*مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی : کچھ یادیں، کچھ باتیں*

سمیرا افضل پور، مظفر پور، بہار
رابطہ نمبر: 9199009243
موت دنیا کی سب سے بڑی سچائی اور حقیقت ہے، اس سے کسی کو انکار بھی نہیں۔ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر، حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی موت کو یقینی مانتا ہے، اس پر شک وشبہ بھی نہیں کرتا، کیونکہ ہر کوئی اس کے سامنے عاجز وبے بس ہے۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جوبچہ بھی دنیا میں آتا ہے وہ ایک نہ ایک دن اپنی عمر طبعی گزار کر جام ممات نوش کرتا ہی ہے۔ حیات اور ممات کا یہ سلسلہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے ہی جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا، البتہ بعض لوگوں کو ان کی موت کے بعد بھی بھلا پانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ان کی حیات، خدمات، ان کے ساتھ گزارے اوقات و لمحات، گفت وشنید اور ان سے وابستہ تلخ و شیریں یادیں برسوں یاد آتی رہتی ہیں۔ معروف خطیب ، داعی ، مبلغ ، مصلح، علم دوست ، میرے رفیق و سمدھی مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی بھی انہی شخصیات میں سے تھے، جنہیں بھلا پانا میرے لیے ناممکن ہے۔ ویسے ان سے تو بہت سای یادیں اور باتیں وابستہ ہیں، ظاہر سی بات ہے ان تمام کا احاطہ اس مختصر مضمون میں نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ چند باتیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
جولائی 2023 کی 07 تاریخ تھی۔ جمعہ کا دن تھا۔ شب کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ میں نے مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی ( ساکن پرسا، وایا پریہار، ضلع سیتامڑھی، بہار ) کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اپنے داماد ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی کو فون کیا۔ انہوں نے روتے ہوئے بھرائی آواز میں جواب دیا کہ ابو نہیں رہے۔ ابھی ابھی ایمس پٹنہ میں ان کا دوران علاج انتقال ہو گیا ہے۔ یہ جانکاہ خبر ملتے ہی میں غم کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ” انا للہ وانا الیہ راجعون ” پڑھا، مغفرت کے لیے دعائیہ الفاظ زبان پر آئے، سراج اللہ بابو کو میں نے تسلی اور صبر کی تلقین کی۔ جب اپنے گھر میں اہلیہ اور بچوں کو یہ اندوہناک خبر بتائی تو سبھی پریشان ہوگئے۔ ادھر رات میں ہی سراج اللہ بابو ، ان کے بھائی اور بہن و دیگر رشتہ دار بھائی محمد حشمت اللہ چترویدی کی لاش کو ایمس پٹنہ سے بذریعہ ایمبولینس لےکر اپنے آبائی وطن پرسا، پریہار، ضلع سیتامڑھی کے لیے روانہ ہوگئے۔ مورخہ 08 جولائی 2023 ، سنیچر کو صبح میں میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سمیرا افضل پور، ضلع مظفر پور سے نکلا اور تقریباً گیارہ بجے پرسا پہنچ گیا۔ وہاں دیکھا تعزیت کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ صلاح و مشورے کے بعد نماز جنازہ کا وقت 2 بجے دن کا طے کیا گیا۔ تاکہ گاؤں کی تمام مساجد کے مصلیان نماز ظہر کی ادائیگی سے فارغ ہوجائیں اور جنازہ میں شرکت بھی کرسکیں۔ وقت مقررہ پر حشمت اللہ بھائی کی لاش پرسا گاؤں میں واقع قبرستان سے متصل جنازہ گاہ میں لےجائی گئی، جہاں ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی نے نماز پڑھائی۔ جنازہ میں لوگوں کا جم غفیر تھا۔ پرسا اور مضافات کے لوگوں نے تو بڑی تعداد میں شرکت کی ہی تھی ، دور دراز اور دوسرے اضلاع سے بھی بہت سارے ان کے محبین و منسلکین نے شرکت کی اور ان کے اہل خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا۔ ہم سب نے بھائی محمد حشمت اللہ چترویدی کی لاش کو نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ اَللّٰهُـمَّ اغۡفِـرۡ لَهُ وَارۡحَمۡـهُ وَعَافِهِ وَاعۡفُ عَنۡـهُ وَأَكۡـرِمۡ نُزُلَـهُ وَوَسِّـعۡ مُدۡخَـلَهُ وَاغۡسِلۡـهُ بِالۡمَاءِ وَالثَّـلۡجِ وَالۡبَـرَدِ وَنَقِّـهِ مِنَ الۡخَطَايَا كَمَا نَـقَّيۡتَ الثَّوۡبَ الۡأَبۡيَـضَ مِنَ الدَّنَـسِ وَأَبۡـدِلۡهُ دَارًا خَـيۡرًا مِنۡ دَارِهِ وَأَهۡلًا خَـيۡرًا مِنۡ أَهۡلِـهِ وَزَوۡجًا خَـيۡرًا مِنۡ زَوۡجِهِ وَأَدۡخِلۡهُ الۡجَنَّةَ وَأَعِـذۡهُ مِنۡ عَذَابِ الۡقَبۡرِ وَعَذَابِ النَّارِ۔
میرے بھائی و سمدھی مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی رحمہ اللہ نہایت منکسرالمزاج ، ملنسار، خلیق اور نرم دل انسان تھے۔ مہمان نوازی ان کی صفت خاصہ تھی۔ گفتگو کے دوران انداز عجز کی جھلک نمایاں رہتی تھی۔ جہاں تک میری یاداشت میرا ساتھ دے رہی ہے، اس کے مطابق 1977 کے آس پاس حشمت اللہ بھائی کے خسر محترم مولانا محمد ادریس سلفی پرساوی رحمہ اللہ نے مجھے ایک دینی و اصلاحی جلسہ میں بحیثیت مقرر مدعو کیا تھا۔ اسی موقع پر میری پہلی ملاقات ان سے ہوئی تھی۔ جلسہ میں میری تقریر کا موضوع ” توحید و رسالت کتب ہنود میں ” تھا، جس سے وہ بہت متأثر ہوئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کی اس تقریر سے متأثر ہوکر میں نے بھی ویدوں اور پرانوں کا مطالعہ شروع کیا۔ یہاں تک کہ ویدوں اور پرانوں میں بڑی مہارت حاصل کرلی۔ میری کتاب ” انتم اوتار ” ( ہندی) سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا تھا ، جس کا برملا وہ اعتراف کیا کرتے تھے۔ اس کے خود بھی خطابت کے میدان میں آگئے اور اس طرح ان کی ہردلعزیزی مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی کی شناخت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ موصوف نے کسی مدرسہ یا دینی درسگاہ سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔عصری علوم کے اعتبار سے علم الحساب یعنی میتھ میں ایم ایس سی تھے اور اس کی بنیاد پپر ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر کی حیثیت سے بحال ہوئے اور ہیڈ ماسٹر کے عہدے سے 2015 میں سبکدوش ہوئے۔
مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی ایک اچھے داعئ دین اور علم دوست انسان تھے۔ ان کی نگاہ تحقیقی تھی۔ انہیں مطالعات کتب کا بےحد شوق و ذوق تھا ۔ کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ ویدوں، پرانوں اور کتب ادیان و ملل کا وسیع و عمیق مطالعہ تھا۔ ان کے پاس کتب احادیث ، کتب سیر، کتب فقہ، کتب تواریخ اور کتب ادیان و ملل کا اچھا ذخیرہ موجود تھا۔ ان کا کمرہ لائبریری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اکثر و بیشتر دینی امور میں، بالخصوص غیر مسلموں کے درمیان دعوت کے ضمن میں مجھ سے تبادلہ خیالات اور باہم مشورے کرتے رہتے تھے ۔
مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی کی پیدائش ریاست بہار کے ضلع سیتامڑھی کے بلاک ” پریہار ” اور تھانہ ” بیلا ” کی علمی و مردم خیز بستی ” پرسا ” میں میری طرح ہی ایک بریلوی گھرانے میں ہوئی تھی۔ بعد میں مولانا محمد ادریس سلفی پرساوی رحمہ اللہ کے یہاں ان کی شادی ہوئی تو ان کی دعوت اور صحبت کے اثر سے اہل حدیث ہوئے اور شرک و بدعت کے زبردست مخالف ہوگئے۔ دینی ، دعوتی، تبلیغی و اصلاحی جلسوں اور کانفرنسوں میں شرک و بدعت کے خلاف بڑی بے باکی سے خطاب کرتے تھے۔ میرے ہم خیال، ہم عصر داعی اور دینی بھائی کے ساتھ ساتھ میرے سمدھی بھی بن گئے تھے۔ غالباً 1991 – 1990 کی بات ہے۔ ہم دونوں ایک ساتھ مغربی چمپارن کے کسی دینی اجلاس سے لوٹتے ہوئے مدرسہ احمدیہ سلفیہ، بیرگینا گئے، جہاں ان کے فرزند ارجمند اور میرے داماد ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی شعبہ حفظ میں زیر تعلیم تھے۔ دراصل ان سے مل کر ان کی خیریت دریافت کرنی تھی۔ وہاں مدرسہ کے سکریٹری مولانا محمد داؤد سلفی اور ان دنوں وہاں بحیثیت استاد خدمات انجام دے رہے مولانا محمد اشفاق سلفی و دیگر اساتذہ کرام سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سب نے ہماری اچھی ضیافت کی۔ پھر ہم دونوں وہاں سے بذریعہ ٹرین سیتامڑھی جارہے تھے تو اسی دوران حشمت اللہ بھائی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کے یہاں ایک رشتہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کیسا رشتہ؟ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ جب سراج اللہ کی تعلیم مکمل ہوجائے گی تو اس کا نکاح آپ کی صاحبزادی عابدہ طلعت جبیں کے ساتھ کیا جائے گا۔ ان دنوں رشتہ کو لے کر کسی طرح کی کوئی بھی بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔ تاہم میں نے بلا توقف و بلا تامل مثبت میں جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ کوئی کوئی حرج نہیں۔ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا، مگر نکاح بالکل مسنون طریقہ سے ہوگا۔ حسن اتفاق وہ بھی اس شرط پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے کئی برسوں بعد بتایا کہ مقامی جمیعت اہلِ حدیث کے زیراہتمام مدرسہ ضیاء العلوم السلفیہ، پرسا میں ایک دینی، تبلیغی و دعوتی جلسہ کا انعقاد 24/ اپریل/ 1998 کو منعقد ہونے جارہا ہے جس میں مولانا خورشید عالم مدنی، دوستیا، مولانا عزیزالرب فیضی بھوارہ مدھوبنی، مولانا جرجیس انصاری اور آپ ( مولانا محمد مطیع الرحمن چترویدی) کو بحیثیت مقرر مدعو کیا جائے گا۔انہوں نے لگے ہاتھوں مشورہ دیا کہ کیوں نہ اسی جلسہ میں نکاح کردیا جائے۔ میں نے بھی مثبت میں جواب دیا اور مقررہ تاریخ پر حشمت اللہ بھائی کے گاؤں ” پرسا ” جاپہنچا۔ جلسہ مدرسہ ضیاء العلوم کے احاطہ میں منعقد ہوا تھا، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اسی جلسہ میں مولانا محمد خورشید عالم مدنی حفظہ اللہ نے نکاح پڑھایا۔ پھر ڈیڑھ پونے دوبرس کے بعد حشمت اللہ بھائی رحمہ اللہ نے رخصتی کی بات کہی۔ میں نے کہا کہ آپ کی مرضی، جب چاہیں خوشی سے اپنی بہو کو اپنے یہاں لے جاسکتے ہیں۔ لہذا 20 / اپریل / 2000ء کو وہ چار یا پانچ افراد کے ساتھ ایک گاڑی سے میرے گھر پر تشریف لائے، ظہرانہ کیا اور دو ڈھائی گھنٹے توقف کے بعد ہی میری بیٹی کی رخصتی ہو گئی مسنون طریقے سےمثالی شادی ہوئی ۔ تلک ، جہیز یا دیگر کسی بھی طرح کا رسم ورواج انجام نہیں دیا گیا۔ میری پانچ بیٹیاں ہیں، ان سبھی کی اسی طرح بغیر تلک ، جہیز اور تمام طرح کے رسم ورواج سے پاک، بالکل مسنون شادیاں ہوئی ہیں ۔ الحمدللہ ! میں نے اپنے چار بیٹوں کی بھی شادیاں کی ہیں اور سنت کے عین مطابق کی ہیں۔ بیٹی یا بیٹا کسی کی بھی شادی میں ایک معمولی سوئی بھی نہ لی ہے اور نا ہی دی ہے۔ اس طرح کی مثالی اور مسنون شادیاں ہمارے تمام مسلمان بھائی بھی کرنے لگیں تو مجھے صد فیصد یقین ہے کہ آج جہیز جو معاشرے میں ناسور کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے گا اور بیٹیاں جلنے، خودکشی کرنے ، نذر آتش ہونے، غیر محروموں یا غیر مسلموں کے ساتھ بھاگنے اور مرتد ہونے سے بچ جائیں گی۔
