مسئلہ فلسطین اور سعودی عرب کی مخلصانہ کاوشیں
غزه کی فلسطینی عوام کے لیے سعودی حکومت نے 2/نومبر کو ساھم پلیٹ فارم کے ذریعہ ملکی سطح پر ریلیف فنڈ جمع کرنے اعلان کیا ، اور گذشتہ خطبات جمعہ کا عنوان بھی سعودی عرب کی تمام مساجد میں فلسطین کی امداد پر مختص کیا گیاتھا۔ جس کے نتیجے میں سعودی عوام نے ایک ایک کر کے آگے بڑھ کر اس میں حصہ لیا اور اب تک 415 ملین ریال ریلیف فنڈ میں جمع ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز نے 3 کروڑ سعودی ریال اور ولی عہد محمد بن سلمان نے 2 کروڑ سعودی ریال عطیہ دینے کا اعلان کیا ۔ سعودی عرب کا یہ اقدام فلسطینیوں کے تئیں ہمدردی اور اظہار یک جہتی پر دلالت کرتا ہے۔
فلسطینیوں کی حمایت میں سعودی عرب روز اول سے کھڑا رہاہے، اور جب سے جنگ شروع ہوئی ہے تب سے حکومت سعودی عرب نے مختلف ممالک کے سربراہوں سے مل کر جنگ کو روکنے کی کوششیں کیں، جس میں غزہ پر محاصرہ ختم کرنے اور انسانی بنیادی ضرورتیں جیسے خوراک، دوائیں وغیرہ پہونچانے کے سلسلے میں انتھک کوششیں شامل ہیں۔
حکومت سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی قضیہ کا سب سے بڑا تاریخی حامی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ حکومت سعودی عرب کی طرف سے فراہم کردہ امداد اور مالی تعاون گذشتہ تین دہائیوں کے درمیان ۵ بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے ہمیں انکے مضبوط تعلقات اور خاص اہتمام کا پتہ لگتا ہے۔ سعودی عرب نے شاہ عبد العزیز کے دور سے لے کر ابھی تک تمام تاریخی موڑ پر فلسطینی عوام کی استقامت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کر رہا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ سعودی حکومت کے لیے ہمیشہ سے سب سے بنیادی اور اہم مسئلہ تھا، ہے اور رہے گا، اس بات کی دلیل اس سے زیادہ واضح کیا ہو سکتی ہے کہ شاہ سلمان بن عبد العزیز نے 2018 میں سعودی عرب کے شہر ظہران میں ہونے والی انتیسویں عرب سربراہ کانفرنس کو ”قدس کانفرنس“ کا نام دیا، اور تمام دنیا کو یہ پیغام دیا کہ قضیۂ فلسطین تمام عربوں اور تمام مسلمانوں کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور یہ اس وقت تک سب سے اہم مسئلہ رہے گا جب تک کہ فلسطینیوں کو انکے حقوق نہیں مل جاتے۔
مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے فی الحال سعودی عرب کے موقف کا پتہ حال ہی میں ولی عہد محمد بن سلمان کے (FoxNews) فوکس نیوز پر دیے گئے انٹرویو سے اور واضح ہو جاتا ہے جس میں انہوں نے زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل پورے خطے کے امن وسلامتی اور استحکام کا ذریعہ ہے اور ساتھ ہی زور دیا کہ فلسطینیوں کو اچھی زندگی میسر ہو۔ اور 6/ نومبر کو سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم (Organization of Islamic Cooperation) کو 12/نومبر کو ریاض میں ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے جس میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
گذشتہ 74 سالوں کے درمیان سعودی عرب نے فلسطینیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا اورہر قسم کے امدادات فراہم کیا ہے ، اور امن وامان قائم کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے اقدامات کیے ، سعودی عرب کا فلسطینیوں کے تئیں یہ مخلصانہ موقف انکے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے، سعودی عرب ان تنظیموں اور حکومتوں کی طرح نہیں ہے جو صرف جھوٹے نعروں، زبانی باتوں اور دکھاوے تک محدود رہتے ہیں۔
أحمد عبد اللہ جولم عمری مدنی
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/