محرم الحرام کی مروجہ بدعات وخرافات

*محرم الحرام کی مروجہ بدعات وخرافات*

تحریر: عبدالباقی عبداللہ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، جن کے اندر جنگ و قتال درست نہیں ہے۔ یوں تو اس مہینے کے تمام ایام اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں ۔مگر دسویں محرم کی رفعت شانی و بلند مکانی اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایام جاہلیت میں بھی قریش اس کی عظمت کے قائل تھےاور اس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔البتہ جب رمضان کے روزے فرض قرار دیئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھناترک کردیا۔ بھر جو چاہتاروزہ رکھتا اور جو چاہتا روزہ نہیں رکھتا.
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری ومسلم کی ایک روایت کے مطابق جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو روزہ کی حالت میں دیکھا ۔آپ نے ان سے سوال کیا: یہ کیسا دن ہے ؟ جس میں تم روزہ رکھتے ہو۔انہوں نے کہا: کہ یہ ایک متبرک دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی۔ قوم فرعون کو غرقاب کیا.
اس عظیم الشان ماہ کی قداست و علو مرتبت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں۔یہ وہی مہنیہ ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصور معاف ہو ا تھا۔ اسی ماہ مبارک میں حضرت یونس علیہ السلام کو بھی مچھلی کے پیٹ سے نجات حاصل ہوئی تھی۔ اس ظالم قوم سے نجات کے شکرانے میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا۔ اسی سنت کو تھامتے ہوئے تمام مسلمانان عالم اسلام روزہ رکھتے ہیں۔

یہ با ت بھی غور طلب ہے کہ واقعہ کربلا کے حوالے سے مسلمانوں کے اندر رواج پاجانے والے یہ سارے اعمال شریعت کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں: کیا یہ سب کچھ سنت نبوی ؐہے یا سنتِ حسینی ؓہے؟ تاریخی طور پر دیکھیں تویہ پہلو بھی خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے:
نبی کریمﷺ ۱۱ ہجری میں دنیاے فانی سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ دین اسلام مکمل اور تمام تھا۔اس میں نہ اب کمی ہوسکتی تھی نہ اضافہ۔ جو کچھ آپﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کیے یا احکام دیئے یا کچھ مسلمانوں کے کردہ اعمال کو دیکھ کر آپﷺ خاموش رہے (گویا آپ کی خاموشی رضا مندی تھی) وہ سب سنتِ نبویؐ بن گئے۔ یعنی سنت صرف وہ ہے جو آپﷺ کے اعمال، احکام اور آپ کی رضا مندیاں ہیں۔ اور آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: «عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين» (سنن ابن ماجہ: 42)
”تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔”
مزید برآں آنحضورﷺ نے فرمایا:«فمن رغب عن سنتی فليس مني»
”جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔” (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے) (صحیح بخاری: 5063)
واقعہ کربلا وفات النبیﷺ سے ۵۰ سال بعد 10محرم 61ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبویؐ اپنے دائرے میں بند اور مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں، وہ کسی درجے میں بھی سنت نہیں کہلائے جاسکتے کہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوں بلکہ یہ واضح طور پر شریعتِ محمدی میں اضافہ اور ابتداع ہی۔ جس کا نتیجہ صرف اور صرف غضب ِخداوندی اور ناراضی رسول ہے اور دنیا و آخرت دونوں کے لیے باعث خسران ہے۔

اسی دن کو جس میں کوفہ والوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر اور ان کے اہل و عیال پر ظلم وستم ڈھایا تھا ۔میدان کربلا میں خون کے دھارے بہائے تھے۔ اور اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے بیٹے یزید خلیفہ مقرر کیے گئے اسی دوران سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ والوں نے بذریعہ خط دعوت دی اور راستے میں دھوکے سے شہید کر دیا۔
غرض یہ کہ ماہ محرم میں حق کی خاطر شہید ہو نے والوں کی بہت ہی دردناک یاد گار ہے۔لیکن حیف صد حیف! آج بہت سارے مسلمان محرم کا چاند دیکھتے ہی ڈھیر ساری بدعات و محدثات کو انجام دینا شروع کر دیتے ہیں ۔بزم حسین کی مجالس منعقد کرتے ہیں ۔جس میں ان کے مناقب و شمائل خوب غلو سے بیان کیے جاتے ہیں ۔
حالانکہ تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ اسلامی تاریخ میں کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید کے گئے ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادتیں بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں ۔لیکن ان شہادتوں نے کسی فتنہ کو جنم نہیں دیا ۔البتہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو روافض نے فتنوں کی آماجگاہ بنا دیا ۔آل بیت کی جھوٹی محبت کا دم بھرنے والے شیعوں نے شہادت حسین کو اپنے باطنی عقائد کو پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا محرم کی پہلی تاریخ سے تعزیہ داری ڈھول تاشے کی آواز جھنڈے اور تعزیہ کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ دھوم دھام سے اکھاڑے نکالے جاتے ہیں۔ آتش بازی بے جا روشنی باجا گاجا کا اہتمام کثرت سے کیا جاتا ہے ۔کون
نہیں جانتا کہ اس میں جم کر لاٹھی بازی کا مظاہرہ نام نہاد مسلمان کرتے ہیں جو کام کل تک شیعہ انجام دے رہے تھے۔
مقام افسوس یہ ہے کہ یہ اب سنی کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے وہ ماتم کرتے ہوئے تعزیہ کا جلوس بہت دھوم دھام سے نکالتے ہیں ۔ اسی حقیقت کو مشہور شاعر علامہ اقبال نے بڑے ہی اچھوتے اسلوب میں نقشہ کچھینا ہے:

*(کہہ دو غم حسین منانے والوں سے*
*مومن کبھی شہداء کا ماتم نہیں کرتے )*

کاش آج امت مرحومہ ان افعال شنیعہ و رسوم قبیحہ کو ترک کردیتی اور اپنی زندگی کو پنجہ گانہ نماز کی پابندی تلاوت قرآن اور خیرات وصدقات میں بسر کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ لیکن افسوس! ان لوگوں نے انسانیت نمائ کی خاطر اسلام کو تباہی کے دہانے تک پہچانے کا عزم کر رکھا ہے کاش بدعتی مسلمان غلط فہمی سے ھٹ کر حق و باطل کی تمیز کر لیتے تو ان کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتی ۔
رب قدیر ہمیں حسن عمل کی تو فیق ارزانی دے اور افعال ممنوعہ سے بچائے ۔
آمین ثم آمین

کانہر پٹی مدھوبنی بہار
رابطہ نمبر 9771079908

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *