حیا انسان کا اخلاقی زیور ہے ۔

حیا انسان کا اخلاقی زیورہے ۔
ازقلم ۔ محمد محب اللہ بن محمد سیف الدین المحمدی ،
حیا کہتے ہیں ” الحياء انقباض النفس عن القبيح “حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔ یا حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتی ہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ” خُلق يبعث صاحبه على اجتناب القبيح ويمنع من التقصير في حق ذي الحق” [فتح الباري:1/ 68) حیا وہ اخلاقی صفت جس کی رُو سے انسان قبیح افعال سے اجتناب کرتا ہے اور صاحب حق کو اس کا حق دلانے کی سعی کرتا ہے یا صاحب حق کو اس کا حق دینے میں کوئی تقصیر وکمی نہیں کرتا ،
محترم قارئین ۔ حیاء دراصل انسان کا اعلی اخلاقی جوہر ہے ، حیاء کنٹرول پاؤر ہے ، حیاء نکیل وخطام ہے ۔ جب گناہ کیلئے انسان کا نفس مچلتا ہے ،جذبات اور امنگیں مشتعل ہوتی ہیں تو حیاء بریک کاکام کرتی ہے ، حیاء انسان اور معصیت کے درمیان حاجز ہے ، اگر حیاء کا پردہ چاک کردیاگیا تو صرف فساد ہی فساد نظر آۓ گا ۔ حیاء وہ اخلاقی وصف ہے جو انسان کو غلط باتوں قبیح حرکتوں اور مذموم کاموں سے روکتا ہے ۔ اس کا اظہار زندگی کے مختلف معاملات وسلوكيات میں ہوتا ہے ۔ باحیا شخص اپنی زبان پر کوئی گندی بات ،غیر مہذب ، ناشائستہ اور فحش كلام نہیں لاتا ۔ اس کا لباس،پوشاک ،پہننے اوڑھنے کا انداز اس کی شخصیت کی وقار ومتانت اور سنجیدگی کی گواہی دیتا ہے ۔ وہ بے پردگی و ننگاپن كو متعفن سمجھتا ہے اور اس سے شدید متنفر رہتا ہے ، اس کی چال ڈھال، طور طریقہ گفت وشنید ، نششت وبرخاست وغیرہ اس کی شرافت وعظمت کا پتہ دیتی ہے ۔ اس کے بر عکس اگر کوئی شخص حیاء کی دولت سے محروم ہو تو اسے متانت ، سنجیدگی اور شرافت پر قائم رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ وہ شیطان کا بے دام غلام بن جاتا ہے ۔ فحش باتیں اور گالم گلوچ اس کی زبان پر رہتی ہیں ۔ وہ عریانیت کا خوگر بن جاتا ہے ۔ ننگاپن کا رسیا ہوجاتا ہے ۔ اور معصیت و گناہ کے کاموں میں اسے لذّت وسرور ملنے لگتی ہے ۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت وہ بےشرمی ووقاحت و بے غیرتی کے کام میں مبتلا ہوجاۓ ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولى: إذا لم تستح فاصنع ما شئت»
(رواه البخاری : 3484)’’اگر تم میں حیا نہیں تو جو چاہو کرو ۔‘‘اورعربی شاعر نے بھی اسی طرح کی بات کہا ہے ۔
إذا لم تخشَ عَاقِبةَ الليالي
ولم تَسْتَحْيِ فَاصْنعْ ما تَشاءُ
فلا والله ما في العَيْشِ خيرٌ
ولا الدُّنيا إِذا ذَهَبَ الحَياءُ
يَعِيشُ المرءُ ما اسْتَحْيا بخيرٍ
ويَبْقىْ العُودُ ما بَقِيَ اللِّحَاءُ ،
ترجمہ ۔ اگر تمہیں رات کی کرتوتوں کے انجام کاڈر نہیں ۔ اور تمہارۓ اندر شرم وحیا کی رمق باقی نہیں تو جاؤ جیسا چاہو کرو ۔ قسم اللہ کی اگر حیا وشرم کا مادہ ختم ہوگیا ہے تو ایسی زندگی میں کوئی خیر ہی نہیں ، انسان جب تک باحیا ہوتا ہے خیر ہی خیر ہے اس کے لئے ۔ لکڑی اس وقت تک اپنے وجود کے ساتھ باقی رہتی ہے جب تک چھلکا اس سے لگا رہتا ہے ۔
معزز قارئین : حیا بلند اخلاق و عظیم کردار کے حامل ہونے کی علامت ہے اسلئے کہ حیا انسان کو برۓ اخلاق سے ،قبائح ورذائل و فحش کاموں سے روکتی ہے ۔ کسی کامیاب انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ باحیا ہوں کیونکہ حیافلاح ونجاح کا عنوان ہے ،
اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد ارشادات میں حیا کو ایک عظیم اخلاقی وصف قرار دیا ہے اور اسے خیر کا منبع وسرچشمہ بتایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حیا ایمان کا ایک حصہ ہے ۔‘‘
( بخاری : 9 ، مسلم : 35 )
’’حیا سراسر خیر ہے ۔‘‘(مسلم: 37)
’’حیا سے صرف خیر حاصل ہوتا ہے ۔‘‘
(بخاری:6117 ، مسلم: 37 )
” ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ:4181)
حیاء کی اہمیت وفضیلت ۔
1۔ حیا کا ذکر قرآن میں ۔
حیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیطان نے جو سب سے پہلا حملہ آدم علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ پر کیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بے لباس ہو گئے اور شدت حیا کے باعث اپنے جسم کو جنت کے درختوں کے پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں کیا ہے:﴿فَدَلَّىٰهُمَا بِغُرُورࣲۚ فَلَمَّا ذَاقَا ٱلشَّجَرَةَ بَدَتۡ لَهُمَا سَوۡءَ ٰ⁠ تُهُمَا وَطَفِقَا یَخۡصِفَانِ عَلَیۡهِمَا مِن وَرَقِ ٱلۡجَنَّةِۖ وَنَادَىٰهُمَا رَبُّهُمَاۤ أَلَمۡ أَنۡهَكُمَا عَن تِلۡكُمَا ٱلشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَاۤ إِنَّ ٱلشَّیۡطَـٰنَ لَكُمَا عَدُوࣱّ مُّبِینࣱ﴾ [الأعراف ٢٢]اس میں یہ پیغام یہ ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے تو شیطان اس کی حیا پر وار کرتا ہے تاکہ انسان کو گمراہ کرنے کا راستہ آسان ہو جائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا کا جذبہ فطری طور پر آدم و حوا کے اندر موجود تھا اور یہ جذبہ ہر ابن آدم کے اندر یکساں موجود ہوتا ہے۔ پھر وہ چاہے تو اسے دبا کر کم کر دے، چاہے تو اس کی ایسی حفاظت کرے کو وہ کامل طور پر اس کے اندرموجود رہے۔
2 ۔ حيا موسى علیہ السلام کے قصہ میں ۔قرآن مجید موسی کے قصہ کی منظر نگاری یوں کرتا ہے ، { فَجَاءتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ } (سورة القصص: 25).
یعنی حضرت موسیٰ ؑ جب مصر سے بھاگ کر مدین پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور دو لڑکیاں تھوڑے فاصلے پر اپنے جانور(بکریاں )روکے ہوئے بھیڑ ختم ہونے کے انتظار میں کھڑی تھیں ۔ انھوں نے لڑکیوں سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ جب سب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا چکیں گے تب ہم کنویں کے پاس جائیں گے ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان کی مدد کی اور آگے بڑھ کر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا ۔ لڑکیاں جب گھر واپس گئیں اور انھوں نے اپنے باپ کو سارا قصہ سنایا تو انھوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا بھیجا ۔ قرآن اس وقت کی منظر نگاری یوں کرتا ہے کہ” ان میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئی ۔ (القصص : 25) لہذا یہ حیاووقار کا ہی کمال تھا جس نے لڑکی کی چال کو مہذب و شائستہ بنا دیا تھا ۔
3 ۔ حیاء ہر خیر کی چابی ہے ،
عن عمران بن حصين -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «الحياء خيرٌ كلّه» قال: أنَّه قال: «الحياء كلُّه خيرٌ» [رواه مسلم 37]. عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ حیا پورا کا پورا خیر ہے یا یہ کہ حیا میں ہر طرح کی خیر ہی خیر ہے ۔
4 ۔ حیاء ہی ایمان ہے ،
عن ابن عمر -رضي الله عنهم- قال: قال النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إنَّ الحياء والإيمان قرنا جميعًا فإذا رفع أحدهما رفع الآخر» [رواه الألباني 5020 في تخريج مشكاة المصابيح وقال: صحيح علي شرط الشَّيخين]عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بلاشبہ حیا اور ایمان دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے جب ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ یعنی حیا اور ایمان میں تلازم ہے ،
وعن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النَّبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- قال: «الإيمان بضع وسبعون شعبة . والحياء شعبة من الإيمان » [رواه مسلم 35] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ایمان کے ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ۔ اور حیا ایمان کا ایک شاخ ہے ۔ حصہ ہے ۔
5 حیاء ہی زینت و خوبصورتی ہے ۔
عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- عن النَّبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- قال: «ما كان الفحش في شيء إلا شانه، وما كان الحياء في شيء إلا زانه» [صحَّحه الألباني 2635 في صحيح التَّرغيب]. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس چیز میں بھی بےحیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے“۔
6 حیاء ایسی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ،
عن أشج عبد القيس -رضي الله عنه- قال: قال لي النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إنَّ فيك لخلقين يحبهما الله» قلت: وما هما يا رسول الله؟ قال: «الحلم والحياء» [صحَّحه الألباني 454 في صحيح الأدب المفرد].
حضرت اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تمہارۓ اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جو اللہ کو بہت محبوب ہے ۔ ہم نے کہا وہ کون سی دو خصلتیں ؟تو جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ بردباری و حیا ۔
7حیاء جنت کی طرف لے جاتی ہے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الحياء من الإيمان، والإيمان في الجنَََّة، والبذاء من الجفاء، والجفاء في النَّار» [رواه التِّرمذي 2009 وابن ماجه 3392 وصحَّحه الألباني]. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے۔ اور بدکلامی بداخلاقی کا حصہ ہے اور بداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی) ہے’’
8 ۔ حیاء تو اسلام کا اخلاق ہے ۔
عن أنس -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إنَّ لكلِّ دينٍ خلقًا وخلق الإسلام الحياء» [رواه ابن ماجه 3389 وحسَّنه الألباني].انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے،
9۔ حیاء کی تعلیم تمام انبیاء علیہم السلام نے دیا ہے ۔
عن أبي مسعود -رضي الله عنه- قال: قال النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إنَّ ممَّا أدرك النَّاس من كلام النبُّوَّة الأولى: إذا لم تستح فاصنع ما شئت» [رواه البخاري 6120].
سیدنا ابو مسعود رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” سابقہ نبوت کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو،
یعنی پچھلے جتنے انبیاء کرام علیھم السلام تھے سب نے حیا کی تعلیم دی ہے اپنی امت کو ۔
10۔ حياء ہی معصیت سے روکتی ہے ۔
عن أبي مسعود -رضي الله عنه -قال: قال النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-: «إنَّ ممَّا أدرك النَّاس من كلام النبُّوَّة الأولى: إذا لم تستح فاصنع ما شئت» [رواه البخاري 6120].
سیدنا ابو مسعود رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” سابقہ نبوت کے کلام میں سے جو بات لوگوں تک پہنچی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو ۔ یعنی ۔ انسان کو جب شرم نہیں ہوتی تو نہایت بے پروائی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، کیونکہ برائیوں سے روکنے والی چیز حیاہی ہے جب وہی ختم ہو جائے تو برائی کر ڈالنے کے سارے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں
حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه نے فرمایا: (مَن قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُهُ، ومَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ)
جس سے حیاء کی مقدار کم ہوگئی تو اس کے ورع وتقوی میں کمی آگئی اور اس کادل مردہ ہوگیا ۔
حذيفة بن اليمان رضي الله عنه نے فرمایا (لَا خَيْرَ فِيْمَنْ لَا يَسْتَحِي مِنَ النَّاسِ).اس شخص میں میں کوئی بھلائی وخیر نہیں جو لوگوں سے حیا نہ کرتا ہوں ۔
اصمعي رحمه الله تعالى نے فرمایا ۔ : (مَنْ كَساهُ ثَوبُ الحيَاءِ، لم يَرَ النّاسُ عُيُوبَهُ).جو حیا کی لباس پہن لیتا ہے ان کا عیوب لوگوں کی نظر سے چھپ جاتا ہیں ،
ابوحاتم محمد بن حبان بستی رحمہ اللہ نے فرمایا “الواجب على العاقل لزوم الحياء، لأنه أصل العقل وبذر الخير وتركه أصل الجهل، وبذر الشر، والحياء يدل على العقل كما أن عدمه دال على الجهل،”یعنی :عقلمند پر واجب ہے کہ حیا کو لازم پکڑۓ اسلئے کہ حیا ہی عقلمندی وزیرکی کی جڑ ہے اور خیر وبھلائی کی بیج ہے ،اور عدم حیا جہالت و نادانی کی جڑ ہے اور شر کی بیج ہے ،حیا عقلمندی کی دلیل ہے جسطرح کہ بےحیائی (عدم حیا) نادانی پر دلالت کرتی ہے ۔
(بحوالہ ۔ روضۃ العقلاء ونزھۃ الفضلاء صفحہ نمبر 56۔ )
دور حاضر پُر آشوب ہے ، اخلاقی طور پر انحطاط وزوال پذیرہے ۔ بے حیائی عروج پر ہے ، مغربی تہذیب وتمدن کا ہنگامہ ہے ،نیواسٹائل لائف کا شور ہے ،جنسی لذت کے بندوں ،اور عیاش طبیعت نے عریانیت اور آوارگی کو بالکل عام کردیا ہے ، برہنگی کو تہذیب ، عریانیت کو کلچر، پارکوں ،ہوٹلوں ، ساحل سمندر اور دیگر تفریحی مقامات پر مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط و ملاقات کو ترقی کا نام دے دیا، اس کے بالمقابل عفت وشرافت پاکدامنی ، داڑھی ،پردہ، عدم اختلاط اور شائستہ لباس پہننے کو دقیانوسیت کا لقب دیا اور زمانہ بدل گیا ہے کا غلغلہ ہے ، اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کھلے ماحول، اور اوپن مائنڈ نے فساد میں اضافہ کیا اور جلتی میں تیل کا کام کیا ۔ اور سوشل میڈیا کی طوفان بد تمیزی نےتو بے حیائی وفحاشی کو مرغوب اور لذت بخش بنا كر پيش كيا۔‌اب حیا ہی وہ بریک ہے جو کسی نوجوان یا دوشیزہ کے قدم پھسلنے نہیں دیتا اور اسے کسی غلط راہ پر جانے نہیں دیتا ۔ حیا اسے معصیت ،گناہ و عریانیت اور آوارگی کی گندگیوں سے بچائے رکھتی ہے اور گناہوں کے دلدل میں پھنسنے سے منع کرتی ہے ۔ حیاہی ہے جو انسان کو رب العالمین کے سامنے سربسجود ہونے پر مجبور کرتی ہے اور عدم حیا گویا رعونت سی تنی گردنوں کے مانند ہیں جو معبودان باطلہ کی پیروی کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بندوں کو رقص وسرود، فسق وفجور سے بھری زندگی بسر کرنے کی سبز باغ دکھاتی ہے ،
محترم قارئین ! یہ سوال نباض وقت کو پریشان کئیے ہوۓ ہیں کہ اس وقت بے حیائی ووقاحت کیوں پھیلی ہوئی ہے چاروں طرف ؟
تو ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ۔
“قِلَّةُ الْحَيَاءِ مِنْ مَوْتِ الْقَلْبِ وَالرُّوحِ. فَكُلَّمَا كَانَ الْقَلْبُ أَحْيَى كَانَ الْحَيَاءُ أَتَمَّ. ”
ابن القیم رحمہ اللہ كہتے هیں :
” حیاء كی قلت دل اور روح كی موت كی وجہ سے هے , پس دل جتنا زنده ہوگا حیا بھی اتنی مكمل ہو گی ”
[ مدارج السالکین 2/248 ]
حقیقت یہ ہے کہ بے حیائی ہی ساری معصیت و مصیبت کی جڑ ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں حیا جیسی عظیم وصف کو اپنانے کی توفیق عطا فرماۓ آمین

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *