“ہندوستان کا نظام تعلیم ایک تجزیاتی مطالعہ” کے موضوع پر میرے ریسرچ پیپر چند ایام قبل کمپیوٹر کے فولڈر میں نظر سے گزرے ۔ اکیڈمک سال 2012-2013 کا یہ تحقیقی مضمون ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں لکھا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ تحقیق معروف ماہرین تعلیم و تربیت میں سے ایک ڈاکٹر محمد عمر فلاتہ- حفظہ اللہ- کی زیر سرپرستی انجام دیا گیا ۔ ہندوستانی مدارس اسلامیہ میں ماہرین تعلیم و تربیت اور اکیڈمک ریسرچ اسکالرز کا فقدان ہے ۔ مدارس میں یہ تصور تقریبا کم ہے کہ وہاں کے اساتذہ کرام تعلیمی ادارہ، طریقہ تدریس ، نفسیات ، نظام تعلیم و مراحل تعلیم، نصاب تعلیم اور امتحانات کے اکیڈمک طریقہ کار وغیرہ موضوعات پر عبور حاصل رکھتے ہوں ۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم تعلیم و تربیت کے مذکورہ موضوعات پر اسلام کا صحیح مفہوم بتانے سے قاصر رہے۔ اور وقت کے تعلیمی معیار اور انکی ضروریات کو مکمل کرنے سے بھی قاصر رہے۔ ہندوستان کے حالیہ ناگفتہ بہ حالات میں ذمہداران مدارس اسلامیہ کو کم از کم اس بات کا احساس ہو جانا چاہئے تھا کہ مادر وطن ہندوستان میں اسلام کی بقاء کے خاطر مدارس اسلامیہ کو وقت اور حالات کے حساب سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ضروری تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔ ماہرین تعلیم و تربیت کا تقرر اپنے اداروں میں یقینی بنائیں ۔ ماہرین تعلیم سے میری مراد ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے فارغین ریسرچ اسکالرز ہیں ۔ جنکو ملک و وطن کی مختلف مراحل کی تعلیمی پالیسی اور تربیتی سیاست کے ساتھ اسلامی تعلیم و تربیت کے اہداف و مقاصد اور فقہ الواقع کی صحیح سمجھ ہو۔ ہندوستان کے نظام تعلیم و مراحل تعلیم کا تجزیہ کریں تاکہ مدارس کے نظام تعلیم و مراحل تعلیم کے درمیان قدر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ یہ انتہائی ناگزیر اور وقت کی شدید ضرورت ہے۔ کم سے کم عرب ممالک کے نظام و مراحل تعلیم کے ساتھ ہی ہم آہنگی کرالیں تاکہ مدارس کا طالب علم اپنی عالمیت اور فضیلت کی اسانید کو معقول مراحل سے تعبیر کر سکے۔ شدید تضاد ہے کہ عالمیت کو 10th لیول کا درجہ دیا جائے یا 12th یا گریجویشن کا ۔ بعینہ فضیلت درجہ کا حال ہے ۔ ہر مدرسے کا اپنا الگ معیار اور انڈین یونیورسٹیوں میں انکا الگ درجہ ہے۔ ریاستی و مرکزی پیمانے پر منظور شدہ مدرسہ بورڈ اور لکھنؤ اور علی گڑھ یونیورسٹیوں کے عالم و فاضل ، ادیب وکامل کا نظام و مراحل ایک الگ تعارف پیش کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ ہم اپنے ہی وطن ہندوستان میں ہی ماہرین تعلیم اور حکومتی اداروں کو سمجھا پانے سے قاصر رہتے ہیں ۔ اسکا نتیجہ پوپی ریاست میں مدارس اسلامیہ کا سروے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ مدارس میں سب کچھ پڑھنے کے باوجود بھی ہم نصاب تعلیم بالخصوص ہندوستانی زبان و ادب اور ضروری سبجکٹ کے مراحل میں تضاد کر بیٹھتے ہیں۔ بعض مدارس میں اردو زبان وادب کو ایک سبجیکٹ کے طور نہیں پڑھایا جاتا ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ اردو کے ماہرین ہی کو حکومت اردو سے ناواقف تسلیم کر لیتی ہے۔ ایک کمیونیکیشن خلا ہے جسکو پورا کرنا مدارس کی حفاظت اور انکی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مذکورہ کتاب میں تعلیمی مسائل اور انکا معقول حل پیش کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ مدارس اسلامیہ کے سرپرستوں اور اعلی عہدیدار ان کو ضرور پڑھنا چاہئے اور چند دنوں بعد “ہندوستان کی جدید تعلیمی پالیسی ” کے موضوع پر میری کتاب جلد منظر عام پر ہوگی ۔ اس کا مطالعہ بھی انتہائی ناگزیر ہوگا تاکہ ہم اپنے مدارس کو ملک کے حالات و کوائف اور یہاں کے نظام تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل شریعت کی روشنی میں تیار کر سکیں۔ شکریہ
آپکا بھائی:
محمد مبارک عبد الستار مدنی
ویلفیئر آفیسر, ہریانہ وقف بورڈ،انبالہ
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/