وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے

*وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے*
امان اللہ ذوالفقار احمد نوری
( متعلم جامعہ تبوک سعودی عرب)

ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک انسانیت کی تاریخ میں جس شخصیت نے اپنی رحمت و رافت، شفقت و مہربانی، عفو و کرم اور در گزر اور ہمدردی و غم گساری سے پورے عالم کو سب سے زیادہ متاثر کیا. وہ ہستی نبی آخر الزماں رحمۃ للعالمین سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے.
دنیائے انسانیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر رحم و کرم اور عفو و درگزر کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان عظیم الشان اوصاف و کمالات کی عکاسی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا :وَمَا أَرْ‌سَلْنَاكَ إِلَّا رَ‌حْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء: 107)
یعنی ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا.
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(التوبہ :۱۲۸)
ترجمہ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے؛ جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اللہ رب العالمین کی طرف سے ملنے والے ان تمغہائے امتیاز کا اثر یہ ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ رحمت کی جلوہ گری نظر آتی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و مہربانی کی چھاپ حیات مبارکہ کے ہر شعبے پر نما یاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے.
یوں تو آپ جامع الکلمات اور مجمع الاوصاف ہیں. اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا؛ لیکن ان تمام اوصاف کے مابین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت رحمت ایک ممتاز مقام رکھتی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرے کے لیے ؛ شجر و حجر کے لیے؛ بحر و بر کے لیے ، نباتات و جمادات کے لیے ؛ یعنی کائنات کے ہر شئے کے لیے. آپ کی رحمت کا فیض ہر شخص تک پہنچا اور کائنات کی ہر چیز آپ کی رحمت سے مستفیض ہوئی. اور تاہنوز ہورہی ہے. دوست تو دوست آپ کے دشمن؛ بلکہ آپ کے خون کے پیاسے بھی آپ کے فیضان رحمت سے محروم نہیں رہے.
اس سلسلہ کے کچھ خاص اور نمایاں واقعات کتب حدیث اور مستند تاریخوں کے حوالے سے قلم بند کیے جارہے ہیں.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بد دعا کر دیجیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، 2599)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے؛ عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا ۔‘‘(بیہقی، شعب الإيمان، 2 /144)
*کفار و مشرکین اور جانی دشمن پر آپ ﷺ کا رحم وکرم*
فتح مکہ کے موقعہ پر آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اس طور پر عفو و کرم کا معاملہ فرمایا کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے. آپ نے اس موقع پر ایسے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا، جنہوں نے بیسیوں مسلمانوں کو قتل کیا تھا یا کروایا تھا. جنھوں نے سینکڑوں فرزندان توحید کو اذیت دے دے کر گھربار سے نکالا تھا. جنہوں نے دین اسلام کو تباہ کرنے اور مسلمانوں کو برباد کرنے کیلئے حبشہ، شام، نجد اور یمن تک کے سفر کیے تھے؛ جنہوں نے بارہا مدینہ منورہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو بے چینی میں مبتلا کیا تھا. یعنی وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کو فنا کرنے میں زر سے، مال سے، زور سے، تدبیر سے، ہتھیار سے، تیر وتبر اور تیغ و تفنگ سے اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی. ان سب کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد: “لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا انتم الطلقاء” کہ آج تم میں سے کسی کو اس کے کیے کی سزا نہیں ملے گی. جاؤ تم سب آزاد ہو، کے ذریعے سب کو یک بارگی معاف فرمادیا.
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (فتح مکہ کے احوال بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا: آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ کی حرمت بھی حلال ہوجائے گی۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے۔ آج تو اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا فرمائے گا۔ اور آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا. اور اس کی حرمت میں اضافہ ہوگا ۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے، اللہ تعالیٰ آج قریش کو عزت سے نوازے گا۔‘‘(بخاری، کتاب المغازی)
*دشمنوں پر آپ ﷺ کی رحمت*
مکہ میں ایک دفعہ شدید قحط پڑ گیا اور وہاں کے لوگ غذا اور غلہ کی قلت کے باعث شدید تکلیف کا شکار ہو گئے ۔ خصوصاً غرباء کا تو برا حال تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے سخت دشمن تھے اور جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو شدید تکالیف میں مبتلا کر رکھا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں کو اس تکلیف میں دیکھ کر بےچین ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے بارانِ رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور اپنے صحابی حضرت ثمامہ بن اثال کے ذریعے غلہ بھجوانے کا انتظام فرماتے ہیں. (اسد الغابۃ :1/295)
دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
آپ کے رحم و کرم سے نہ صرف یہ کہ اپنے متعلقین، متبعین اور دوست و احباب مستفیض ہوئے؛ بلکہ آپ نے اپنے خون کے پیاسوں اور اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی رحم وکرم کا برتاؤ کیا.
