خودنوشت آپ بیتی جگ بیتی”یادوں کی بہار “ایک تعارف۔ ✍️ محمد سلمان ندوی دربھنگہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب: یادوں کی بہار ۔ نام مصنف:وصی احمد شمسی۔سن اشاعت:2022.قیمت:ایک ہزارروپے بشمول حصہ اول ودوم۔ناشر: انجمن تعمیر ملت ( رجسٹرڈ)روپس پور, دربھنگہ بہار۔مطبع: مرکزی پبلی کیشنز،دہلی مبصر: محمد سلمان ندوی دربھنگہ بہار۔کتاب ملنے کا پتہ:مصنف،9431880633.)________
زیرنظر کتاب “یادوں کی بہار”مولانا وصی احمد شمسی کی ایک دلچسپ خود نوشت سوانح حیات ہے ۔جو دو جلدوں پر مشتمل اور ساڑھے آٹھ سو سے زائدصفحات پر محیط ہے ۔کتاب مصنف کے عمر رفتہ کی 77سالہ زندگی کا ماحصل اور ایام گزشتہ کے ماہ وسال میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث کا ایک حسین گلدستہ ہے۔بقول فاضل مصنف:یہ کتاب عام تصور ،سوانح،آپ بیتی ،خاکے سے ہٹ کر خالص علمی ودینی ،تاریخی،سماجی،اصلاحی، سیاسی شعور کی بیداری کی بنیادوں پر لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کوجہد مسلسل ،سعی پیہم کی ایک تحقیقی دستاویز کے طور پر خون دل نچوڑ کے اخلاص کی بنیاد پر تصنیف کیا گیا ہے(ص:6) چنانچہ حقیقت بھی اسی کی تصدیق کرتی ہے ،کہ ان کی یہ خود نوشت سوانح عمری ایک کامیاب انسان کی ذاتی سرگزشت کے ساتھ ایک عہد کے واقعات کی چشم دید گواہی بھی ہے، اور اس عہد کی بہت سی شخصیتوں کا جیتا جاگتا مرقع بھی،ہمہ گیری کی یہ صفت شاذونادر تصانیف کو میسر آتی ہے۔جولوح جہاں کی تاریخ میں اپنا نقش دوام ثبت کرجانے ۔بشرطیکہ وہ حقائق پر مبنی ہو ؛نری گپ وافسانہ نہ ہو ۔جیسا کہ سر سید رضا علی نے اپنی مشہور زمانہ آپ بیتی “اعمال نامہ” کے دیباچہ میں رقم فرمایا ہے: اپنی زندگی یا اپنے واقعات لکھنے پر کوئی شخص مجبور نہیں ہے ؛البتہ ہر شخص کو اپنی کہانی لکھتے وقت دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ،ایک یہ کہ سچے واقعات پورے طور پر بیان کردیے جائیں اخفائے حق نہ کیا جائے ،نہ کویی بات ادھوری چھوڑی جائے،دنیا میں وہ سچی بات بڑی مخدوش ہے جو آدھی ظاہر کی جانے اور آدھی چھپائی جائے،دوسری بات یہ ہے کہ مشہور انگریزی مثل گو کہ خواہش تخیل کی ماں ہے اپنے اوپر صادق نہ آنے دے،اگر خواہش تخیل پر غلبہ حاصل کر لیا اور لکھنے والے نے واقعات کی صورت مسخ کرنی شروع کردی توآپ بیتی سچا نامہ اعمال ہونے کے بجائے افسانہ یا ناول بن جائے گی۔ میرے نزدیک اپنے لکھے ہوئے سوانح حیات کی سب سے بڑی صفت یہ ہونی چاہیے کہ ایک مرتبہ کراما کاتبین بھی سامنے آکر بہ آواز بلند پڑھ لیں تو لکھنے والے کو آنکھ نیچی نہ کرنا پڑے(اعمال نامہ ،سرسیدرضا علی ص:ح،)اس کسوٹی پر یہ پوری اترتی ہے۔ تب ہی آپ بیتی جگ بیتی کی پرلطف اور دلپذیر کہانی بنتی ہے اور خلعت تام ونقش دوام حاصل کرتی ہے ،اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے مرزاہادی رسوانے کہا ہے: لطف ہے کون سی کہانی میں*آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی ۔اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ دلبروں کا راز دوسرے لوگوں کے ضمن میں بیان کردیا جائے ۔اسی کو مولانا روم یوں فرماتے ہیں:خوشترآں باشد کہ سر دلبراں*گفتہ آید در حدیث دیگراں۔کیونکہ دوسروں کا لحاظ وخیال بھی ضروری ہے، خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم* انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ۔اس کو پوری کتاب میں غیر مرئی طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے ۔اسی لیے یہ کتاب آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی کا بھی بہترین سنگم بن گئی ہے ۔
ساتھ ہی اس کتاب میں ضلع دربھنگہ بہار کی مشہور علمی ،دینی اور سیاسی؛ علاقہ علی نگر ،روپس پور اور اس کے ملحقات کی تقریباً دو ڈھائی سو سالہ اجمالی تاریخ اور قصبہ وسواد قصبہ کے مشایخ ،بزرگان دین،علمامدرسین ومصنفین،قایدین قوم وملت اور دانشوران،شعرا،ادبا کے علاوہ ملک کے دیگر ارباب علم و فضل ،اکابر،مشاہیرومعا صرین کے حالات اور ان کے علمی ،دینی،سماجی و سیاسی شخصیات کے کارنامے بیان کیے گئے ہیں ،جس کی وجہ سے اس کی حیثیت ایک حسین تاریخی دستاویز کی ہوگئی ہے ۔جوخواب خرگوش میں مدہوش اقوام مسلم کو بیدار کرتی ہے اور انھیں نشان راہ دکھلاتی ہے ۔شرط یہ ہے کہ اسے صدق دل سے پڑھا جانے ۔ورنہ تومرد ناداں پر کلام نرم و نازک بھی بے اثر ہوتا ہے ۔
