عنایت اللہ عبد المتین
جامعہ امام ابن تیمیہ
علم ایک گوہر نایاب ہے جس کی حصولیابی کے ذریعے ایک انسان فتح و کامرانی کے منازل طے کرتا ہے۔جس کو قران حکیم نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے *{ يرفع الله الذين امنوا منكم والذين اوتوا العلم درجات}*( المجادله١١) اللہ اہل ایمان اور اہل علم کے درجات کو بلند کرتا ہے۔حاصل علم کے مختلف وسائل و ذرائع ہیں۔جیسے سماعت بصارت قرات اور کتابت۔انہی عناصر اربع کی توسط سے ایک انسان علم کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ تا ہم ان سب میں آخر الذکر ایک خاص اہمیت کا حامل عنصر ہے۔ اس کے بھی مختلف انواع و اقسام ہیں۔جس میں سے ایک نوع مطالعہ بھی ہے۔ مطالعہ کا لغوی معنی” کسی شے کو اسے
شناسائی حاصل کرنے کے مقصد سے دیکھنا”(اردو لغت ج ۱۸ ص۲۱۵)
اسی طرح مطالعہ کے اور بھی معانی ہںں۔غور، توجہ، دھیان، خیال،مشاہدہ، کتاب بینی، کتاب خوانی، وغیرہ (قاموس ص١٠٠٠)
جبکہ اصطلاح میں بذریعہ تحریر مصنف و مولف کی مراد سمجھنا مطالعہ کہلاتا ہے۔
مطالعہ کا موضوع اور غرض و غایت مطالعہ کا موضوع ” تحریر” ہے اور غلطی سے بچتے ہوئے مصنف و مولف کی مراد کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائے اس فن کی غرض و غایت ہے۔بلفظ دیگر اس کی غرض و غایت کی تشریح ایسے بھی کی جا سکتی ہے کہ مطالعہ کرنے والا لکھنے والے کی مراد کو درست سمجھنے میں کامیاب ہو جائے خطا سے محفوظ رہے اور تحریر کو نفس عبارت کے لحاظ سے باطل قرار دینے سے بچے۔ مطالعہ تحصیل علم کی ایک اہم سیڑھی ہے یہ انسان کے عقل و شعور کو بڑھاتا ہے۔ ذہن کو جلا بخشتا ہے۔ نتائج سے باخبر کرتا ہے ۔فصیح اللسان بناتا ہے۔ غور و خوض کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ علم کو پختہ کرتا ہے۔ شبہات کو جڑ سے ختم کرتا ہے۔ خیالات کو مکدر ہونے سے بچاتا ہے۔ شخص واحد کے غم کو ازالہ کرتا ہے۔ مسافر کی اندھیری رات کا مصباح بنتا ہے۔ اس کے برعکس ترک مطالعہ اور کتب بینی سے دوری زبان کے لیے رکاوٹ، طبیعت کے لیے قید، دل میں خلل، عقل میں فتور، ترقی و معرفت میں کمزوری کا باعث اور فکر کو خشک کر دیتا ہے۔
محترم قارئین!
مطالعہ کے بہت سارے فوائد ہیں البتہ مندرجہ ذیل میں اٹھ فوائد صفحہ قرطاس کے سپرد ہیں۔ تاکہ مطالعہ کی رغبت پیداکی جا سکے۔ 1-ایمان کی پختگی مطالعہ ایمان کی مضبوطی و پختگی کا باعث ہے مگر یہ اس وقت ہوگا جب کسی ایسی کتاب کو پڑھیں گے کہ کتاب خوانی کے بعد ایمان کو حلاوت ملے اور دل میں موجود توحید و رسالت کی شمع مزید روشن ہو۔ 2 -علم میں ترقی مطالعہ سے علم بڑھتا ہے۔یاد رہے کہ علم سیکھنے سے اتا ہے۔اس کے حصول کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {انما العلم باالتعلم} (صحيح الجامع ٢٣٢٨ • حسن) بے شک علم سیکھنے سے ملتی ہے
3-معرفت کا حصول مطالعہ معرفت کا ذریعہ ہے یہ حقیقت ہے کہ انسان کتاب کے مطالعے سے اغاز کرتا ہے اور پھر کائنات کے مطالعہ (مشاہدہ) کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور بتدریج کائنات کے سربستہ رازوں کے پردے اس کے لیے کھلتے چلے جاتے ہیں گویا کہ مطالعہ معرفت کے لیے سیڑھی کا کام کرتا ہے۔
4-کا ئنات میں غور و فکر مطالعہ سے اس عالم رنگ و بو کے مشاہدات و مظاہرات سے انسان کے اندر غور فکر کرنے کا مادہ پروان چڑھتا ہے۔ تدبر وتفکر کا ذہن بنتا ہے جو کبھی ایک عام انسان کو فرش کی پستی سے اٹھا کر عرش کی بلندی تک پہنچا
دیتا ہے۔ 5- عقل و شعور میں اضافہ
کتب بینی سے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔
6-دینی و دنیاوی ترقی۔ مطالعہ انسان کے دینی اور دنیاوی دونوں ترقیوں کا سبب بنتا ہے ۔
7- الفاظ کا ذخیرہ مطالعہ کرنے والے شخص کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے وہ با آسانی سے اپنی بات مخاطب تک پہنچا سکتا ہے۔ 8-تہذیب و ثقافتی سے آگاہی مطالعہ انسان کو مختلف قوموں کے حالات وکیفیات اور ان کی تہذیب و ثقافتی وغیرہ سے آگاہی بخشتا ہے۔
محترم قارئین !
