*شرک کا پردہ اٹھایا یار نے*
*✍️قمر پرویز سپولی*
رابطہ: 7295896425
شرک بہت بڑا ظلم ہے ،جو کسی مخلوق کو خالق سے الگ کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی خدا کی عبادت کے بجائے کسی دوسرے مخلوق کو پوجتا ہے، اس کی اطاعت وبندگی کرتا ہے، اس کی کہی ہوئی باتوں پر سرتسلیم خم کرتا ہے، یہ ایک بہت بڑی بے عدلی ہے، کیونکہ ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ صرف اور صرف خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے، اور اس کے علاوہ جو اس وحدہُ لاشریک کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے اس کی عدم پوری آخرت کی سزا بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ، شرک کی وجہ سے آدمی کو دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ خدا کی خوشنودی کے بغیر کوئی کام کامیاب نہیں ہو سکتا، اور جب کوئی شخص خدا کی خوشنودی کے بجائے دوسروں کی خوشنودی کی خاطر کام کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بہت بڑی زحمت میں ڈالتا ہے، جبکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
شرک وہ ظلم عظیم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا- خداوند قدوس کا فرمان الٰہی: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(النساء ۴۸)
بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے اور جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑے گناہ کا طوفان باندھا –
شرک اتنا بڑا ظلم ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا اسے لیے کہ شرک ظلم عظیم ہے ، ارشاد ربانی ہے: وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(لقمان ۱۳)
اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! کسی کو الله کا شریک نہ کرنا، بیشک شرک یقینا بڑا ظلم ہے۔
شرک یہ ایک ایسا ظلم عظیم ہے جس کے بعد کسی بھی بڑے سے بڑے ظلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے!
مشرک خدا کی خدائی میں نقب زنی کرتا ہے اس کے حقوق پامال کرتا ہے اور نا اہل (غیر اللہ) کے زبردستی خدائی تھوپنے کی کوشش کرتا ہے اس غیر اللہ کو جوخود مخلوق ہے ،محتاج ہے، ضعیف ہے ، ناتواں ہے، عبدیت کے صفات سے مزین اور الوہیت کی شان سے عاری ہے-
انسان خالق تو نہیں مخلوق ہے، رب تو نہیں مربوب ہے، مالک تو نہیں مأمور ہے ،بہت ہی ذی شعور مخلوق اور عقل و دانائی سے مالامال مخلوق——- لہذا اسے بھی کائنات کی ساری مخلوق کی طرح مٹی کے ہر ذرے، پانی کی ہر بوند، روشنی کی ہر کرن، بحر وبر کے ہر متنفس ، آسمان کے ہر سیارے، ی اجرام فلکی کے ہر مدار ، بادلوں کے ہر ٹکرے ،ہواؤں کی ہر رفتار، اور کون و مکاں کے ہر وجود کی طرح اپنے خالق حقیقی کے سامنے جھکنا چاہیے- وقت کے ہر لمحے اور زندگی کی ہر سانس کو اس کی تسبیح خوانی کرنی چاہیے اور بلا چوں چرا اس کی اطاعت میں گم ہونا چاہیے –
سر جھکائے تو اسی کے سامنے، ہاتھ پھیلائے تو اسی کے آگے، احتیاج کا مطالبہ کرے تو اسی کی طرف ،قدم اٹھے تو اسی کی مرضی سے ،راہ نجات، راہ فلاح، راہ صدق و صفا ڈھونڈے تو اسی کے متعین کردہ نشانات منزل کے ذریعے ،امید و بیم رکھے تو اسے ،اور خوف کھائے تو اسی کی گرفت سے-
شرک چونکہ ظلم صریح ہے اس لیے مشرک اپنے اور دوسرے دونوں کے لیے ظالم کا کردار نبھا تا ہے، اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کا محاورہ مشرک سے بڑھ کر کسی پر صادق نہیں آتا- مشرک کے کردار کو مثال سے یوں سمجھنا چاہیے؛
کوئی شخص کسی منظم اور مستحکم حکومت یا بادشاہت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرے، بادشاہ وقت کے مد مقابل کسی دوسرے کی تاج پوشی کرنے لگے، اسی کی حکمرانی کا دم بھرے، اسی کا حکم ماننے اور منوانے پر اصرار کرے دنیا کا کون بادشاہ یا حاکم وقت اس ثنویت کو گوارہ کر سکے گا؟!
آخر دنیا کے کسی باپ نے ن کبھی اس کو گوارہ کیا ہے کہ پدریت میں کوئی اس کا شریک و سہیم بنے، یا کوئی شریف زادہ اپنے باپ کے مدمقابل کسی دوسرے شخص کو باپ کی جگہ لا کھڑا کرے- کوئی بھی خود دار غیرت مند شوہر کب اس کا روادار ہوگا تو اس کی زوجیت میں کسی دوسرے کو بھی حصہ دار بنایا جائے، کوئی عفیف اور باعصمت خاتون اپنے اصلی وشرعی شوہر کے علاوہ بھی کسی غیر مرد کو شوہرانہ مرتبہ دے سکتی ہے ؟!
ایک حاکم، ایک افسر ،ایک باپ، ایک شوہر جب زندگی کے چھوٹے چھوٹے دائرے میں اپنی ذرا ذرا سی ملکیتوں تو اور حقوق ذاتی میں کسی ثنویت کو گوارہ نہیں کر سکتے تو وہ جو حاکم مطلق ہے ،جو مالک الملک ہے ،جو احکم الحاکمین ہے ،وہ جو فوق الکل ہے ، وہ جو عدیم المثال ہے، وہ جو اپنے کمالات و صفات میں یکتا و یگانہ ہے ،جس کے ہاتھوں میں خزانوں کی کنجیاں ہیں، جس کے لامتناہی علم غیب کے اسرار اور رموز ہیں، جس کی مشیت اور جس کے فیصلوں کے سامنے کائنات کا ذرہ ذرہ بے بس ہے آخر اسے ذات بے ہمتا کے بارے میں یہ ثنویت و شرکت کیوں کر گوارہ کی جا سکتی ہے؟!
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/