صاحب کتاب مولانا محمد وصی احمد اپنے قلمی نام وصی احمد شمسی سے علمی دنیا میں معروف ہیں ۔وہ ایک ایسے علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے جسے مذہبی تقدس بھی حاصل تھا اور دنیاوی امتیاز بھی ۔آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ راشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب آپ کے ماموں اور خسر ہوتے ہیں ۔مفتی دار العلوم دیوبند اور مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی آپ کے چھوٹے ماموں اور سرپرست ہوتے ہیں ۔سابق ہردل عزیز وزیر باتدبیر اور راشٹریہ جنتا دل کے ممتاز قاید عبد الباری صدیقی آپ کے عزیز برادرزادہ ہیں ۔دینی سیادت اور دنیاوی وجاہت کاحامل آپ کادودمان عالی شان خاندان ہے ۔درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق کی آپ بہترین مثال ہیں ۔ایں خانہ ہمہ آفتاب است کہا جائے توبجا ہے۔آپ دینی و عصری دونوں تعلیم سے آراستہ ہیں ۔اور پوری زندگی تعلیم وتربیت میں صرف کی ہے ۔آپ نے بھر پور سرگرم زندگی بسر کی ہے،ملی اداروں سے آپ کا گہرا تعلق رہا ہے اور ملی قایدین کے ساتھ برابر نشست وبرخواست رہی ہے ،ان کو خلوت و جلوت میں قریب سے دیکھا ہے ،جس پر شاہد عدل یہ کتاب ہے ۔جو امت مرحومہ کے لیے بیش بہاتحفہ اور یادوں کا خزانہ ہے ۔
اس کتاب کے محرک یادگار سلف قاضی شریعت حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری 1937 2020 ہیں ۔لیکن افسوس کہ انھوں نے اس کتاب کو زیور طباعت سے آراستہ نہیں دیکھا اور ارمان لیے ہوئے راہی ملک عدم ہوگیے،۔ ع/اے بسا آرزو کہ خاک شد
مولانا وصی احمد شمسی اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں:راقم الحروف اکثر ان کی صحبت سے فیضیاب ہوتا،جب بھی امارت شرعیہ تشریف لاتے، میں اپنے ڈیرہ سمن پورہ سے پھلواری شریف پہنچ جاتا ،کبھی کسی شخصیت پر مضمون لکھتااور ان کو معلوم ہوتا تو وہ فرماتے “آپ دوسروں کی آپ بیتی لکھتے رہتے ہیں ،اپنی آپ بیتی کب لکھیے گا ؟اپنی آپ بیتی بھی تو لکھیے،میں کہتا،حضرت!اپنی آپ بیتی کیا؟آپ کی آپ بیتی لکھوں گا۔سنا ہے پارس پتھر سے عام پتھر جب مس کرجاتا ہے تو وہ بھی قیمتی بن جاتا ہے،اس جملے پر مسکراتے،پھر فرماتے اپنی آپ بیتی لکھ جایے،میں نے 2012میں کچھ لکھا، اور دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ”حیات عبدالرحمن”اتنی محنت و عرق ریزی سے اور ہزاروں روپے کے صرفہ سے لکھا ،لیکن دوسرے کیا خود گھر کے لوگ بھی نہیں پڑھتے ہیں ۔جب کہ گھر کے سبھی لوگ اردو سے آشنا ہیں ،لہذا کیا ہوگا کتابیں لکھ کر،فضول محنت وکوشش کے ساتھ ہزاروں روپے خرچ ہوں گے اور حاصل کچھ نہ ہوگا (ص:363)غرض یہ کہ حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری کے اصرار وتقاضااور تحریک پر ہی پھر دوبارہ آٹھ سال کے طویل وقفہ کے بعد اپریل/ 2020سے مسلسل کتاب کی تیاری اور یادوں کو یکجا کرکے صفحہ قرطاس پر درج کر نے کا آغاز ہوا (ص:364)شب وروز کی انتھک محنت کے بعد 2022/کے آخر میں کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی ،صاحب نظر اہل علم و فضل نے پذیرائی کی ۔شوق کے ہاتھوں لی گئی اور ذوق کی نظروں سے پڑھی گئی ۔
اس کتاب پر مقدمہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سکریٹری مشہور فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے گہربار قلم سے ہے اور تقریظ صفی اختر صاحب نے تحریر کیا ہے۔عرض مصنف کے تحت ایک جامع تحریر’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات’کے عنوان سے شامل کتاب ہے۔جو کتاب کی غرض و غایت اور افادیت کو بیان کرتی ہے اور محتویات ومشمولا ت پربخوبی روشنی ڈالتی ہے ۔سرورق دیدہ زیب ہے ۔مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والد ووالدہ اور برادر کبیر الحاج علی احمد صاحب ،ماموں حضرت مولانا عبد الرحمن امیر شریعت خامس ،مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی ،ماموں زاد مرحوم مولانا ابو داؤد سفیان اور اہلیہ محترمہ و صاحبزادگان و صاحبزادی،اوران کی آل اولاد کے نام معنون کیا ہے۔ جو ان کی اعلیٰ ظرفی اور سیر چشمی کو آشکار کرتی ہے ۔
یہ کتاب مجموعی طور پر ایک ضخیم جلد میں مجلد دو حصوں میں منقسم ہے۔پہلا حصہ گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ہرباب کے تحت متعدد ذیلی عناوین ہیں؛کتاب کے پہلے حصہ کے ابواب کچھ یہ ہیں:باب: علی نگر،باب:ہرسنگھ پورعلمی وثقافتی مرکز،باب:دھموارہ،باب:دھمساین،باب: انصاری محلہ دھمساین،باب:روپس پور(مصنف کا گاؤں) باب:طولن خلیفہ (مصنف کے آباواجداد کاتذکرہ)باب: مسلم فنڈ،باب:spsسمنیری ہایی اسکول سون پور میں بحالی،باب: سرکاری اجتماعی تبادلہ واٹسن+2اسکول مدھوبنی،باب:میرا علمی سفروغیرہ۔ان میں سے ہر باب کے تحت فاضل مصنف نے اس علاقہ کی تاریخ کی تفصیل کے ساتھ ہی علاقہ کےعلما،فضلا،شعرااوردانشوران کا ذکر بھی کیا ہے،جس سے ان علاقوں کی خصوصیات وامتیازات اور ارباب علم و فضل کی خدمات نمایاں ہوتی ہیں،اسی حصہ میں مصنف مدظلہ العالی کی آپ بیتی بھی جگ بیتی کی پردہ زرنگاری میں پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما ہے ۔جو آنکھوں کونوراوردلوں کو سروربخشتی ہے ۔دوسراحصہ بھی گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلاباب’لوگ انھیں بھلانہ دیں’کے زیر عنوان چوالیس علما اور حفاظ کے خاکہ وتذکرہ پر مشتمل ہے ۔جن میں مولانا وحید الدین خاں ،امیرشریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ،حضرت مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی ،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ،امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ،خلیفہ مجاز امیر شریعت خامس الحاج عبدالرحیم صاحب مغربی چمپارن بتیا،مولانا أسرار الحق قاسمی، قاضی شریعت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ،مولانا عبدالحنان قاسمی بالاساتھ،قاضی شریعت مولانا اقبال صاحب مظاہری بانی مدرسہ سراج العلوم سیوان،قاضی شریعت مولانا محمد عثمان گرول،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی سپول،مولانا عبداللہ کاپودری گجرات،مولانا برجیس صاحب قاسمی ندوی،مولاناادریس صاحب قاسمی ہریٹھ دربھنگہ ، مولاناجمال الدین چترویدی سیوان، محدث شہیر مولانا سید محمد یحیی ندوی سانحہ،مفتی محمد نسیم قاسمی امارت شرعیہ،مولاناولی اللہ ولی قاسمی،مولانا ہارون صاحب قاسمی،مولوی و ماسٹر محمد عالم صدیقی برہڑیاسیوان ،مولاناابراراحمدقاسمی أمام جامع مسجد باقر گنج دربھنگہ وغیرہم جیسے صاحب صدق وصفامرحومین علما نمایاں ہیں ۔اس کے علاوہ زندوں میں مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ،مولانا مفتی ثناء الھدی قاسمی ناظم قائم مقام امارت شرعیہ ،مولانا قاری شبیر احمد صاحب قاسمی شکرپوربھروارہ،مولانا مرشد قاسمی جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ،حکیم مولانا محمد زاہد حسین صاحب شمسی لوام دربھنگہ ،مولانا امیر احمد صاحب مدرسہ سراج العلوم سیوان ،مولانابدراحمد مجیبی صاحب خانقاہ مجیبیہ،مولاناعالم گیر شبنم دربھنگہ بہار وغیرہ کاتذکرہ بھی شامل کتاب ہے ۔دوسراباب : قائدین، دانشوران،اکابر،مشاہیراور معاصرین کے خاکہ وتذکرہ پر مشتمل ہے ۔ان کی تعداد تقریباً 82/ہے ۔ان میں کچھ نمایاں نام یہ ہیں: محمد حسنین سید،سر سید ثانی ڈاکٹر سید حامد ،ڈاکٹر حامد انصاری ،ڈاکٹرکلیم عاجز ،سالار اردوکاروان الحاج غلام سروروزیرتعلیم بہار ،مسیح قوم ڈاکٹر اعجاز علی چیف ایڈیٹر روزنامہ اخبار سنگم پٹنہ بہار ،قاید قوم وملت عبدالباری صدیقی ،ڈاکٹر فیاض علی مدھوبنی،چیف سکریٹری بہار عامر سبحانی،ڈاکٹراحمد عبدالحی وغیرہ ۔ان میں چندے آفتاب چندے ماہتاب مشہور زمانہ اور نابغہ روزگار شخصیات ہیں،توکچھ پردہ خمول میں گوشۂ نشین افراد بھی ہیں،کچھ نوواردان بساط ادب ہیں۔ان کے متعلق کئی خاص باتیں اس کتاب میں پڑھنے کو ملتی ہیں جو کہیں اور شاید وباید مل سکیں۔
