صادق جمیل تیمی
ماہ رمضان میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ زکات کا ہوتا ہے. کس کو دیں کہ اس کا صحیح استعمال ہو اور ثواب ملے. صحیح استعمال سے مراد زکات کا اس کے صحیح حقدار تک پہنچنا ہے. یعنی ہم صحیح حقدار کی پہچان کیسے کریں؟
چالیس ہزار روپے فی کلو گرام کی مد میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ٢١٠٠٠ روپے ہے. یعنی جس کی پاس اکیس ہزار سے زائد (سال بھر سے زائد عرصہ کے لیے) رقم یا اثاثہ موجود ہے اُس کو زکوٰۃ نکالنی پڑے گی۔
پہلا حقدار ہمارا قریبی رشتہ دار ہے. اب ایسا رشتہ دار کہاں سے لائیں جس کے پاس ٢١٠٠٠ روپے سے کم کا اثاثہ ہو.
دوسرا حقدار پڑوسی ہے. تو اتنا غریب پڑوس رکھیں گے تو لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے.
تیسرا حقدار نوکر چوکیدار وغیرہ ہیں تو اگر ان کے پاس پیسہ آگیا تو وہ کوئی اور کاروبار کر لینگے، ہمارا کام کون کریگا؟
بیت المال ہم مسلمان بنا نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس کوئی بھروسہ کا لیڈر نہیں ہے.
لے دے کر مدرسہ کو کچھ رقم دیدی جاتی ہے کچھ مانگنے والی عورتوں کو سو پچاس روپے اور پرانے کپڑے دے دیے جاتے ہیں. اور زکات کا فرض پورا مان لیا جاتا ہے.
ہر ایک مسلمان کی اپنی پسندانہ رائے ہے. سب قابل اور پڑھے لکھے ہیں. عید پر کوئی کسی سے ملنے جائے تو میزبان خد کو بڑا اور مہمان کو چھوٹا سمجھتا ہے.
میں اپنی قابلیت ثابت کرنا یا قوم کا مذاق اڑانا نہیں چاہتا.
بس یہ گزارش ہے کہ اپنے کسی رشتہ دار کے کاروبار میں کچھ پیسہ لگا دیں، کوئی مشین یا اوزار وغیرہ خریدوا دیں. مکان کی مرمّت کروادیں. صرف پیسہ دینے کے بجائے وقت بھی دیں تاکہ لینے والا اس رقم کا صحیح استعمال کرے پیسہ کمانے کے طریقہ پر مشورہ بھی دیں. اور عید پر کم امیر پڑوسی اور رشتہ داروں کے گھر بھی ہو آئیں.
ہم مسلمانوں میں حسن اخلاق معدوم ہو رہا ہے، اس کو پروان چڑھانے کی سخت ضرورت ہے.
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/