فلسطین:ایک داستان غزہ کی
فلسطین ایک خونی جنگ کا شکار ہے۔ ظاہر میں غزہ شہر میں حماس اور نام نہاد اسرائیل کا تصادم نظر آتا ہے ۔ ظلم و جبر کی خونی داستان ہے اب فلسطین ۔ انسانیت کا جنازہ نکلتے ہماری آنکھیں مشاہدہ کر رہی ہیں ۔ جنگ کے تمام تر عالمی قوانین کو تار تار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ عالمی برادری کی قراردادیں دم توڑتی واضح نظر آتی ہیں ۔ شہر میں انسانوں کی جگہ گولہ و بارود کے انبار ہیں ۔ بے گناہ معصوموں کی لاشوں کا ڈھیر ہے ۔ ارمانوں کے طوفان ایک شہر خموشاں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ سچ یہ ہیکہ ان سب کے بیچ مسلمانوں بلخصوص عرب عوام کے جذبات سے کھیلنے کا ایک ڈراونا کھیل بھی ہے۔ آگ میں گھی ڈالنے کا ناہنجار کھیل دکھائی دیتا ہے ۔ حسن نصراللہ کے خطاب کا شدت سے انتظار تھا ۔ ایسا لگا کہ اب فریب خوردہ نعروں کے علاوہ سیریا کی طرح باقاعدہ جنگ میں کودنے کا اعلان ہوگا ۔ اس جنگ کے تین فرنٹ مجھے بہت صاف دکھائی دیتے ہیں ۔
1- ایک فرنٹ ناجائز اسرائیل اور اسکی فوجی طاقتIDF و حماس کا فرنٹ واضح ہے ۔
2- دوسرا فرنٹ روس اور امریکہ ہے ۔ دونوں ویٹو پاور والی آج کی سپر پاور طاقتیں ہیں ۔ دونوں کے مشرق وسطی میں اپنے ذاتی مفادات ہیں ۔ پیٹرول و ڈیزل پر بالادستی کی ہوڈ ہے ۔ نتیجتا عرب دنیا اور جلیج و فارس میں دونوں کے حامی و مخالف دیش و پردیش ہیں ۔
3-تیسرا فرنٹ ایران و عرب بالفاظ دیگر شیعہ و سنی کا ہے ۔ مشرق وسطی میں یہ فرنٹ اب مسلم vs یہود و نصاری کی محاذ آرائی سے کہیں زیادہ خطرناک اور دردناک ہے۔
4-تیسرے فرنٹ کو آپ عرب و فارسی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
عرب ،فارسی اور اتراک ایک دوسرے سے الجھے نظر آتے ہیں ۔ خلیفہ المسلمین بننے اور مشرق وسطی کا بوس کون ؟ کی لڑائی بہت دقت سے دیکھنے اور مطالعہ کرنے سے نظر آئیگی۔
بہت گنجلک اور الجھی ہوئی تصویر ہے ۔ مذکورہ فرنٹ اور منظر نامہ کے مطابق عالم اسلام اور مسلم نمائندگی بہت انتشار کا شکار ہے ۔ وسیع مطالعہ اور حالات کا تاریخی اور حالیہ احوال کا باریک تجزیہ بہیت ضروری ہے ۔ اور آئے دن بدلتہ منظرنامے پر بے عقابی نگاہ ضروری ہے ۔ ورنہ بہت جذباتی نظریہ قائم کر لوگے ۔ اور دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن تصور کرنے لگ جاوگے ۔
ایران بہت کھل کے اس جنگ کا کلیدی کردار ہے ۔ شاید جنگ کی قرارداد کا بانی بھی ۔ میدان میں اسی کی ملیشیات سرگرم ہیں ۔ حزب اللہ ، حوثی، انصار اللہ ، الجہاد الاسلامی اور مخلوط حماس ۔ اور لگاتار آگ میں گھی کا کام بھی کر رہا ہے ۔ ڈائریکٹ نہ میدان میں ہے اور نہ ہی جنگ سے باہر ۔ امریکہ باوجود اسکے تضاد بیان دیتا ہے ۔ کبھی ایران کو ذمیدار مانتا ہے اور کبھی کلین چٹ فراہم کرتا ہے ۔ واضح کردار نہیں دکھتا ۔ صورتحال جو بھی ہو تباہی اور بربادی کا منظر فلسطین دیکھ رہا ہے ۔ لقمئہ اجل فلسطین کی معصوم عوام ہے ۔
عرب دنیا ایک متحدہ پلیٹ فارم پر نظر آتی ہے یہ خوشآئند ضرور ہے مگر پائیدار نہیں ہے ۔ اسرائیل کو لیکر سعودی عرب کے علاوہ کسی کی واضح پالیسی نہیں ہے ۔ مگر باوجود اسکے فلسطین کے ساتھ ایک چٹان کی طرح کھڑے ہیں ۔ ہاں گریج ہے تو قدر حماس سے ۔ موقف بہت کلیئر ہے کہ یہ ممالک ایران اور انکی تیار کردہ مذکورہ ملیشیات سے وہ عرب ممالک میں نبردآزما ہیں ۔ عراق ، لیبییا ، سیریا ، لبنان ، تباہی کا منظر اور روافض کا تسلط جھیل چکے ہیں ۔ مصر ،جارڈن وغیرہ ایران اور اخوان المسلمین کی خونی داستان کا سامنا کر چکے ہیں ۔ آج بھی بہت استقرار نہیں ہے وہاں۔ سعودی عرب، عرب امارات اور،عراق میں حوثی اور حزب اللہ ، انصار اللہ وغیرہ سے مقابلہ آرائی ہے ۔ ایسے میں فلسطین کو کس کے ساتھ لڑا جائے ۔ ایرانی قرارداد اور اسکی پروردہ جماعتوں کے ساتھ کیسے جنگ میں اترا جائے ؟ ایک جائز سوال ہے ۔