تیسرا باب: افادات قرآن ہے۔اس میں مطالعہ قرآن کے تحت مختلف تفاسیر کاحاصل مطالعہ افادہ عام کے لیے شامل کیا گیا ہے۔پانچواں باب:مصنف کی چٹھی اکابر کے نام شامل کتاب ہے۔چھٹاباب: اکابر علما کے خطوط مصنف کے نام ہیں۔جس میں مشاہیر مکتوب نگارمیں أمیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن ،حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ،حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ،الحاج عبدالرحیم صاحب بتیا،حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ،حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی ،حکیم مظہر الحق خانقاہ اندروا،پروفسر اویس احمد دوراں،مولانا غلام وستانوی جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ،مولاناانیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ اور مولانا محمد مصطفی مفتاحی سابق صدر مدرس مدرسہ حمیدیہ گودناوغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ساتواں باب:مصنف کے خطابات وپیغامات پر مشتمل ہے ۔آٹھواں باب: مصنف کی ڈائری کے سنہرے اوراق پر مشتمل ہے ۔نواں باب: زندگی سے لطف اٹھایے کے زیر عنوان اقتباسات پر مشتمل ہے ۔دسواں باب: مختلف تراشے پر مشتمل ہے ۔گیارہواں باب:مصنف کے مختلف اوقات تحریر کیے گئے مضامین ومقالات پر مشتمل ہے ۔پھر مصنف کا تعارف نامہ اور یادگار تصاویر اور عکسیات شامل ہیں ۔تیسری جلد زیر ترتیب ہے،اس سلسلہ میں مولانا وصی احمد شمسی رقمطراز ہیں: موجودہ کتاب کے منظر عام پر آجانے کے بعد یادوں کی بہار کی تیسری جلد پروفیسر سید حسن عسکری سابق صدر شعبہ تاریخ پٹنہ یونیورسٹی ،پروفیسرکلیم الدین احمد سابق ڈی پی آئی بہار ،پروفیسر محسن صاحب شعبہ نفسیات پٹنہ یونیورسٹی ،قاضی عبد الودود صاحب ،پروفیسرحافظ عالم ڈاکٹر عبد المغنی صاحب شعبہ انگلش پٹنہ یونیورسٹی،پروفیسر عطا کاکوی بی این کالج پٹنہ،پروفیسرافسرالدولہ،فیاض الدین حیدر،پروفیسر حیدر علی نیر،پروفیسراطہرشیر،پروفیسرعبدالسمیع، پروفیسر کمال صبا۔ان میں بہت سے ہمارے اساتذہ بھی ہیں،مدرسہ شمس الھدیٰ کے جونیئر ساتھی،مخلص دوست پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الواحد انصاری بی بی پور کاکو جہان آباد،مولاناولی رحمانی امیر شریعت بہار و اڈیشہ وجھارکھنڈ،مخلص دوست،بانی وڈایرکٹر کٹہری پبلک اسکول ساٹھی مغربی چمپارن بہار الحاج جناب نور عالم صاحب اور دربھنگہ کے بہت سارے اہل علم و فضل دانشور سماجی وسوشل ساینسٹسٹ وغیرہ کے نام رہ گئے ہیں،جن کے سوانحی خاکے لکھنے ہیں (ص:8)بہر حال یہ کتاب”یادوں کی بہار”اپنے دامن میں بیش بہا لعل و گہر چھپا ے ہوئی ہے کہ پڑھ کر آنکھیں فروزاں اور دل شاداں ہوجاتا ہے۔ بے ساختہ زبان پر علامہ اقبال کا یہ شعر آجاتا ہے:یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی*ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی ۔اس پر تبصرہ کرنا ہم جیسے طفل مکتب کے مقدور میں نہیں ،البتہ اس کے حسن و رعنائی سے پردہ کشائی مقصود ہے ۔مشتے نمونہ از خروارے کے طور پراس کے کچھ حیرت انگیز اور عبرت خیز واقعات پیش کرنا مناسب ہوگا۔ تاکہ صاحب خود نوشت کی زندگی سے مکمل واقفیت حاصل ہوسکے۔سردست سوانحی احوال و کوائف پر ایک طایرانہ نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔واضح ہوکہ: مولانا محمد وصی احمد شمسی کی ولادت (بہ اعتبار سند29/مءی 1949ع/بہ اعتبار خاندانی روایت مارچ 1946ع)مردم خیز بستی روپس پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی (ص:232)والد بزرگوار کا اسم گرامی محمد شہاب الدین(وفات:1955) تھاجوشتاب گنج بنگال کے شوگر میل میں ملازم تھے۔اوروالدہ محترمہ مسماہ زینت النساء گھریلو پڑھی لکھی معزز خاتون تھیں۔آپ کے دادا شیخ طولن خلیفہ اور نانا منشی بشارت علی کے مابین برادر نسبتی کا رشتہ تھا۔ مولانا وصی احمد شمسی رقمطراز ہیں: میرے دادا طولن خلیفہ کا آبائی وطن کوییلام رسول پور حیا گھاٹ دربھنگہ تھا،اب ضلع سمستی پور ہے ۔روپس پور میں میرے دادا کی شادی شیخ جوہر علی کی صاحبزادی سے ہوئی تھی ،دادی کے مشورہ سے میرے دادا نے روپس کو وطن ثانی بنالیا ۔اس طرح سے ہم لوگوں کے خاندان کا سلسلہ روپس پور دھمساین میں دادا کی شادی کے بعد سے جاری ہے ۔راقم آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے ۔سبھی تین بہنوں کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا (ص:232) مولانا وصی احمد شمسی کی والدہ کا میکہ پورہ نوڈیہا ضلع دربھنگہ تھا جو تعلیم یافتہ علماءاور مفتی کا خاندان تھا ۔اور والدہ کا نانہال اسراہاکا ایک صاحب نسبت علمی خانوادہ تھا جس کے موجودہ گل سرسبدوارث ماسٹر محمد سعید نقشبندی ہیں ۔جو خوش فکر شاعر اور پیر و مرشد ہیں ۔ان کا مجموعہ کلام “آیینہ دل”کے نام سے طبع ہوچکا ہے (ص:174) لڑکپن میں ہی آپ کے والد داغ مفارقت دے گئے ۔والدہ اور بڑے بھائی کی سرپرستی میں پرورش و پرداخت ہوئی ۔ابتدایی تعلیم پرائمری اردو مکتب دھمساین میں ہوئی ،مزیداعلی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے ماموں امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن کے ہمراہ 1956ع میں مدرسہ حمیدیہ گودنا ضلع سارن تشریف لے گئے ،وہاں باضابطہ عربی و فارسی کی تعلیم کا آغاز ہوا ۔وہاں کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔اوراپنے ماموں محترم کے دامن علم سے وابستہ ہوگئے اور خوب کسب فیض کیا ۔یہاں تک کہ مختلف علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کر لیا اور فوقانیہ کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی ۔کچھ دنوں کے لئے مدرسہ اشاعت العلوم جوگیا مغربی چمپارن میں آپ کا تحصیل علم کے لیے قیام رہا، پھر علم کی پیاس آپ کو کشاں کشاں مدرسہ شمس الھدیٰ پٹنہ لے گئی ۔اورآپ اس کے چشمہ صافی سے خوب سیراب وفیضیاب ہوے،اوروہیں سے 1970ع میں سند فضیلت حاصل کیا ۔فراغت کے فوراً بعد اپنے مادر علمی مدرسہ حمیدیہ گودنا ضلع سارن سے درس وتدریس کا آغاز کیا ۔1971تا 1973وہاں قیام رہا ۔پھرقسمت نے یاوری کی اور ہائی اسکول کے فارسی واردو کے ہردل عزیز استاذ ہوگیے،جسکا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ناظرین آپ اس دل چسپ واقعہ کو ان کی ہی زبانی سنیے ،رقمطراز ہیں:1973 یا 1974کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا نے مجھے سون پور مدرسہ حمیدیہ کے چندہ کے لیے بھیجا ،جمعہ کا دن تھا ،امام مسجد کی گزارش پر میں نے سورہ جمعہ کی دوسری رکوع پر تقریر کی،اور آسان زبان میں حاصل ترجمہ اور ان آیات کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو معاشی و اقتصادی اصول اور نماز جمعہ کی اہمیت کو جس انداز میں ارشاد فرمایا ہے ،میں نے انھیں باتوں کو صرف پندرہ منٹ کے مختصر وقت میں بیان کیا،نمازیوں کو میری تقریر پسند آگئی،نماز کے بعد چند ذمہ دار دانشور حضرات مجھ کو اپنے ہمراہ ایس پی ایس سمنیری ہایی اسکول کے ہیڈ ماسٹر شری راجندر مشرا جی کے پاس لے گئے اور ملاقات کرایا،اور ان سبھی حضرات نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے کہا کہ مولانا سید عبدالحلیم صاحب مرحوم کی جگہ پر اسکول میں یہی ہیڈمولوی رہیں گے،یہ بھی مولانا عبد الحلیم صاحب کی طرح آپ کے اسکول میں نیک باصلاحیت استاذ ہوں گے اور ہم لوگوں کے کام آییں گے ۔جس طرح مولانا عبد الحلیم صاحب نے پڑھایا لکھایا تعلیم وتربیت دی یہ بھی انجام دیں گے ۔ہیڈماسٹر صاحب نے سو روپیہ پرائیویٹ طور پر دینا منظور کیا،اور کہا کہ سکریٹری صاحب سے مشورہ کرکے آپ لوگوں کو دو چار دنوں میں کہدونگا،تب آپ لوگ ان کو مستقل رہنے کے لئے بلالیں گے۔ایساہی ہوا میں مدرسہ کے چندہ کے سلسلے میں عیسوا پور چاند پورہ حلقہ میں تھا کہ حضرت مولانا نے مجھے مدرسہ آنے کا حکم دیا،اوربتایاکہ سون پور سے ایک آدمی آیا تھا وہاں کے ہایی اسکول میں آپ کی بحالی ہوگیی ہے،اس زمانہ میں اسکول کی کمیٹی ہی بااختیار تھی،ایک سوروپیہ ماہانہ پر اسکول میں جوایین کرلیا۔