مولانااز قلم :ابصار عالم آبشار سلفی –
+91 91176 38207
انگریز بہادر اور فرنگی سامراج نے 1885ء میں ہندوستانی بے زبان رعایا کو جب قسط وار آئینی اور شہری حقوق دیے، اپنے اور عوام کے رابطے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کو جنم دیا جو کچھ عرصہ بعد مکمل سیاسی جماعت بن گئی ملک کو آئینی راہ پر ڈالا کچھ کچھ شہری حقوق دیے اس جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن نے بالکل محدود اور بے دست و پا جمہوری حقوق سے عوام کو نوازا تو اس میں بھی انگریزوں نے غیر مسلموں بالخصوص ہندوؤں کو آگے آگے لانے کی کوشش کی، جب یہی انگریز کی خود کاشتہ جماعت سیاسی حقوق کی راہ پر نکل چکی اور ایک ایجی ٹیٹر جماعت کی شکل اختیار کر گئی اور بتدریج اس نے ہندوستان کی مکمل آزادی کی مساعی کا آغاز کردیا
تو مسلمان عبقری شخصیتیں بھی استخلاص ہند کے مایہ ناز سپوت، عبقری زماں اور اہلحدیث کےفرزند جلیل آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد پورے عزم و استقلال سے میدان سیاست میں اترے، اور انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملک کی آزادی کا مطالبہ پورے تسلسل سے جاری رکھا، البلاغ، الہلال، الجامع، اقدام، اور دیگر تصانیف جلیلہ کے ذریعے ملت اسلامیہ ہند میں صور بیداری پھونکا، غلامی سے بر سر پیکار غفلت و جمود کی نیند کے متوالے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا –
جس کا اعتراف مولانا محمود حسن مدنی دیوبندی رحمہ اللہ کو ان الفاظ میں ادا کرنا پڑا “ہم سوئے ہوئے تھے، اس سترہ سالہ نوجوان نے ہمیں بیدار کیا اور صحیح راستہ پر گامزن کیا –
مولانا آزاد کے قلم نے تلوار کی کاٹ کا کام کیا، یہ وہ زمانہ تھا کہ انگریز کی سلطنت کے وسعت کا عالم یہ تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور انگریز سے آزادی کے مطالبہ کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں، وحشیانہ عقوبت خانے تھے، قید و بند کی تنگ و تاریک کوٹھریاں تھیں، آزادی کے نعرے کا معنی ہلاکت و بربادی اور فنا کو آواز دینا تھا فرنگی وحشت و بربریت اور جور و ستم کی دہشت سے بڑے بڑوں کے قدم اکھڑ جایا کرتے تھے، لیکن یہ ابو الکلام آزاد کی نابغیت تھی کہ سود و زیاں سے بالا ہوکر میدان وغا میں اتری اور آہنی چٹان بن کر فرنگی سلطنت سے ٹکراتی رہی یہ ابو الکلام کا ہی حوصلہ تھا جس نے انگریز بہادر کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر کہا تھا
“اے مجمع حوش کلاب، تم رہزن، ڈاکو اور اچکے ہو، میرے گھر پہ قابض ہو چکے ہو، میں تمہیں کیسے عدالت تسلیم کرلوں، میں نے آزادی کی آگ سلگائی ہے اسے بجھنے نہیں دوں گا، مقدور بھر افروزاں رکھوں گا، تمہاری سرکاری زبان میں مجھے باغی کہا جاسکتا ہے، میں تمہارا باغی ہوں تمہارے خلاف بغاوت کی آگ کو کبھی ٹھنڈا نہیں ہونے دوں گا – فاقض ماانت قاض – جوچاہو کرو -؛؛
اور جج سے مخاطب ہوکر کہا تھا مسٹر جج خیر و شر، نیکی و بدی، جھوٹ اور سچ، غلط اور صحیح، اچھائی اور برائی کی جنگ ازل سے شروع ہے، ابد تک رہے گی، تاریخ ہمیشہ خطرناک موڑ مڑتی رہی ہے، یہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس کٹہرے تک پہنچی ہے، مؤرخ کا قلم میرے اور آپ کے انتظار میں ہے، آؤ ہم مل کر اس تاریخ کا زریں مواد مہیا کریں، تم ظالمانہ فیصلے کرتے جاؤ، میں مظلومانہ کرب برداشت کرتے جاؤں، میرا اور آپ کا کردار تاریخ کی تکمیل کا باعث ہوگا، آزادی میرا فطری حق ہے میں کبھی اس سے دست بردار اور دامن کش نہیں ہوسکتا، نہ کوئی دنیا کی طاقت میرے آزادی کے حق کو مجھ سے چھین سکتی ہے، جب تک میرے جسم میں ایک سانس بھی باقی ہے میں آزادی زندہ آباد کا نعرہ لگا تا رہوں گا –
یہی وہ ابوالکلام آزاد کی جرأت، شجاعت، اور قلم کی جولانیاں تھیں جس نے مسلمانوں کے ذہنوں سے انگریزوں کا خوف و ہراس نکال دیا، مسلم نوجوانوں میں آزادی کی لگن پیدا کی، ان کے جذبات کو آتش فشاں کیا، ابوالکلام آزاد وہ پہلا نابغہ عصر مسلم قائد ہے جس کی تقریروں اور تحریروں سے ملت اسلامیہ نے انگڑائی لی، ابوالکلام بارش کا پہلا قطرہ بن کر سیاسیات کے میدان میں ٹپکا، ان کا دیکھا دیکھی بہت سی مسلم شخصیتیں ان کے شانہ بہ شانہ میدان سیاست میں گامزن ہو گئیں –
ابوالکلام وہ تاریخ ساز اور عہد آفرین شخصیت ہے جس نے اپنے شباب کا بہترین زمانہ انگریز کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے میں صرف کیا یہ بھی ہمارے فخر و مباہات کے لیے کافی ہے کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام کو خلفشار و انتشار، تضاد و اختلافات، بدنظمی اور باہمی سر پھٹوّل سے بچانے کے لیے، ان میں نظم و نسق پیدا کرنے کے لیے انھیں ایک جماعت کیا جائے اور طرح ان کو مربوط اور منظم کر دیا جائے کہ یہ باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ایک مرکز سے وابستہ کرکے ایثار و فداکاری کے لیے تیار کیا جائے چنانچہ اسی مقصد کے لیے 1920ء میں لاہور میں ہندوستان کے اجلاّ علماء کرام کا اجلاس ہوا جس میں اہل حدیث کے فرزند جلیل مولانا ابو الکلام آزاد کو بالاتفاق امام و پیشوا تسلیم کیا گیا اور ان کی قیادت و سیاست کو قبول کیا گیا اسی روز سے مولانا ابو الکلام آزاد کو امام الہند کے نام نامی، اسم گرامی سے پکارا جانے لگا –
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/