ایک گروپ اسرائیل کے ناجائز وجود کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے ۔ یہ نظریہ مکمل طور پر آج کے عالمی منظرنامے پر قابل تنفیذ دکھائی نہیں دیتا ۔ میری تمنا اور عقیدہ تو صرف ایک فلسطین سے تعبیر ہے ۔ جبکہ دوسرا موقف اب آسکے وجود کو 1967کی عالمی قرارداد کے مطابق تسلیم کرکے فلسطین کو انکا کم سے کم حق دلانے پر عالمی برادری کو راضی کر لینا چاہتا ہے ۔ فلسطین اور اہل غزہ کی لاشوں پر ایک گندی سیاست کا سد باب ہونا اب ضروری ہے ۔ بہت خون بہہ چکا ہے اب غزہ میں ۔
فلسطینین اتھارٹی کے وزیر اعظم یا راسٹرپتی محمود عباس اور انکی پارٹی جو عالمی سطح پر فلسطین کی نمائندہ جماعت ہے وہ کم نظر آتے ہیں۔ یا یوں کہیں کی فلسطین کے معاملہ میں فلسطین نمائندگی حماس کو شاید منظور نہیں ہے ۔
شاید حماس اور الفتح میں خلیج ہے ۔ بہت واضح طور پر فلسطین بذات خود ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتا ۔ دونوں کے بیچ نظریاتی اختلاف ہیں۔ ذرا سوچئیے کہ اس جنگ کو کون لڑ رہا ہے یا ہوں کہئے کہ دشمناں اسلام یہودی و نصاری کو دفاع کے نام پرکون پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے ۔
اسماعیل ھنیہ کا عنقریب میں ایک بیان ٹو نیشنل تھیوری کے اعتراف میں آیا ہے ۔ اگر یہی مانگ تھی تو یہ مسئلہ سعودی عرب کے توسط سے عالمی برادری کے پلیٹ فارم پر بڑی کاوشوں کے بعد رضامندی کے لئے تیار تھا ۔ پھر یہ عرب فلسطینیوں کی اتنی تباہی کیا عربوں کو لعن طعن کرانے اور احمقاںہ طور پر عالمی جنگ میں جھونک دینے کے لئے کی گئی تھی ۔ یہ سب سوالات مشرق وسطی اور عالمی احوال و کوائف پر نظر رکھنے والے اہل فکر و نظر کے دماغ میں اٹھتے رہینگے۔
اگر جنگ کی قرار داد ایرانی اور انکی ملیشیات کی تھی تو پھر خود یہ ممالک میدان جنگ میں کیوں نہیں ہیں ۔
تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور آدھونک ہتھیاروں سے لیس ایران ، ترکی ، پاکستان وغیرہ اس جنگ میں نہیں ہیں اور آخر دو کا کوئی بھی کنٹریبیوشن نہیں ہے ۔ پھر سوال صرف عسکری طور پکمزور عرب ممالک ہی سے کیوں؟ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب مکمل طور پر جنگ کے نشیب و فراز اور پوری طاقت کے ساتھ عالمی برادری سے الجھا ہوا ہے ۔ فلسطینیوں کا خون وہ اپنا خون سمجھتے ہیں ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ آج تک انہوں نے اسرائیل کو ملک تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔ نہ سفارتی تعلقات ہیں نہ سیاسی و تجارتی روابط ۔ اور آج بھی سیاست سے لیکر عوامی تحریک نے فلسطینیوں کے حق میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ اور مکمل میدان میں ہے ۔ مالی امداد کا تعاون تاہنوز حکومتی اور عوامی سطح پر جاری ہے ۔ اور یہ تعاون 298ملین ریال یعنی 80ملین ڈالر ہے ۔ یہ غیر معمولی رقم انکی فلسطین سے محبت کی علامت ہے ۔عرب پر معترض بتائیں کہ آپ نے کیا کیا ہے فلسطین کے لئے آج تک۔ حماس کی لیڈرشب بھی عرب ممالک کی شکر گزار ہے ۔ عالمی اور اقلیمی پلیٹ فارم پر تمام میدانوں میں انکا موقف بہت شاندار ہے۔ باوجود کہ وہ کھل کر حماس کی ایرانی قرارداد کے ساتھ نہیں ہیں ۔ جذباتی مسلمان بلخصوص برادرہوڈ سعودی عرب کو نشانہ طعن و تشنیع کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے ۔ کاش کوئی کھلا خط فلسطینی معصوموں کی امداد کے لئے لکھا جاتا تو قابل تعریف عمل ہوتا ۔ یہ ممکن تھا کہ آپ ایک کھلا خط تمام ائمہ مساجد سے قنوت نازلہ کی اپیل کرتے لکھتے ۔ مگر نہیں ۔ کھٹکتا تو مملکت تؤحید ہے ۔ اہل غزہ کی لاشوں پر سیاست کم از کم بند کردی ی چاہئے ۔ صاحب قلم وقرطاس استاذ نعمانی صاحب کچھ نہیں تو اس بات کا شکریہ ادا کر لیتے کہ آپکی تعلیم و تربیت کے لئے بلا کسی معاوضہ کے ماحول فراہم کیا ۔
رب کریم ہمیں صحیح سمجھ کے ساتھ فتح کے تمام ربانی قوانین کو خلوص دل سے اپنانے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نواز دے ۔ رب العالمین تو اہل غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کا حامی و ناصر ہوجا ۔ شکریہ۔
آپکا بھائی: محمد مبارک عبد الستار ، ہریانہ
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/