یہ بات بالکل عیاں و بیاں ہے کہ خدا تعالی نے ہم بندوں کو اس اس دار فانی میں صرف محض اپنی عبادت کے لیے بھیجا ہے چاہے وہ عبادت مالی ہو یا بدنی مالی عبادت جیسے زکوۃ و صدقہ وغیرہ اور بدنی عبادت سے مراد نماز وغیرہ اس طرح قربانی بھی ایک عبادت ہے جو کہ مالی عبادت ہے
ایک حلال مخصوص جانور کو مخصوص دن بہ نیتِ تقرب ذبح کرنے کو کہا جاتا ہے اور یہ سنت ابراہیمی بھی ہے قربانی ہر مسلم بالغ مالک نصاب اور آزاد پر واجب ہے اور اسکا انکار کرنے والا عذاب مستحق ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے *فصل لربك وانحر* ترجمہ تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو
واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں واجب الادا اخراجات اور قرض ادا کرنے کے بعد ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ ہے اور چاندی ساڑھے باون تولہ یا اس کی مقدار میں قیمت یعنی رقم موجود ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ساڑھے سات تولہ سونا سے مراد بیس مثقال ہے اور ساڑھے باون تولہ سے مراد دو سو درہم ہے ہے اور ایک دن ہم ہم کا وزن تقریبا3.06 گرام ہے اور ایک دینار کے مقدار 4٠375گ ہیں
مسلک احناف کے نزدیک قربانی کے صرف تین ہی دن ہے اور بعض علماء جو چار دن بتاتے ہیں وہ بے غیرت بالکل قابل قبول نہیں ہے قربانی ذی الحجہ کے 10 11 12 ان تین دنوں میں کر سکتے ہیں ہاں مگر 10 کو 10 کو قربانی کرنا زیادہ بہتر و افضل ہے لیکن اگر اپ 11 ذولحجہ کو کرتے ہیں تو جانور کا ثواب میں کچھ ثواب میں کچھ تخفیف رہے گی اور اسی طرح دن بدین اجر و ثواب میں تخفیف ہوتی رہے گی ثواب میں کچھ تخفیف رہے گی اور اسی طرح دن بدین اجر و ثواب میں تخفیف ہوتی رہے گی
قربانی صرف تین طرح کے جانوروں کی جائز ہے بکرا گائے اور اونٹ یہاں بکرے کی زیر فہرست ہے یعنی بکرا خصی ہو سکتا ہے یا بکری بھی ہو سکتی ہے اسی طرح گائے میں بھی بھینس پاڑا بیل شامل ہے بشرط یہ کہ بکرا کم سے کم ایک سال کا ہونا چاہئے اور گائے کم سے کم دو سال کی ہونی چاہیئے اور انہیں کم سے کم پانچ سال کا ہو تو اسی کی قربانی صرف جائز ہوگی
ایک جگہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول نے عرض کیا کہ:- ’’یارسول اللہ یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:- یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے- صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی کہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا:- ہر بال کے عوض ایک نیکی- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ اگر اون ہو؟ آپ نے ارشاد فرمایا:- اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی‘
جو قربانی تقرب الہی خوش دل سے کی گئی ہو وہ قربانی جہنم کی آگ سے رکاوٹ بنے گی پھر ہر خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے پر سارے گناہ معاف ہو جائیں گے قربانی کرنے والے کا نیکیوں کا پلا بھاری ہو جائے گا اور جانور کے ہر بال میں ایک نیکی ملے گی اور قربانی تمام عبادتوں سے الگ ہے اور سنت ابراہیمی ادا ہو جائے گی قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو بندے اور اللہ کے عشق کا مظہر بنتا ہے
*محمد طارق اطہر*
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/