اس طرح اللہ کی مہربانی اور عنایت ہویی کہ میں مدرسہ کا چندہ کرنے سون پور گیا اور میں خود ہی ایس پی ایس ہائی اسکول کے لیے چندہ ہوگیا” (ص:245, 246 ) یہ اسکول سون پور بلاک کاقدیم معیاری اسکول تھا ،جو1932ع میں قائم ہوا تھا ،جس میں چھٹےکلاس سے درجہ دس تک تعلیم ہوتی تھی،طلبہ کی مجموعی تعداد تقریباً دس بارہ سو تھی۔چنانچہ مولانا وصی احمد شمسی نے سون پور کو اپنا میدان عمل بنایا،سیماب صفت اور متحرک وفعال تو وہ طالب علمی کی زندگی ہی سے تھے،یہاں مسلمانوں میں بیداری لانے کے لیے وہ سرگرم عمل ہوگئے،وہ اس کا ذکر یوں کرتے ہیں: میں مولانا عبد الحلیم صاحب مرحوم کے انداز پر مسلمانوں کی بیداری میں لگ گیا ۔میری کوشش تھی جہاں کہیں شادی بیاہ میلاد میں مدعو ہوتا تو ان لوگوں کو کلمہ، نماز، ایمان اور تعلیم کی اہمیت اور اس کے فایدہے بتاتا،اوران کی رہنمائی اور رہبری بھی کرتا ۔میں نے سون پور کی مدت قیام میں دوتین جگہ نیا اردو مکتب قائم کرایا،دو ایک جگہ جیسے سبل پور دیر میں پرائمری اردو اسکول کی منظوری اور بلڈنگ بھی تعمیر کرائی”(ص:248) یہاں تک کہ مولانا اس اسکول اور قرب وجوار کے علاقے میں “کرانتی کاری مولوی “کے نام سے مشہور ہوگئے۔اسی زمانہ ملازمت میں پرنسپل نے ان کے خلاف ایک ناپاک سازش کی جو خود اس کے گلے کی ہڈی بن گئی،مولاناوصی احمد شمسی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:سون پور میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہیڈ ماسٹر راجندر مشرا جی بل میں میرا نام سریلی 22/نمبر پر ہی رکھا،ان کا بیٹا جے پرکاش جو انٹرینڈ(BA) تھا بل میں 25ویں نمبر پر نام تھا ،ایپرول لیٹر میں میرانام 1نمبر پر تھا ،بل میں میرے دستخط کے بعد چھپرہSDEOآفس جاکر پچیسواں کردیا اور اپنے بیٹا جے پرکاش کا 22ویں پر لکھا،مگر اللہ کی خاص مہربانی سے ان کے ساتھ گیے ٹیچر اور اسکول کے کلرک نے مجھ کو بتادیا کہ آپ کا نام 25ویں پر کردیا جبکہ 24عہدے ہی منظور ہیں،آپ چھپرہ جاکر پیروی کریں ورنہ آپ کی ملازمت ختم ہو جائے گی ۔چھٹھ دیوالی کی دس دنوں کی فرصت تھی ،سبھی لوگ اپنے اپنے گھر گیے،راقم چھپرہ چلا آیا ،حافظ امام الدین صاحب (وفات:یکم جنوری/2020)گدری شیخ ٹولیہ کے مکان پر قیام کرکے SDEOآفس جانے سے قبل مولوی بلگرامی سے ملاقات کیا،جو مڈل اسکول میں استاذ تھے اور ریاستی انجمن ترقی اردو چھپرہ کے ذمہ دار وں میں تھے،میں انجمن ترقی اردو کا صوبائی سرگرم خادم اردو تھا۔بلگرامی صاحب بڑے ہمدرد تھے،ایس پی ایس ہائی اسکول سمنیری سون پور سے اردو فارسی یونٹ ختم کردی جائے وہ اس سازش کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔خود شیعہ تھے اور بلگرام لکھنؤ کے رہنے والے تھے،ملازمت کی وجہ سے چھپرہ شہر میں بود وباش اختیار کر لی تھی۔SDEOکاظمی صاحب بھی نیک شریف ایمان دار شیعہ تھے،مولوی بلگرامی نے میرا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ مولانا عبد الرحمن صاحب صدر مدرس مدرسہ حمیدیہ گودنا کے بھانجہ ہیں اور انجمن کے فعال و سرگرم خادم اردو ہیں ۔بات سمجھ لینے کے بعد آفس کے بڑا بابو کوبلایا اور ڈانٹا کہ محمد وصی احمد فاضل مدرسہ بورڈ ہیں جو سرکاری طور پر ٹرینڈ BAہیں،بقیہ تین آدمی انٹرینڈ ہیں ،اس لیے ان کا نام ان تینوں کے اوپر ہوگا ،ان تینوں میں ہیڈ ماسٹر جن کا نام چاہیں ہٹادیں۔اب میرے گلے کا پھانس راجندر مشرا کے گلے میں آپھنسا۔میرا نام ہٹایا اللہ تعالیٰ نے ہیڈ ماسٹر کے گلے کی ہڈی بنادیا ،ہیڈ ماسٹر سون پور پٹنہ چھ مہینہ تک دوڑتے رہے “(ص:251) مولانا محمد وصی احمد شمسی اس آزمائش میں سرخرو ہونے اور فریق مقابل کومنہ کی کھانی پڑی ،سچ ہے:چاہ کن را چاہ درپیش ۔ان سب کے باوجود مولانا کا رویہ اس ہیڈ ماسٹر کے ساتھ کیا تھا اس چشم کشا اور سبق آموز اقتباس کو بغور پڑھیے: ہمارے ہیڈ ماسٹر شری راجندر مشرا جی اور اس علاقے کے مانپور اسکول کے کیی ایسے ٹیچر جو فاونڈر انٹرینڈ ہونے کی وجہ سے چھٹ گیے تھے ۔میں نے غلام سرور صاحب سے گزارش کی کہ حضور!