وزیر اعظم تانا شاہ بننے کی راہ پر گامزن؟
ریاض فردوسی۔9968012976
پارلیمنٹ ایک ایوان ہوتا ہے جہاں پہ قانون سازی کی جاتی ہے پارلیمنٹ تمام جمہوری ممالک میں ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ لفظ انگریزی ہے جو فرانسی لفظ پارلماں سے آیا ہے جس کے معنی ہے وہ جگہ جہاں بحث و مباحثے کۓ جاۓ۔
ہمارے ملک بھارت کی پارلیمنٹ بھارتیہ جمہوریہ نظام کا بلندترین مقام ہے۔یہاں تمام ممبران پارلیمنٹ قانون سازی کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات سے جڑے امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔پارلیمنٹ وہ جگہ جس کے تمام ارکان پارلیمنٹ،خواہ ان کا تعلق برسراقتدار جماعت سے ہو یا حزب اختلاف سے،سارے لوگ پارلیمنٹ کے وقار کے محافظ ہیں۔
حزب اختلاف جمہوری نظام کا اہم ترین عنصر اور بنیاد ہوتا ہے۔
یہاں کے ممبران کے درمیان مقابلہ آرائی ایک فطری بات ہے لیکن یہ مقابلہ اپنے عوام کی بہترین نمائندگی اور لوگوں کی بھلائی کے لئے اچھے کام انجام دینے کے حوالہ سے ہونا چاہئے۔
بھارت کے نۓ پارلیمنٹ کی بلڈنگ کی افتتاح خود کرکے جناب وزیر اعظم مودی جی نا حزب اختلاف کی راۓ مان رہے ہیں،اور نا ہی جمہوری ملک کی آئین کو تسلیم کر رہیں ہے۔عادلانہ حکومت سے ہٹ کر تانا شاہی نظام قائم کرنے کی طرف کوشاں ہیں۔
جناب وزیر اعظم مودی جی اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھ رہی ہیں،ان پر یہ واضح نہیں ہو رہا ہے بھارت کا آئین کن باتوں پر عمل درآمد کرنے کا نام ہے۔
وہ مجاہد جدو جہد آزادی کے نظریات کی توسیع کے تناظر میں غور کریں تو وہ آئین کے تخلیق کرنے والوں کی وراثت کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کے متعلق ضرور سوچیں گے۔اگر ان پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسی جگہ پر بیٹھیں ہیں جہاں آئین کے مرتب کرنے والے بیٹھتے تھے،تو تاریخ اور ذمہ داری کے حوالے سے اپنے فرائض کا احساس ضرور کریں گے۔
لیکن انہیں یہ ابھی تک احساس ہی نہیں ہے۔
بھارت کا آئین آزادی کی77 ویں سالگرہ منا رہاہے اور ہمارے عزت مآب وزیر اعظم مودی صاحب بھارتیہ آئین کو معطل کرکےDICTATORSHIP لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
آخر میں!
تانا شاہی رویہ اب دل میں اترنے لگا ہے
سب کو ان سنا کر وہ خود کی کرنے لگا ہے
دیدی نے پہلے ہی کہا تھا یہ ظالم حکمران ہے
دیش کو نفرت کی آگ میں جلا کر ہی دم لے گا
تانا شاہی نظام کی طرف ملک کو لیے جانے کی ناپاک کوششوں کو ناکام کرنے کے لیے ذات وبرادری،مذہب،اونچ،نیچ،بائیکوٹ،فاروڈ،دلت،مہادلت نہیں بلکہ بہار،بنگال اور پورے بھارت کی عوام کو ایک ہوکر بابا صاحب کے آئین اور ملک کو بچانے کے لیے ظلم اور ہٹلر شاہی کے طریقے پر کام کرنے والی یہ ظالم حکومت کے فرمانوا پتا گل کرنا ہوگا۔
اور یہ طاقت و قوت ہر عوام میں ہے۔
میرے ہم وطن بھائیوں ساتھیوں دوستوں ان ہٹلر شاہی حکومت کے خلاف کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ایک جہتی کے ساتھ متحد ہوکر سیکولرزم کے علمبردار،بنگال کو اچھی حکمت سے روشناس کرانے والی محترمہ ممتا بنرجی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لیڈروں کی آواز کے ساتھ آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر آج محترمہ ممتا بنرجی(دیدی)اور ان جیسے چند سیکولر سیاستدانوں کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاؤ گے تو کل ان ظالموں کے آگے ہر کسی کو جھکنا پڑے گا۔
آج جناب مودی جی جس منصب پر فائز ہیں وہ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے ہیں انہیں لگتا ہے کہ وہ چل رہے ہیں تو ملک چل رہا ہے۔
محترم جناب عزت مآب وزیر اعظم صاحب آج آپ کو یہ غور وفکر کرنا ہوگا کہ جس جگہ پر آج آپ بیٹھتے ہیں،اس جگہ پر کبھی ملک کے آئین کو مرتب کرنے والے بیٹھے تھے۔عزت مآب وزیر اعظم مودی جی کو یہ ماننا ہو گا کہ یہ سونے کی چڑیا کہلانے والا ہمارا ملک بھارت ہٹلر شاہوں اور انگریزوں سے نجات پا کر گاندھی جی کی اصولوں اور بابا صاحب کے آئین سے چلتا تھا،چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔
انصاف،آزادی،مساوات اور بھائی چارہ جیسی ان عظیم قدروں کا ذکر ہماری آئین کی تمہید میں کیا گیا ہے،جس کو محترم جناب وزیر اعظم مودی صاحب ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔اپنے مکر دینے والے ملک سے محبت کے نام پر ایسی زہر آلود ہوا فضا میں گھول دیا ہے کہ ملک کا ہر ذی روح بھارتیہ کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہاہے۔حکمران پارٹی کے ارکان حزبِ مخالف کو تنگ کرنے کا کوئی موقع کھونا نہیں چاہتے۔گزشتہ کئ برسوں سے پارلیمنٹ کے وقار اور اس کے مرتبہ کو جس طریقہ سے عزت مآب وزیر اعظم مودی صاحب اور حکمران جماعت کے اراکین کر رہے ہیں،اس کی نظیر اور مثال سابق میں بہت کم ملتی ہے۔اپوزیشن پارٹیوں اور جو حکومت سے سوال کرتا ہے،اسے تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں اور پریشان کیا جا رہا ہے۔عزت دار لیڈروں کا عوامی جلسوں میں مزاق اڑایا جاتاہے۔وزیر اعظم مودی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے آج کی سیاست کو گندگی کے دلدل میں دھنسا دیاہے۔محترم جناب مودی صاحب،آر ایس ایس اور حکمراں جماعت کے تمام اراکین بھارت میں جمہوریت کو کمزور کرکے ملک میں ڈکٹیٹر شپ کے لیے راہیں ہموار کررہے ہیں۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے بھارتیوں
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں
محترم جناب راہل گاندھی جی کے 10 سوال مودی جی کے نام؟
(1) سالوں میں آج سب سے زیادہ بے روزگاری کیوں ہے؟ ہر سال 2 کروڑ روزگار دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟
(2)عوام کے روزمرہ کے کھانے پینے کی چیزیں، مثلاً دہی-اناج پر جی ایس ٹی لگا کر ان سے دو وقت کی روٹی کیوں چھین رہے ہیں؟
(3)کھانے کا تیل، پٹرول-ڈیزل اور سلنڈر کی قیمت آسمان چھو رہی ہے، عوام کو راحت کب ملے گی؟
(4)ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قیمت 80 کے پار کیوں ہو گئی؟
(5)آرمی میں 2 سالوں سے ایک بھی بھرتی نہیں کر کے حکومت اب ’اگنی پتھ‘ اسکیم لائی ہے، نوجوانوں کو 4 سال کے ٹھیکے پر ’اگنی ویر‘ بننے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟
(6)لداخ اور اروناچل پردیش میں چین کی فوج ہماری سرحد میں گھس چکی ہے، آپ خاموش کیوں ہیں اور آپ کیا کر رہے ہیں؟
(7)فصل بیمہ سے انشورنس کمپنیوں کو 40 ہزار کروڑ کا فائدہ کروا دیا، لیکن 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے اپنے وعدے پر خاموش کیوں؟
(8)کسان کو صحیح ایم ایس پی کے وعدے کا کیا ہوا؟ اور کسان تحریک میں شہید ہوئے کسانوں کے کنبوں کو معاوضہ ملنے کا کیا ہوا؟
(9)سینئر شہریوں کے ریل ٹکٹ میں ملنے والی 50 فیصد چھوٹ کو بند کیوں کیا؟ جب اپنی تشہیر پر اتنا پیسہ خرچ کر سکتے ہیں تو بزرگوں کو چھوٹ دینے کے لیے پیسے کیوں نہیں ہیں؟
(10)مرکزی حکومت پر 2014 میں 56 لاکھ کروڑ قرض تھا، وہ اب بڑھ کر 139 لاکھ کروڑ ہو گیا ہے، اور مارچ 2023 تک 156 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہوگیا ہے، آپ ملک کو قرض میں کیوں ڈوبا رہے ہیں؟
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/