آپ کی پوری زندگی اس بات پر شاہد عدل ہے؛ کہ آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا. جنگ بدر میں عظیم الشان فتح کے بعد دشمن کی صف سے (70)ستر افراد گرفتار ہوئے، یہ سارے دشمنانِ خدا پکڑ کرلائے گئے. اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیے گئے. یہ سب کے سب کفر کے سرغنہ اور بد معاشوں کے سردار تھے. آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بدلہ لے سکتے تھے؛ لیکن ان سے بدلہ لینے کے بجائے آپ نے ان کے ساتھ بهترین سلوک فرمایا اور بالآخر ان سب کو رہا فرما دیا.:
“سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی.!
*منافقین کے ساتھ نبی ﷺ کی رحمت ورافت*
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سردار تھا۔ بظاہر تو یہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اس کا دل ایمان کی دولت سے خالی تھا۔ یہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سخت کینہ اور بغض رکھتا تھا۔ جہاں بھی اسے موقع ملتا یہ اسلام اور آنحضرت ﷺ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتااوراپنے قول و فعل سے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا۔ اس کی فتنہ انگیزی سےسب مسلمان واقف تھے۔ رحمت عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اس کی گستاخیوں اور شوخیوں کو کمال صبر سے برداشت کیا اور ہمیشہ ہی صرف نظر فرماتے رہے۔
ایک جنگ کے موقعہ پر تو اس کی گستاخی نے بد ترین شکل اختیار کر لی. اس نے اپنے بارے میں یہ باور کرانا چاہاکہ وہ مدینہ کا معزز ترین شخص ہے اور نبی کریم ﷺ کو نعوذ باللہ مدینہ کا ذلیل ترین شخص قرار دیا اور اس نے اس ناپاک ادارے کا اظہار کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا ہے:
یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ۔(المنافقون: 9)
اس کی اس گستاخانہ حرکت نے صحابہ کے دلوں کو زخمی کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس گستاخ رسول کو اس کی گستاخی کی سزا ملنی چاہیے۔ بعض ان میں سے اس کے قتل کا ارادہ کرنے لگے. یہاں تک کہ اس رئيس المنافقین کے لڑکے عبداللہ جو مخلص صاحب ایمان تھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کو اس گستاخی پر قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ لیکن قربان جائیں اس رحمت مجسم پر کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ ابن سلول کو سزا دینے کی اجازت نہیں دی بلکہ بدستور اس کے ساتھ رحمت، شفقت اور احسان کا سلوک فرماتے رہے۔ جب وہ فوت ہوا تو آپؐ نے اپنی قمیص اس کے کفن کے لیے عنایت فرمائی اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ (صحیح مسلم. حدیث نمبر 2774)
*زہر کھلانے والی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا رحم و کرم*
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو بھی زندگی کا آبِ حیات پیش کیا؛ جنہوں نے آپکی زندگی کے خاتمہ کے لیے زہر کھلانے کی کوشش کی تھی. چنا نچہ یہودی سردار سلام ابن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ کی زندگی کے خاتمہ کے لئے زہر ملا کر بھنی ہوئی بکری کے گوشت کا ہدیہ آپ کی خدمت میں بھیجا. اس نے معلوم کررکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونسا عضو پسند کرتے ہیں. اُسے بتایا گیا تھا کہ آں حضرت دستہ پسند فرماتے ہیں اس لیے اس نے دستہ میں خوب زہر ملا دیا تھا. پھر اُسے لے کر وہ رسول اللہ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں پیش کیا. تو آپ نے دستہ اٹھا کر ایک ٹکڑا چبایا؛ لیکن نگلنے کے بجائے فورا تھوک دیا. پھر فرمایا کہ یہ ہڈی مجھے بتا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے. اس کے بعد آپ نے زینب کو طلب فرمایا. اس خاتون نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا. وجہ یہ بتائی کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی اور اگر نبی ہیں، تو غیب سے خبر دے دی جائے گی. اس پر آپ نے اسے اپنی ذات کی حد تک معاف فرمادیا (سنن أبي داود: 4508)
*جانوروں پر آپ ﷺ کی رحمت و شفقت*
آپ کی رحمت کا فیض انسان تو انسان؛ بے زبان جانوروں تک بھی پہنچا؛ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک اونٹنی آپ کو دیکھ کر رونے اور بلکنے لگی. آپ نے رحمت و شفقت سے اس کے پشت پر ہاتھ پھیرا؛ تو وہ چپ ہو گئی اور اُس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مالک کی شکایت کی.(بطور معجزہ) آپ اس کی شکایت کو سمجھ گئےاور آپ نے اس کے مالک کو بلا کر چارہ وغیرہ کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی. صحابہ کرام یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے (مشکوٰۃ المصابیح ص :540)
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے. جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘( أبو داود: 2549)
*نبی کریم ﷺ عورتوں كے لئے رحمت*
عورتوں كے لئے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى رحمت وشفقت كا اندازه سيده عائشہ رضى اللہ عنہا سے مروى حديث مباركہ سے لگايا جا سكتا ہے كہ آپ صلى اللہ نے فرمايا “خيركم خيركم لأهله وانا خيركم لأهلي”( تم ميں سب سے اچها وه ہے جس كا اپنى بيوى سے سلوك اچها ہے اور اپنے اہل وعيال كے ساتھ حسن سلوك كے معاملے ميں تم سب سے اچها ميں ہوں)
رسول اللهؐ فرماتے ہيں كہ: “شوہر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے گا اس کا بھی اجر وثواب اس کو ملے گا۔ عورتوں كے ساتھ اچها سلوك كرنے، ان كا احترام كرنے، اور ان كى قدر كرنے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تاكيد كى  ہے ، چونكہ اكثر خواتين قدرتى اور طبعى طور پر حساس، نرم دل، اور جلد باز پيدا كى گئى ہيں اس لئے نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے ان كى كجى اور بے حوصلگى پر مردوں كو صبر كرنے اور ان سے اچها سلوك كرنے كى تلقين فرمائى.
*بچوں پر آپ ﷺ کی رحمت و شفقت*
آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کی محبت و شفقت صرف بڑوں اور نوجوانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کا مبارک وجود معصوم اور چھوٹے بچوں کے لیے بھی سراپا رحمت و شفقت تھا۔ حضرت محمد صلى اللہ عليہ بچوں سے بہت پيار كرتے تهے جب آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے بھی آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ لڑکیاں آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے آنے کی خوشی میں گیت گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے ان بچیوں سے پوچھا: ’’تم مجھ سے محبت کرتی ہو‘‘؟ انھوں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا ’’میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں‘‘
اس مختصر  مضمون میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کا احاطہ بہت مشکل ہے، چنانچہ چند ایک پہلو ہی پیش كئے گئے ہیں- جب ہم اپنے قول وفعل سے اپنے نبى کریم صلی اللہ علیہ وسلم كى پيروى كريں گيں، اس نبى كى جس نے اذيت كے بدلے ميں اپنےدشمنوں سے نيك سلوك كيا، جس نے تمام مخلوقات كے ساتھ اچها سلوك كرنے كا حكم ديا، جو تمام دنيا كے لئے رحمت ہيں، پس ہم مسلمانوں سے يہى تقاضا ہے كہ ہم اس عظيم نمونہ كى پيروى كريں ، اللہ احکم الحاکمین نے امام الانبیاءحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو پوری انسانیت کیلئے اسوہ حسنہ قرار دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : لقد کان لکم في رسول الله اسوۃ حسنة” (الاحزاب : 21) یقینا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس بہترین نمونہ ہے” نبی اکرم ﷺ رحمت بناکر بھیجے گئے،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *