تجارتی شاہراہ پر غفار پڑتے ہیں اگر تم نے اس قبیلہ کے فرد کو زدوکوب کیا یا اس کی توہین کی تو تمہارے تجارتی قافلے وہاں سے نہ گزر سکیں گے۔
(جاری)
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/