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بےنیاز نہیں رہ سکتا۔ کتاب نہ صرف انسان کا بہترین دوست ہے بلکہ یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے ۔ اور خود آگاہی کے ساتھ ساتھ گردوپیش کے حالات واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہے۔ مطالعہ کی شخصیت سازی میں بنیادی کردار کرتا ہے۔ یہ انسان کو فصاحت و بلاغت کے مقام تک رسائی کرتا ہے ۔ اور اس کو بلندی خیال اور بصیرت سے متصف کرتا ہے ۔اسے اس کے اذہان کھلتے ہیں خیالات میں بالیدگی آتی ہے اور معاملہ فہمی میں وسعت پیدا کرتا ہے جس سے انسان دوسرے کے خیالات سے مستفیض ہوتا ہے ۔
ایک قدم آگے بڑھیں اور اپنے اسلاف کو دیکھیں وہ کتب بینی میں کس قدر محوریا کرتے تھے اور قوت حافظہ کے لیے جہاں دوائیں استعمال کیے جاتے ہیں وہی ہمارے اسلاف نے مطالعہ کو دوا کے طور پر استعمال کرتے۔ چنانچہ امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ سے عرض کی گئی حافظے کی دوا کیا ہے اپ نے فرمایا {ادمان النظر في الكتب}
(خامع بیان العلم ج ۲ص٣٩٠) اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں زندگی کے آخری ایام تک حدیث رسول کی تلاش و جستجو کا حیرت انگیز انہماک قائم رہا کہ ایک دن مجلس میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے۔ گھر اکر اپنی کتابوں میں اس کی تلاش شروع کردی قریب ہی میں کھجور کا ایک ٹوکرا رکھا ہوا تھا امام مسلم حدیث کی تلاش میں اتنا مشغول تھے کہ وہ دریں اثناء میں پورا کھجور کھا لیے اور غیر ارادی طور پر کھجور کا زیادہ کھا لینا ہی ان کی موت کا بنیادی سبب بن گیا۔ (تذکرۃ المحدثین ص١٢٣) اسی طرح امام ابن جوزی رحمہ اللہ تحدیث علم کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ دوسرے لڑکے دجلہ کے کنارے کھلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل کر الگ تھلگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا تھا۔ (علم اور علماء کی اہمیت ص۲۷) اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ڈرائیونگ کرتے وقت بھی اپنے پاس کتاب رکھتے تھے اور جوں ہی کہیں موقع ملتا مطالعہ میں محو ہو جاتے۔
ہمارے پاس صحت و تندرستی ہے وقت و فرصت ہے نسخے کی شکل میں کتابیں نہ صحیح لیکن پی ڈی ایف کہ صورت میں ہمیں مکمل طور پر رسائی ہیں۔ پھر بھی ہم مطالعہ سے کوسوں دور ہیں۔ ہم اپنے قیمتی اوقات سوشل میڈیا پر ضائع کر رہے ہیں۔ لایعنی کاموں میں اپنی ذہنی وہ جسمانی طاقتوں کو ختم کر رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس الصحة والفراغ } (رواه البخاري)
دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے تئیں لوگوں کی ایک کثیر تعداد دھوکے کا شکار ہے صحت و تندرستی اور فراغ بالی وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی دماغی صلاحیتیں کم ہوتی جاتی ہیں اور وہ دن بدن ہر چیز بھولنے لگا ہے لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے تاکہ اس کا قلوب و اذان تر و تازہ رہے ۔
محترم قارئین!
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم انسان کا امتیاز نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت ہے۔جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ مطالعہ ہے۔اس کے بغیر زندگی کے کسی بھی میدان میں ایک قدم اگے بڑھانا مشکل ہے کیونکہ یہ استعداد کی کنجی اور خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا بہترین اعلی ہے۔یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا ہے اور زاویۂ فکر و نظر وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے مطالعہ ایک ایسے دور بین اور طیار کی مانند ہیں جس پر مطالعہ کرنے والا شخص سوار ہو کر دنیا کا گوشہ گوشہ دیکھتا رہتا ہے۔ اور اس عالم کے زیب وزینت کی سیر کرتا رہتا ہے اور وہاں کی تعلیمی ،تہذیبی ،سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ علم کی روح اور حیات اگر ہم کسی چیز کو قرار دے سکتے ہیں تو وہ مطالعہ ہے۔ علم کی ترقی اس کی مرہون منت ہے کوئی شخص مطالعہ کے بغیر اعلی علمی مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/