مولانا محمد حشمت اللہ چترویدی سے میرے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ سمدھی بننے سے بہت قبل سے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کو نہ صرف جانتے تھے، بلکہ ایک دوسرے سے بڑی عقیدت و محبت بھی رکھتے تھے۔ اکثر اصلاحی جلسوں اور کانفرنسوں میں ہم دونوں کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ان سے میری آخری ملاقات مدرسہ محمدیہ سلفیہ، ماڑی پور، مظفر پور کے جلسۂ دستاربندی کے موقع پر 20 مئی,2023 کو ہوئی تھی، جس میں انکی اور ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی سلمه کی بھی تقاریر ہوئی تھیں۔ موصوف نے اپنی صحت کے بارے میں بتایا کہ مجھے ہارنیا کی شکایت ہے۔میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ہی مظفرپور میں کسی ڈاکٹر کے یہاں چیک اپ کر والوں، چنانچہ ہم لوگوں نے ڈاکٹر محمود الحسن، ماڑی پور سے رابطے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کرنا ہوگا، چنانچہ انکا آپریشن ہوا اور دو دنوں کے بعد گھر (پرسا) لوٹ گئے۔ میں اکثر فون سے انکی طبیعت اور خیریت سے متعلق ان سے رابطے میں تھا۔ دفعۃ 6 ، جولائی، 2023 کو خبر موصول ہوئی کہ وہ سیتامڑھی کے ایک پرائیوٹ ہاسپیٹل میں ایڈمٹ ہیں۔ انہیں الٹی ہوئی ہے اور اس میں خون کی مقدار زیادہ ہے۔ تھوڑی دیر بعد خبر ملی کہ ڈاکٹر نے انہیں پٹنہ کے لیے ریفر کر دیا۔ دیر رات میں ہی ان کے بیٹے محمد منہاج اللہ، محمد مصباح اللہ اور محمد صبغت اللہ انہیں سیتامڑھی ہاسپیٹل سے پٹنہ لے گئے، جہاں قبل سے ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ تقریباً چار بجے صبح میں وہ لوگ پٹنہ پہنچے اور ایمس میں داخل کرایا ، جہاں دن بھر ایمرجنسی وارڈ میں علاج ہوا۔ دوران علاج ہی بتاریخ 2023- 07-07 کو جمعہ کے دن تقریباً ساڑھے نو بجے رات میں بھائی محمد حشمت اللہ چترویدی نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی موت پر مجھے تو سخت صدمہ پہنچا ہے، دعوت و تبلیغ اور خطابت کی دنیا سے وابستہ تمام لوگوں کو بھی بہت افسوس ہوا۔ جماعت اہل حدیث اور دیگر مسالک کے لوگوں نے بھی اظہار افسوس کیا۔ بقول شاعر:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
یقیناً بھائی محمد حشمت اللہ چترویدی کا سانحہ ارتحال نہ صرف جماعت اہل حدیث کا ، بلکہ مسلم قوم و ملت کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے۔ چونکہ وہ ویدوں اور پرانوں کی روشنی میں غیر مسلموں کے درمیان بھی دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کے ذریعہ کئی غیر مسلموں کو ہدایت دی اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ان کی کتاب ” ویدوں ایوم پرانوں کے مہائیش دوت ” بھی کئی غیر مسلموں کی ہدایت کا سبب بنی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا بھی نقصان ہوا ہے۔ بہر حال ! ہم لوگ کتاب و سنت اور ادیان و فرق کے ماہر اور بے باک و مخلص داعئ دین سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے ، انکی قبر کو تا حد نگاہ کشادہ کر دے، انکی مغفرت فرمائے ، انکے درجات کو بلند کرے ، انکی نیکیوں کو شرف مقبولیت بخشے اور معصیتوں کو درگزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ، عزیزی ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی سلمہ سمیت تمام پسماندگان اور اہل و عیال کو صبر جمیل کی بخشے ، آمین !
ع : خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔*
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/
loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں