ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار

ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
=======================================
بہار میں ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کا دن اس اعتبار سے بڑا تاریخی رہا کہ نتیش حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد وشمار جاری کر دیئے ، اس کام میں رکاوٹیں بہت آئیں، کام کو روکنا پڑا ، نتائج کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی، لیکن جب نیت میں خلوص ہواور ارادے پختہ ہوں توراستے بند نہیں ہوتے، بہار حکومت کو ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چکر لگانے پڑے اور بالآخر ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے نتیش حکومت نے ایک ایسی پہل کر دی ، جس پر ہندوستان کی دوسری ریاستیں بھی آگے بڑھنے کو اب تیار ہیں، بہار حکومت نے ان اعدا دوشمار کے جاری کرنے کے بعد اعلان کیا کہ سماج کے ہر طبقہ کو فائدہ پہونچنا چاہیے اورجس کی جتنی تعداد ہو اس اعتبار سے حصہ داری دی جائے، ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہو نہیں پائے گا، کیوں کہ ہندوستان میں افسر شاہی اور بیوروکریٹ کی ہی حکمرانی رہتی ہے ، اور ان بڑے عہدوں پر راجپوت، بھومی ہار اور برہمن ہی قابض ہیں، جن کی تعداد بہار کی کل آبادی 130725310میں علی الترتیب 3.67,3.45اور2.89فی صد ہے ، یہ بیو رو کریٹ کبھی نہیں چاہیں گے کہ او بی سی 27.1286% ای بی سی 36.0148%درج فہرست ذات 19.6518%درج فہرست قبائل اور جنرل زمرے کے 15.5224%لوگ ان پر حکمراں بن بیٹھیں، ابھی صورت حال یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے نوے(90) سکریٹری میںصرف تین (3)او بی سی ہیں، بقیہ سارے سکریٹری بڑی ذات سے آتے ہیں؛بہار کے حالات بھی اس سے الگ نہیں ہیں، یہاں اعلیٰ ذات آزادی کے بعدسینتیس سال (37)ایک سو سنتانوے دن وزیر اعلیٰ کی کرسی پر قابض رہے، شری کرشن سنہا ، جگرناتھ مشرا، کے بی سہائے، بندیشوری دوبے، ونودا نند جھا ، چندر شیکھر سنگھ، کیدار پانڈے، بھاگوت جھا آزاد، مہاما یا پرساد سنگھ، ستندر نرائن سنہا، ہری ہر سنگھ، دیپ نارائن سنگھ کا شمار اسی طبقہ سے ہے، صرف تین وزیر اعلیٰ اس درمیان درج فہرست ذات سے ہے، جن میں سے کسی نے بھی ایک سال کی مدت بھی پوری نہیں کی، ان وزراء اعلیٰ میں رام سندر داس 302 دن ، بھولا پاسوان شاستری 112دن ، جیتن رام مانجھی278دن ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی پر رہ پائے، اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان کو صرف ایک بار وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا، لیکن یہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے، یہ عبد الغفور تھے جن کے اقتدار کا سورج صرف ایک سال دو سو تراسی دن ہی چمک سکا ، جے پی اندولن نے ان کی بساط سیاست کو ہی سمیٹ ڈالا، اب حالات کچھ مختلف ہیں، اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی تعداد 2.44فی صد کمی ہے، اس کے باوجود رکاوٹیں آئیں گی اور آنے والے وقت میں یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ریاست کی کل آبادی 13425310میں ہندو 81.99%مسلم 17.70%عیسائی ، سکھ ، بدھ، جین ، دیگر اور دہریے (لا مذہب) کی تعداد اعشاریہ صفر کے بعد ہے ، اس طرح مسلمان اس ریاست میں دوسری بڑی اکثریت ہے اور ایوان نمائندگان میںا ن کی تعداد اچھی خاصی ہونی چاہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میںان کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے اور سیاسی سطح پر جس حصہ داری کی بات انتخاب کے وقت میں زوروں پر اٹھتی ہے ، حقائق سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، سیاسی پارٹیاں اس تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ ہی نہیں دیتیں، جیت کر آنا تو بہت دور کی بات ہے ، جس حلقہ سے ٹکٹ دیا جاتا ہے، وہاں بھی داخلی طور پر ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیںکہ مسلمان جیت نہیں پاتا ہے ، یہاں ذات برادری کا ہندوؤں میں اس قدر غلبہ ہے کہ وہ اپنی برادری کے امیدوار کو ہی ووٹ دے گا، چاہے وہ کسی پارٹی سے کھڑا ہو۔
مسلمانوں کے یہاں ذات برادری کا ایسا تصور تو نہیں ہے ، جیسا ہندوؤں کے یہاں ہے پھر بھی گاہے گاہے مختلف برادری کے لوگ اپنی برادری کے نام پر مسلمانوں میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کا کام کرتے رہے ہیں، اس فکر اور سوچ کو بڑھا وا لا لو، رابڑی دور حکومت میں زیادہ ملا جب ہر برادری والے نے اپنی الگ الگ تنظیم بنا کر جلسے جلوس کے ذریعہ اپنا وجود منوائے کا کام کیا، موجودہ مردم شماری میں مسلمانوں کی مجموی تعداد 23149925بتائی گئی ہے ، جن برادریوں کے اعداد وشمار ظاہر کیے گیے ، اس میں شیخ برادری کے لوگوں کی تعداد 3.82%فی صد ہے، جب کہ انصاری 3.55%فی صد ہیں، خان کی تعداد 0.75ہے، سر جا پوری 1.87دھنیا1.43، راعین 1.40، شیر شاہ آبادی 1.00،کلہیا1.00، سائیںفقیر 0.50، دھوبی0.3135، قصاب، 0.1024، بکھو0.0282، اور سید 0.22، فی صد ہے، جاری اعداد وشمار نے اس پروپیگنڈہ کی ہوا نکال دی ہے کہ مسلمانوں کے یہاں خاندانی منصوبہ بندی نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد تیزی سے بڑ ھ رہی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی ہے تو اسلامی نقطۂ نظر سے غلط ، لیکن یہ مسلمانوں کے اندراس قدر رائج ہو گیا ہے کہ ان کے یہاں بھی زیادہ بچوں کی ولادت نہیں ہو رہی ہے ، اس لیے ان کی آبادی17.70فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ بارہ سالوں میں ان کی آبادی صرف پانچ فی صد بڑھی ہے، 2011کی مردم شماری میں مسلمان 12.5فی صد تھے اب ان کی تعداد 17.7فیصد ہے، جب کہ انہیں سالوں میں دلتوں کی آبادی 14.1فی صد سے بڑھ کر 19.65فیصد ہو گئی ہے۔
ایک دوسری تشویشناک بات عورت کی تعداد کا مرد کے مقابل فی ہزار میں 47کا کم ہونا ہے، اس لیے کہ حالیہ مردم شماری میںایک ہزار مرد کے مقابل صرف 953خواتین ہیں، ایسے میں ہر ایک ہزار میں سینتالیس مردوں کو ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے خاتون نہیں مل پائیں گی، لوگ پروپیگنڈہ اس کا بھی کر تے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں چار شادی کی جاتی ہے، ایسا بالکل ہوتا نہیں رہا ہے، لیکن اب تو شرعی اجازت کے باوجود اس کا امکان ہی باقی نہیں رہا، کیوں کہ جب عورتوں کی تعداد کم ہے ، تو زیادہ لڑکیاں آئیں گی کہاں سے ؟ اس لیے کم از کم اس اعداد وشمار کے اعتبار سے اس کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے، یہ صنفی عدم توازن در اصل ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے ، لڑکیوں کے حمل کا اسقاط اور ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی خبر پر اس کا قتل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، واقعہ یہ ہے کہ عرب میں بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا تو گاؤں سماج کے لوگوں کو خبر ہوجاتی تھی ، آج حمل میں لڑکیوں کو ضائع کیا جا تا ہے تو کبھی کبھی تو گھر والوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔
ہندو برادری کے جو اعداد وشمار ہمارے سامنے آئے ہیں، ان میں یادو سب سے بڑی آبادی ہے، اس کا تناسب مجموعی آبادی میں 14.26فی صد ہے، دوسری تمام برادریاں، راجپوت، بھومی ہار، برہمن کائستھ، کرمی ، کشواہا، دھانک ، مسہر ، سونار، کمہار، بڑھئی، دھوبی،نائی، کانو اور تیلی کی آبادی اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، اس تناظر میں یادو کی اہمیت انتخاب میں بہت بڑھ گئی ہے ، اور آئندہ انتخاب میں ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کا حصہ بڑھ جائے گا، جو پہلے بھی کم نہیں ہے ، اس طرح اگر لالو یادو کا مائی (MY)مسلم +یادو+اوبی سی کا کا رڈا یمانداری سے کھیلا جائے تو مسلمانوں کی نمائندگی ایوان میں بڑھنے کے لیے راستہ صاف ہو سکتا ہے، شرط ایمان داری ہے، جو ہر سیاسی پارٹی میںان دنوں مفقود ہے، اگر ان تینوں نے انتخاب میں مل جل کر حصہ لیا، مسلمان پسماندہ طبقات، پچھڑا ، اتی پچھڑا ملا کر یہ تعداد اسی(80) فی صد تک جا پہونچتی ہے۔
تجزیہ کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا، لیکن ہمیں نتیش حکومت کی اس ماسٹر اسٹروک کی ستائش کرنی چاہیے کہ وہ ایک ناممکن کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوگئی، اور اس نے وہ کر دکھایا ، جس کی ہمت ہندوستان کی دوسری ریاستیں نہیں کر سکیں، ہمیں یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہندوستان میں انگریز دور حکومت میں 1872میں پہلی بار مردم شماری کرائی گئی 1931تک جتنی بار بھی مردم شماری ہوئی اس میں ذات برادری کے اعداد وشمار بھی جاری کیے جاتے تھے، آزادی کے بعد 1951میں پہلی مردم شماری کے موقع سے اس سلسلہ کو موقوف کر دیا گیا ، اور صرف درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے اعداد وشمار جاری کیے جانے لگے ، ہر دس سال پر مردم شماری کا کام تو جاری رہا، لیکن وہ ذات برادری کے اعداد وشمارپر مشتمل نہیں ہوا کرتا تھا، 2011میں جو اب تک کی آخری مردم شماری ہے اس میں یوپی اے سرکار نے ذات وبرادری کے اعداد وشمار کا اندراج کرایا ، لیکن مصلحتیں آڑے آگئیں اور ان اعداد وشمار کو پردہ ٔ خفا میں رکھا گیا، موجودہ مرکزی حکومت نے کورونا کا سہارا لے کر گذشتہ 150سال میں پہلا موقع ہے جب مردم شماری نہیں کرائی ، اور مستقبل قریب میں اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا اس لیے کہ 2024کا پارلیمانی انتخاب سر پر ہے اور اس کی تیاری حکومت کے نقطۂ نظر سے مردم شماری سے زیادہ اہم ہے۔
بہار میں ذات برادری پر مشتمل اعداد وشمار کے اجراء سے سیاسی اعتبار سے سب سے بڑا نقصان بھاجپا کو اٹھانا پڑے گا، کیوں کہ بھاجپا نے ملک کو دو مذہبی طبقات میں پورے ملک کو بانٹ کر 2014اور2019میں بازی مار لی تھی، لیکن نتیش حکومت نے ہندتوا کے مقابل ایک بڑی لکیر کھینچ کر بھاجپا کا سارا کھیل بگاڑ دیا ہے، دیکھنا ہے کہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ادارے اور افراد اس کے مقابلہ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اتنی بات توپکی ہے کہ اس رپورٹ کے بعد ذات پر مبنی سیاست کو مزید بڑھاوا ملے گا، اور ہر برادر ی اپنے اپنے حق میں آواز اٹھا کر حصہ داری چاہے گی، البتہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ، مثلا جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ، مکیش سہنی کی وکاش شیل انسان پارٹی کا دباؤ دوسری پارٹیوں پر کم بنے گا، کیوں کہ ان کی تعداد انتہائی کم ہے، اس مردم شماری نے کمنڈل پر منڈل کو پھر سے غالب کر دیا ہے، اس سے رزرویشن کے نئے نئے فارمولے وجود میں آئیں گے۔
مردم شماری کے اس کام میں معاشی سروے کا کام بھی کیا گیا تھا، لیکن حکومت نے کسی خاص مصلحت سے اس کے اعداد وشمار ابھی جاری نہیں کیے ہیں، اگر وہ اعداد وشمار جاری ہوجائے تو وزیر اعظم کو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا کہ برادری تو صرف دو ہے، ایک امیر اور ایک غریب، معاشی رپورٹ آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ کس برادری کے کتنے فی صد لوگ غریبی میں خطرے کے نشان سے نیچے جا چکے ہیں اور ہندوستان کی اقتصادیات سے ان کو کس قدر فائدہ پہونچ رہا ہے، جب بھی یہ رپورٹ آئے گی تو ایک اور گھمسان ہندوستانی سیاست میں مضبوط دستک دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *