پارلیامنٹ بدلنے والا 10ویں سال میں بدل جائے گا۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
عارف شجر
حیدرآباد، (تلنگانہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اب ایسا ملک کے عوام کو احساس ہو چکا ہے کہ ملک کی کرنسی بدلنے سے لے کر مین اسٹریم میڈیا کے ذہن کو بدلنے اور اسے اپنے انگلیوں پر نچانے تک اور چناؤ ضابطے میں تبدیلی لانے سے لے کر ملک کی پارلیامنٹ تبدیل کرنے والا شخص کیا 2024 کے عام انتخابات میں بدل جائے گا؟ کیا عوام اس کی تانا شاہی سے اتنی بیزار ہو چکی ہے کہ وہ 2024 میں اقتدار کی کرسی پر دیکھنا نہیں چاہتی ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور یہ سوال اٹھنا اور بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ ملک کی آئین کو بالائے طاق رکھ کر آئین سے حلف لینے والا آئین کی دھجیاں اڑانے لگے تو ملک کے لئے مشکل گھڑی کا پتہ چل جاتا ہے۔اپنی خوشنودی اور چکاچوندھ کو لے کر پی ایم نریندر مودی جس طرح سے بنیادی مدعوں کو چھوڑ کر اپنی واہ واہی کے لئے کام کئے جا رہے ہیں وہ یقینا ملک کے لئے خطرناک راستے کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ اس کی مثال نئی پارلیامنٹ میں صدر جمہوریہ کو دعوت نہ دینا ،سنگھول کو نصب کیا جانا اور اپوزیشن کی گذارش کو نظر انداز کیا جانا خصوصی طور سے شامل ہے۔ پی ایم مودی کے ان 9 سالوں کے دوران جس طرح سے تانا شاہی ابھر کر سامنے آئی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان 75 سالوں میں جو کچھ نہیں ہوا وہ پی ایم مودی نے اپنے 9 سالوں کے دوران کر دکھایا جس میں آئین کے سہارے نہیں بلکہ ملک کے پی ایم کے سہارے رینگتا ہوا دیکھائی دیا اور اس سے بھی بڑی بات پی ایم نے اپنے ماتحت جو کچھ بھی کرنا چاہا وہ بڑی آسانی سے کر دیا چاہے وہ مین اسٹریم کی میڈیا ہو، سی بی آئی ہو ای ڈی ہو یا پھر اور کوئی ادارہ سب پی ایم مودی کے آگے رینگتے اور سر جھکاتے ہوئے نظر آئے اور پھر پی ایم نے اپنے حق میں جو کچھ کرنا چاہا وہ کیا اپنے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا استعمال ای ڈی اور سی بی آئی سے بھر پور کرایا جو اب بھی یہ سلسلہ برقرار ہے۔
مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کو اس بات کا علم ہو گیا ہے کہ ان کا جلوہ ختم ہو چلا ہے وہ 2024 کے انتخابات میں پی ایم کی کرسی سے بے دخل ہو جائینگے حالانکہ انکا اب بھی دعوا ہے کہ وہ 300 سے زائد سیٹ لا کر اپنی کرسی بچا لیں گے لیکن جس طرح سے ان دو تین مہینوں کے دوران شکست کے خوف سے پی ایم نریندر مودی کی دھڑکنیں تیز ہوگئی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جس طرح سے تابڑ توڑ کتبہ میں اپنا نام لکھایا جا رہا ہے وہ 75 سالوں کے دوران بھی کسی پی ایم نے نہیں کیا یہاں تک کہ نئے پارلیامنٹ میں اپنے نام کا کتبہ کو لے کر بھی پی ایم مودی نے واضح کر دیا کہ اس میں میرے علاوہ کسی بھی شخص کا نام نہیں ہوگا خواہ صدر جمہوریہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کرناٹک میں بی جے پی کی شرمناک شکست نے یہ ثابت کر دیا کہ 2024 پی ایم مودی اور بی جے پی کے لئے بڑی مشکل گھڑی ہونے والی ہے۔زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کرناٹک انتخابات نے مودی حکومت کو الوداع کا پیغام دیا ہے۔رام جنم بھومی مکتی آندولن کے ذریعے اقتدار میں آنے والی بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر مرکز سے لے کر ریاستوں تک جتنے بھی انتخابات لڑے ہیں ان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یقیناً وہ وقتاً فوقتاً سب کا ساتھ-سب کا وکاس کا نعرہ دیتی رہی ہیں، لیکن ان کی زیادہ تر توجہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر رہی ہے۔ اس کے لیے، رام جنم بھومی تحریک کے وقت سے، یہ بنیادی طور پر غلامی کی علامتوں سے نجات کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر انتخابی کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2022 میں وہ یوپی جیسی بڑی ریاست میں 80 بمقابلہ 20 سے ہار کر جیت گئی۔تاہم، بی جے پی، جو غلامی کی علامتوں کی آزادی کی مدد سے مذہبی جنون پھیلا کر الیکشن جیتنے کی عادی ہے، ایودھیا کے بعد وارانسی کی گیانواپی مسجد اپنی فہرست میں سرفہرست ہے۔ گیانواپی کی طرح متھرا کی کرشن جنم بھومی کا معاملہ بھی عدالت میں زیر التوا ہے۔ کئی مساجد جیسے جونپور کی اٹالہ مسجد، احمد آباد کی جامع مسجد، بنگال کی پانڈوا کی آدینا مسجد، کھجوراہو کی عالم گیری مسجد غلامی کی علامت کے طور پر سنگھ کی فہرست میں شامل ہیں، جن کے بارے میں بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ مندروں کو گرا رہی مساجد کی تعمیر کرائی گئی ہے۔زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چونکہ بی جے پی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائے بغیر کوئی الیکشن نہیں جیت سکتی، اس لیے کرناٹک کی شکست سے سبق لیتے ہوئے 2024 میں نفرت کی سیاست کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔ لیکن کرناٹک میں کانگریس کا منشور اور سماجی انصاف کے تئیں اس کی وابستگی اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اگر 2024 میں اپوزیشن ملکارجن جیسے سنجیدہ چہرے کے ساتھ انتخابات میں اترتی ہے اور کانگریس کے منشور میں کچھ بروقت موافقت کرتی ہے، تو مودی حکومت یقینی طور پر چلی جائے گی۔ یہ سیاسی تجزیہ کار کرناٹک انتخابات کا پیغام دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کرناٹک میں مودی کی شکست نے 2024 کے عام انتخابات کے نتائج کی جھلک دکھا دی ہے۔ جمہوریت بمقابلہ فاشزم کی جدوجہد ان انتخابات کی سب سے فیصلہ کن جدوجہد ثابت ہونے جا رہی ہے۔ 2024 میں جمہوری اور سیکولر قوتوں کی کسی بھی قسم کی غفلت اب ہمارے ملک کا اقتدار براہ راست ننگے فاشسٹوں کے ہاتھ میں دینے سے بڑی غلطی ثابت ہو گی۔ مودی پچھلے نو سالوں میں اپنے اصلی خونی پنجے دکھا چکے ہیں۔
بہر حال ! ہماچل کے بعد اب کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے واقعے کی تکرار ہندوستان کی جمہوریت کے نارمل رویے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ کرناٹک کے انتخاب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے موجودہ حالات اب جمہوریت کے اظہار کے لیے سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے ان انتخابات کو ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جانا چاہیے۔ پی ایم مودی کا نئے پارلیامنٹ افتتاح اس بات کا اشارہ کر رہا ہے کہ تانا شاہی عروج پر ہے اپوزیشن سے افتتاح سے قبل کوئی رائے مشورہ نہ لینا پی ایم کے لئے سیاسی خطرے کی گھنٹی تو نہیں ہے۔پی ایم مودی کے کام کاج کو دیکھتے ہوئے مغربی بنگال کی سی ایم ممتا بنرجی نے تو صاف کہہ دیا کہ اس ملک میں تانا شاہی راج چل رہا ہے جس میں آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے پی ایم مودی نے آئین کی دھجیاں اڑا کر ملک کو تاریکی میں لے جانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پی ایم مودی کے خلاف اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوگئی ہیں اور انہیں پی ایم کی کرسی سے بے دخل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اب سے کتنا کامیاب ہو پائے گا یہ تو 2024 کے نتائج ہی بتائے گا لیکن ایک بات تو صاف ہو گئی ہے کہ اپوزیشن پی ایم مودی کو کسی بھی طرح اقتدار کی کرسی سے ہٹانے کے لئے سرگرم ہیں۔ اپوزیشن اس بات سے غصے میں ہے کہ پی ایم مودی اپنی من مانی کرتے ہیں پارلیامنٹ جیسے بڑے بلنڈنگ کے افتتاح میں انکا مشورہ نہ لینا تانا شاہی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ وہیں دوسری جانب پی ایم مودی نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ اپوزیشن سے مشورے سے کام نہں کریں گے کیوں کہ اپوزیشن پارٹیاںان کےخوابوںکو پورا نہیں ہونے دے گی اور نئے پارلیامنٹ انکی خوابیوں کی تعبیر ہے ۔ پی ایم مودی کا ماننا ہے کہ ہے اس میں کسی بھی طرح کا کی مداخلت برداشت نہیں کیوں کہ وہ ملک کو ایک نئی سوغات دے رہے ہیں۔
ختم شد
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/