خوشی وخوش حالی رپورٹ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
عالمی خوشی خوش حالی رپورٹ ۲۰۲۳ء ء ابھی حال میں شائع ہوئی ہے ، اس رپورٹ کے مطابق خوش حال ملکوں میں ہندوستان 126نمبر پر ہے ۔ گذشتہ سال کی بہ نسبت تین پائیدان یہ اوپر ضرور ہوا ہے ، لیکن یہ اپنے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت خوش حالی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے، اس رپورٹ میں پاکستان کو 108، بنگلہ دیش کو 118، شری لنکا کو 112، نیپال کو 78میانمار کو 72اور چین کو 66ویں نمبر پر جگہ دی گئی ہے، خوش حالی سے متعلق یہ رپورٹ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ تیار کرتا ہے او رتیار کرتے وقت جی ڈی پی، سماجی تعاون، بد عنوانی کے واقعات اور ان کی سطح ، سماجی آزادی، سماجی تحفظ اور معیار زندگی کو سامنے رکھا جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں خوشی اور خوش حالی کم ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، بظاہر تو ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے زیادہ خستہ حال ہیں، لیکن اس رپورٹ میں انہیں کو بہتر بتایا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خوش حالی کا احساس اسباب ووسائل سے زیادہ ذہنی مسرت وخوشی کے تابع ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آرام وآسائش کی ساری سہولتوں کے ہوتے ہوئے آدمی ذہنی تناؤ ،عدم تحفظ کے احساس اور سماج کے تفرقے اور انتشار کی وجہ سے پریشان رہتا ہے، جسمانی ضرورتوں کی تکمیل تو جیسے تیسے ہوجاتی ہے ، لیکن ملک کے جو حالات ہیں اس میں مسرت وخوشی کی لہریں دماغ میں نہیں دوڑ پاتی ہیں، غالباً اسی وجہ سے اس رپورٹ میں ہم دوسروں سے پچھڑ گیے ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کا مقصد ہی ہندوستا ن کو نیچا دکھانا ہو ایسے میں ہمیں اس رپورٹ کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر اپنی مخالفت درج کرانی چاہیے۔
یہ شبہہ اس لیے بھی پید اہوتا ہے کہ اس رپورٹ سے قبل اس حوالہ سے دو رپورٹ شائع ہو چکی ہے ، ایک رپورٹ کنسلٹنگ فورم ہیپی پلس کی’’ دی اسٹیٹ آف ہیپی نیس 2023‘‘ کے نام سے آئی، جس کے مطابق 65فی صد لوگ ہندوستان میں خوش ہیں، ایک دوسری رپورٹ ’’ایپ سوس گلوبل ہیپی نیس‘‘کی ہے جس نے کہا ہے کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں73فی صد لوگ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ۔ ان دونوں رپورٹوں کو سامنے رکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ کے ذریعہ جاری رپورٹ میں کہیں نہ کہیں کچھ خامی ہے ، کیوں کہ کورونا کے بعد حکومتی سطح پر وقتا فوقتا جو اعداد وشمار جاری کیے جاتے رہے ہیں، اس کے مطابق گذشتہ نو سالوں میں ملک میں غریبی کا تناسب 22فی صد سے گھٹ کر آٹھ فی صد تک آگیا ہے ، غیر ملکی زر مبادلہ بھی پہلے سے دو گنی مقدار میں موجود ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ، غذائی اجناس کی پیدا وار بھی بڑھی ہے ، ان سب کے باوجود اگر ہم خوش نہیں ہیں، اور ہمارے اندر خوش حالی نہیں ہے تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ ملکی حالت کی وجہ سے ہم ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہیں، اطمینان بھی خوش حالی کے لیے ضروری ہے ، اس لیے ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں ہیں، اس ایک وجہ کے علاوہ خوش حالی میں ہمارے پیچھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ حکومت اگر اس ایک وجہ کو دور کر دے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے پیچھے کر رہ جائیں۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/