نقلی مجنوں مکھن کھاے اصلی مجنوں سوکھا جانے”وہ میری بات سن کر چونک گئے،وضاحت کے بعد انھوں نے اتنی ہمدردی کا اظہار کیا کہ اپنے دفتر میں محکمہ تعلیم ثانوی کے اعلی حکام سے مشورہ کیا ،ایک لیڈی اعلی آفیسر تھیں ،انھوں نے مشورہ دیا کہ حضور!آپ تین مہینے کا شرٹ ٹایم ٹریننگ کرادیں ۔جو ٹیچر فاونڈر ہیں (STET) کرکے باضابطہ بحال رہیں گے اور انھیں بھی تنخواہ ملا کرے گی ۔اس طرح سون پور کے اسکول مانپور کا مسلہ حل ہوجانے کی وجہ سے پورے بہار میں ایسے انٹرینڈ ماسٹروں کو راحت مل گئی”(ص:247) یہ ہے خلق حسن کا نمونپھر تو مولانا کااس علاقے میں شہرہ اتنا زیادہ ہوگیا کہ ہیڈ ماسٹر موصوف بھی انھیں پیراور گرو مہراج ماننے لگے ۔جب کہ وہ علاقہ اور اسکول بھومیہاروں اور برہمنوں کا تھا اور ان کی ہی طوطی بولتی تھی ۔وہاں 1974 تا1981قیام رہا پھر وہاں سے 1981میں تبادلہ کراکرپوہدی بیلا ہایی اسکول آگیے جو گھر سے محض 6/7کیلومیٹرکے فاصلہ پر واقع تھا تاکہ علاقے کی خدمت کرسکیں ۔لیکن تلخ تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی جیسا کہ مصنف رقمطراز ہیں:سون پور سے پوہدی بیلا ہایی اسکول اپنی رضامندی سے تبادلہ کراکر آنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی،جس کے خسارے کی تلافی ممکن نہیں ہے؛البتہ اللہ کا فضل وکرم ہوجائے”(ص:238) بالآخر قبولیت کی گھڑی آیی ،اللہ کا فضل وکرم ہوا، دل کی مراد برآیی۔1995ع میں تبادلہ کی چٹھی واٹسن ہایی اسکول مدھوبنی کے نام مژدہ جانفزالےکرآئی۔یہ ملازمت کی زندگی کا آخری پڑاؤ واقع ہوا۔چنانچہ31/مءی 2009 ع کو حسن خدمت کے وظیفہ کے ساتھ وہیں سے سبکدوش ہونے۔ اسی سال حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے ۔
قلم و قرطاس سے آپ کی پرانی شناسائی تھی ۔اس لیے تصنیف و تالیف کو ہی مطمح نظر بنایا ۔جس کا حسین ثمرہ “حیات عبدالرحمن”اور خودنوشت سوانح حیات”یادوں کی بہار”کی صورت میں برآمد ہوا۔ جس کا آغاز”یادوں کے خزانے” کے نام سے ہوا تھا،لیکن منصہ شہود پر”یادوں کی بہار”کے نام سے ہویی۔
چنانچہ کلرک وکرانی بھی عجیب بدنام زمانہ ہوتے ہیں۔بقول شخصے: ہزار کمینہ مرتا ہے تو اس کے بدل میں ایک کلرک جنم لیتا ہے”۔بات تو ہے کڑوی لیکن تجربہ سے اس کی تصدیق روز مرہ کی زندگی میں عموماً ہوتی رہتی ہے۔بدعنوانی اور رشوت ستانی تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔چنانچہ اس کا ایک نمونہ ہمیں اس کتاب میں بھی ملتا ہے۔قاری کی طبع ضیافت کے لیے ہم مولانا موصوف کی زبان میں ہدیہ ناظرین کررہے ہیں،وہ تحریر فرماتے ہیں: ایک یاد داشت میرے اور میرے خاندان والوں کے لیے تاریخی ہے ۔وہ یہ کہ 2006ع میں واٹسن اسکول کا انچارج پرنسپل بنایا گیا ۔کرسی پر بٹھاے جانے پر اپنے اسکول کے اساتذہ اور اسٹاف سے عرض کیا کہ مالک! پروردگار کا بڑا شکر واحسان ہے کہ آپ سبھوں نے ایک کمزور آدمی کو واٹسن اسکول کے تاریخی کرسی پر بٹھایا،خدا آپ لوگوں کو اس کا اچھا بدلہ دے ۔واٹسن اور اس کے پرنسپل کی کرسی (مریادت) پروقار کرسی رہی ہے ۔اس کرسی پر مہاپرش بیٹھے ہیں ۔واٹسن کا وقار اور اس کرسی کی لاج اسی وقت تک بحال رہے گی جب تک آپ لوگوں کا سہ یوگ اور تعاون ہمارے ساتھ رہے گا ۔اسکول کے کرانی بندیشور جادب اجتماعی تبادلہ میں مدھوبنی کے کسی اسکول سے تبادلہ ہوکر واٹسن ہائی اسکول میں جوائین کیا۔یہ کرانی کسی اعتبار سے واٹسن اسکول کے معیار کے لائق نہیں تھا۔مگر لالو یادو کا راج تھا کوشش اور پیروی سے بڑے اسکول میں آگیا۔ مدھوبنی ضلع کے نامی گرامی دبنگ کرانیوں میں شمار ہوتا تھا ۔اپنے کو واٹسن کا(HM)ہی سمجھتا تھا ۔ڈاکٹر پرپوری مشرا جی ،ان کے بعد ماسٹر شمبھو ناتھ مشر جی انچارج پرنسپل کو گود ہی میں رکھا ،راقم جب انچارج بنا تو میں نے کہا کہ”میں جس خاندان سے آتا ہوں اور جو کچھ ہوں آپ برسوں سے جانتے ہیں اور ساتھ رہے ہیں ،میں صاف ستھرا آدمی ہوں ،کام پر میرا یقین ہے۔ کسی کے منہ کا کور(لقمہ) نہیں چھینوں گا ؛مگرواٹسن کا سماج اور سرکاری حکام میں جو وقار بحال ہے ،اس کی حفاظت کروں گا”. بندیشور یادو جن کو میں بندیشور بھائی سے مخاطب کرتاتھا ۔انھوں نے اپنی چال ورفتار میں کچھ بھی بدلاؤ لانے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ مجھ ہی کوکیس و مقدمہ میں پھنسانے کی خاطر اسکول کی اہم چیزوں کے ریکارڈ کو اپنی ڈوپلی کیٹ چابی سے غائب کردیا۔میں بڑی کوشش کیا کہ ریکارڈ واپس کردیں ورنہ میں آپ پر مقدمہ کردوں گا،اور میں نے مقدمہ کردیا،مجھ پر بھی کاؤنٹر کیا گیا۔خلاصہ یہ کہ ان کی بیوقوفی اور کچھ لوگوں کے غلط مشوروں کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی،میری بات سنی ان سنی کرتے رہے مجبور ہو کر ان کا اسکول سے تبادلہ کرادیا۔ہوسٹل کے دو بڑے کمرے وہ اپنے قبضے میں رکھتے تھے خالی کرادیا۔گرفتاری کے ڈر سے مہینوں نیپال میں روپوش رہے،تنخواہیں بند ہوگئیں،بہت مہینوں کے بعد ان کا کاونٹر مقدمہ بھی خارج ہوگیا اور میری ڈگری ہوگئی۔ کچھ دنوں بعد وہ پنڈول ہانی اسکول میں جوائین کیا۔وہاں سے بھی رام پٹی جیل گیے”.(ص:265) پھر بھی اس کلرک کو مولانا محمد وصی احمد شمسی کی ذات ستودہ صفات سے کتنی امید یں وابستہ تھیں اس کو ملاحظہ فرمائیں:اس کے باوجود ان کا مجھ پر یقین واعتماد تھا کہ وصی احمد صاحب!مکہ مدینہ گیے ہیں ،وہاں سے میرے لیے دعا کریں گے ،تنخواہ ہماری جاری ہوجائے گی”.(ص:266) چنانچہ اس کی تنخواہ بھی جاری ہوگیی ،پنشن یاب بھی ہوگیا ،مولاناکوخوشی بھی ہویی ۔لیکن اس دور پرآشوب میں مولانا موصوف کی طرح کی شخصیت خال خال ہی پانی جاتی ہے کہ دشمن بھی اس سے اس قدر عفو وکرم کی امید رکھے۔ورنہ تو انتقام کی چاہ میں عدل وانصاف کادامن بھی تار تار ہوجاتا ہے۔اعتدال کو ن ملحوظ رکھتا ہے۔گویاکہ لسان الغیب حافظ شیرازی کا یہ شعر ان کی عملی زندگی پر صادق آتا ہے:
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں مروت ، با دشمناں مدا را
ترجمہ:دوجہاں کی آشایش ان دو باتوں میں مضمر ہے ؛دوستوں سے مہربانی سے پیش آءیں اور دشمنوں سے بھی حسن سلوک روا رکھیں۔یہ مقدمہ بھی مولانا نے اپنے دفاع میں طوعا وکرہا کیا تھا ورنہ بقول سی جی ایم کہ: ماسٹر صاحب! مقدمہ نہ کرتے تو جیل جاتے”.اس غلط مقدمہ کا اسے کیا خمیازہ بھگتنا پڑا اسے بھی دل تھام کر سن لیجیے: مجھے مقدمہ سے فارغ خطی مل گئی،مگراس کا خاندان برباد ہوگیا،اس کے گھر بک گیے،جوان بیٹا معذور ہوگیا”.(ص:266) اسی لیے کہا گیا ہے کہ برایی کا بدلہ برا ہوتا ہے ۔
واقعی میں یہ کتاب “یادوں کی بہار”ٹوٹے دلوں کا سہارا ،مایوسی وناامیدی کے ماحول میں امید کا چراغ ہے۔ ناکامیوں کے ماحول میں حوصلہ مندی کا پیغام ہے ۔شب تاریک میں قندیل رہبانی ہے ۔میں اپنی بات کی تائید میں صفی اختر صاحب کی تحریر پیش کرکے مضمون ختم کرتا ہوں: بہرحال فاضل مصنف نے اپنی زندگی کے تلخ وترش تجربات سے جو کچھ حاصل کیا ،جو کچھ جہاں بانی کی اور اپنے امانت خانے میں جو کچھ محفوظ تھا ،لوح دل سے قرطاس قلم کے حوالے کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیش کردیا تاکہ وہ عام انسانوں کے لیے زندگی کی تعمیر نو کا وسیلہ بن سکے۔بلا شبہ ترقی وکامیابی بعض استثنا کے ساتھ کبھی موروثی نہیں ہوتی۔ طلب اورتڑپ پر اس کا انحصار ہے ۔عزم وہمت اور بلند حوصلگی اس کی بنیاد ہے ۔کہاجاتاہے کہ جب جذبہ صادق ہو تو راہ آسان ہوجاتی ہے ۔یہ بات کسی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فاضل مصنف 1967 -68 کے درمیان کبھی لوگوں کو “مریخ”(رسالہ ماہنامہ ‘مریخ’) کی سیر کرارہے تھے ۔آج روے زمین پر اپنے تعمیری فکر و خیال کے ساتھ ملک وملت کو”یادوں کی بہار”کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔مختلف دور کی عبقری شخصیات سے متعارف اور صالح جذبہ و فکر رکھنے والے آج اپنی سادہ نثری صلاحیتوں سے دانشوری کا کارگر امتزاج دکھانا چاہتے ہیں ،ان کا بس چلتا تو آسمانوں سے تارے توڑ لاتے اور ملت کی کلاہ میں ٹانک دیتے ۔ان کے یہاں نہ تو خون جگر کی کمی ہے اور نہ ہی اخلاص کی ۔بس کتاب پڑھیے اور دعائیں دیجئے ۔خداآپ کو تادیر سلامت رکھے ۔آمین۔ایں دعا از من وجہاں آمین آباد ۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/