مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت مجاہد آزادی

*مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت مجاہد آزادی*

*أشرف شاكر ریاضی*

إن الحمد لله وحده والصلاة والسلام على سيدنا وحبيبنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين وبعد :

ہرسال ہم 15 اگست کو یوم آزادی اور 26 جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھونے عظیم قربانیاں دیکر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھا.

محترم قارئین کرام!

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ الله ہندوستان کی ان عبقری شخصیات میں ہیں جنہوں نے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا ہے، ان جیسا صاحب دماغ، ذہین، بالغ نظر قائد اور مفکر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، آئیے سب سے پہلے ان کی حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈال لیتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں :

مولانا کا اصل نام ” محی الدین احمد” تھا، والدکانام ” مولانا سید محمدخیرالدین ولد احمد ” اور والدہ کا نام عالیہ بنت محمد تھا، مولانا کے والد انہیں ” فیروز بخت” کے نام سے پکارتے تھے، لیکن آپ ” مولانا ابوالکلام آزاد” کے نام سے مشہور ہوئے۔

مولانا کی ولادت 11/نومبر 1888عیسوی کو دنیا کے سب سے مقدس مقام، بلدالامین” مکہ معظمہ” میں ہوئی، سات سال اس مقدس سرزمین پر رہنے کے بعد آپ اپنے والدین کے ساتھ کلکتہ آگئے، یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔ اللہ نے انہیں بلا کا حافظہ اور ذہانت سے سرفراز فرمایا تھا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی، ان کے والد ان کے استاد بھی تھے، اس کے بعد مختلف اصحاب علم و فن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، مولانا مطالعہ اور کتب بینی کے بہت شوقین تھے، انہیں اپنے گہرے مطالعے، سیروسیاحت اور کئی ممالک کے مختلف ماہرین سے تبادلۂ خیال اور گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا.
محترم قارئین کرام!
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔

قارئین ! یوں تو گلدستہ آزادی کو سجانے میں سینکڑوں مسلم لیڈران پیش پیش رہے، لیکن ان میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام مولانا آزاد رحمہ اللہ کا بھی ہے ، مولانا آزاد نے دینی ماحول میں پرورش پائی لیکن ان کی فطرت باغیانہ تھی جو غلامی کو کبھی قبول نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کا اسلوب و آہنگ ہے، وہ اسلوب و آہنگ جو زندانی ادب کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ’’الہلال‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی تو انھوں نے ’’البلاغ‘‘ کو پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا۔ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۵ء میں البلاغ جاری ہوا اور جب اس کے شعلوں کی لپٹیں حریت کا پیغام لے کر پھیلیں تو اس کی گرمی برٹش حکومت سے برداشت نہ ہو سکی اور چھ مہینے کے اندر ہی اسے بند کردیا۔ مولانا کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ جب وہ بولتے تھے تو ان کے الفاظ دماغ سے ہوتے ہوئے دل میں پیوست ہو جاتے تھے۔ ان کا اسلوب نگارش آتش فشاں کی مانند تھا، جب وہ پھٹتا تھا تو برطانوی سامراج کے ہوش ٹھکانے آجاتے تھے۔
محترم قارئین !

مولانانے ملک کی آزادی کی جد وجہد میں بہت اہم رول ادا کیا تھا ۔مولانا آزاد کا بنیادی مقصد ملک کو برطانوی حکومت سے آزاد دلانا تھا یہی وجہ ہے کہ ،۱۹۰۵ء سے ۱۹۲۰ء تک وہ برطانوی استعمار کی مخالفت کرنے والی اندرون ملک،بیرون ملک کی مختلف تحریکوں سے وابستہ رہے۔۱۹۰۶ء میں وہ ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے پہلے اجلاس میں شرکت کی لیکن لیگ کی برٹش راج سے وفاداری کی پالیسی ان کے نقطئہ نظر سے یکسر مخالفت تھی۔چنانچہ انہوں نے بنگال کے ایک تشدد پسند انقلابی گروہ میں شرکت اختیار کی۔اس انقلابی گروہ میں مولانا آزاد ایک ہی مسلمان تھے اس لئے دوسرے اراکین ان کی کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن مولانا کی عملی شرکت سے ممبئی اور شمال ہند کے کئی شہروں میں حفیہ انجمنوں کا قیام عمل میں آیا تو پھر ان پر پورا بھروسہ کیا جانے لگا.

جب ہندوستان بھر میں آزاد کی مقبولیت میں اضافے ہونے لگا تو ان پر ہر طرح کی بندش لگائی جانے لگی یہاں تک کہ کئی صوبوں کی حکومتوں نے اپنے پاس ان کو داخلے سے منع کردیا اور آخرکار آزاد کو رانچی کی ایک جیل میں قید کر لیا گیا جہاں وہ یکم جنوری ۱۹۲۰ء تک مقید رہے۔
پھر مولانا آزاد اپنی رہائی کے بعد دوبارہ سیاسی ماحول میں واپس ہوگئے اور اس بار برطانوی راج کے خلاف غصہ اور بغاوت کے احساسات سے پْر تھے۔ ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر کے جلیان والا باغ میں غیرمسلح ہندوستانیوں پر انگریزوں کی فائرنگ کے ذریعے ہلاکت پر سارے ہندوستان میں جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ہندوستان کی بڑی سیاسی پارٹی ’انڈین نیشنل کانگریس‘ گاندھی جی کی قیادت میں آئی، جنھوں نے سارے ہندوستان میں جوش و خروش پیدا کیا تھا جب انھوں نے چمپارن اور کھیڈا کے کسانوں کی قیادت کرتے ہوئے ۱۹۱۸ء میں برطانوی حکام کے خلاف کامیاب بغاوت کی تھی.

محترم قارئین کرام!

۱۹۲۳ء میں مولانا آزاد سب سے کم عمر صدر کانگریس منتخب کئے گئے۔ انھوں نے ناگپور میں فلیگ ستیہ گرہ کے اہتمام کی کوششوں کی قیادت کی۔ وہ ۱۹۲۴ء یونیٹی کانفرنس، دہلی کے صدر رہے۔ آزاد نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کرتے ہوئے گاندھی جی کے ویڑن، تعلیم اور سماجی اصلاحات کو فروغ دینے کیلئے سرگرمی سے کام کیا۔ جلد ہی آزاد شعبہ سیاست میں حوصلہ بخش شخصیت بن گئے۔ وہ اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا حصہ بنے اور کئی مرتبہ جنرل سکریٹری اور صدر کے عہدوں پر فائز رہے

1939ء میں وہ دوبارہ کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ جنگِ عظیم دوم کے پُرآشوب حالات میں تحریک ِآزادی کی قیادت کی۔ سبھاش چندر بوس کی انقلابیت ، نہرو کی اشتراکیت ،گاندھی کے آئیڈیلزم کے درمیان مولانا آزادکی وہ واحد شخصیت تھی جو اعتدال کی راہوں پر قائم اور اس کی داعی رہی۔ مولانا ایک وفاقی حکومت کے قیام کے خواہاں تھے جس میں دفاع، خارجہ پالیسی اور کمیونکشن کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوں۔ مولانا آزاد کی رائے کو اس وقت مان لیاجاتا تو تقسیم کے درد ناک سانحہ سے بچا جاسکتاتھا۔ آخر تک متحدہ ہندوستان کے لئے لڑتے رہے مگرزمانے نے زمانے سے آگے سوچنے والے اس قائد کی ایک نہ سنی ، تقسیم کا سانحہ پیش آگیا.

۱۹۴۲ء میں جب گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کا اعلان کیا۔ اس کی تائید میں آزاد ملک بھر میں ہزاروں لوگوں کو جمع کرکے ان کی ذہن سازی کرنے لگے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانیہ والوں نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھوں میں منتقل کرنے سے اتفاق کیا۔ تمام سیاسی قیدیوں کو ۱۹۴۶ء میں رہا کردیا گیا اور آزاد نے نئے دستورساز اسمبلی ہند کیلئے انتخابات میں کانگریس کی قیادت کی، جس نے ہندوستان کا دستور مدون کیا۔

محترم قارئین کرام :
مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار بھی تھے۔ یہی نہیں بلکہ کانگریس کے لئے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھنے والے یکتائے روز گار بھی تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک ملک و قوم کی خدمت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ قوم کے سچے سپوت ہیں۔ مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ”مولانا آزاد انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے۔“
عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع ۲۲/ فروری ۸۵۹۱ء کو گل ہوگئی اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔ ان کی اس خدمت کے لئے ہم انہیں اس شعر کے ساتھ یاد کرتے رہیں گے۔
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور بھی کچھ ہے.
٭٭
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں رنگ محفل ہوگیا.

اخیر میں دعاگو ہوں کہ بار الہی مولانا آزاد رحمہ اللہ کی تمام خدمات کو قبول فرما، اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے!!
آمین –
وآخر دعونا أن الحمد للہ رب العالمین.

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *