فلسطین کے مظلوم مسلمان اور سعودی عرب کا ہمدرد دانہ تعاون

فلسطین کے مظلوم مسلمان اور سعودی عرب کا ہمدرد دانہ تعاون
محمد ثمامہ رحمت اللہ عمری

اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی سازش اور دشمنی تاریخ کا ایک اہم اور مستقل باب ہے ۔یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآب میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کےخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔بیسویں صدی کےحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی ہے ۔ یہود ونصاریٰ نے یہ مسئلہ پیدا کر کے گویا اسلام کےدل میں خنجر گھونپ رکھا ہے ۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کےبعد یورپ سے آئے ہوۓ غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر دیا۔ اور ان کی جارحانہ کارروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اورلاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کےملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ سن 1967ھ میں قدس پر حملہ کرکے یہودیوں نے اپنا قبضہ فلسطین اور خاص کر قدس پر مستحکم کرلیا پھر اس کے بعد ہی سے بیت المقدس کو مکمل طور پر اپنی تحویل میں لینے کے لئے درج ذیل چالیں چلیں اور چل رہے ہیں۔
1۔مسجد اقصی کے ارد گرد چاروں طرف سے نئی یہود آبادیاں بنا رہے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہیں ، اگرچہ ساری دنیا کی حکومتیں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔
2۔قدس کا وہ علاقہ جہاں مسلمان آبادی ہے وہاں کی زمینون کی قیمت غیر معمولی طور پر بڑھا رہے ہیں ،تاکہ کوئی مسلمان وہاں زمین یا گھر نہ خرید سکے اور خریدے تو کوئی اسرائیلی ہی خریدے ،جسے دنیا کی دیگر یہودی تنظیمیں مدد دے رہی ہیں۔اور اگر کوئی مسلمان جو اس زمین کا مالک ہے اور وہ کسی یہودی کے ہاتھ نہیں بیچنا چاہتا تو فلسطین کے اندر یا باہر کے کسی مسلمان کو تیار کیا جاتا ہے چنانچہ وہ مسلمان سے اس زمین کو خرید کر پھر کسی یہودی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
3۔قدس کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مسلمان اسے چھوڑ کر نکل جائیں ،اس کی صورت یہ ہے کہ قدس میں داخل ہونے کے لئے ہر طرف سے چیک پوسٹ بنائی گئی ہے اور کسی بھی ایسے شخص کو باہر سے نہیں آنے دیاجاتا جو قدس کا رہنے والا نہ ہو ۔
4۔اسی طرح قدس کے اردگرد امن کے قیام کے نام پر پولیسوں اورفوجوں کو متعین کررکھا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نقل وحرکت کم ہے جبکہ یہود کو مکمل آزادی حاصل ہے وہ جس طرح چاہیں آئیں اور جائیں۔
5– قدس کے جو اصلی باشندے ہیں یعنی مسلمان، یہودی حکومت ان کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتی، بلکہ یہ واضح کردیا ہے کہ تم لوگ یہاں کے اصلی باشندے نہیں ہو۔
6۔ایک مسلمان کے لئے اب مسجد اقصی کے قریب رہائش بڑی خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے ،عموما ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں جب وہ نماز کے لئے یا کسی اور مقصد کے لئے نکلتے ہیں تو کوئی چھپا ہوا شخص ان پر کسی دھار دار چیز سے حملہ کردیتا ہے۔
حالیہ دنوں میں بھی اسرائیلی فوج کی بربریت اورظلم کو غزہ پٹی کے اندر دنیا نے دیکھا حد تو یہ کہ ہسپتالوں اورمعصوم بچوں تک کو نشانہ بنایا گیا نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہسپتالون کے اندر ڈاکٹرٹارچ کی روشنی می علاج ومعالجہ کا فریضہ انجام دے ہیں ۔ اسی طریقہ سے بیہوش کرنے والی دوائیاں اور انجکشن نہ ہونے کی وجہ سے بلا بیہوش کئے آپریشن اور بندوق کی گولی کو نکالنے کا عمل انجام دے رہےییں ۔
جن ممالک نے اس حملہ کی فوری طور پرمذمت کی اور اس کی روک تھام میں ٹھوس قدم اٹھایا ان مین سعودی عرب سرفہرست ہےسعودی وزارت خارجہ نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ ’ہم فلسطین میں تازہ ترین صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں۔‘
وزارت نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب نے متعدد مرتبہ اس بات سے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو اس کے جائز حقوق سے محروم کرنا، اس پر حصار جاری رکھنا اور اس کے مقدس مقامات کی بار بار بے حرمتی کرنا انتہائی خطرناک ہے جس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔وزارت نے کہا ہے کہ ’ہم عالمی برادری کو ذمہ داری ادا کرنے کے علاوہ دو الگ ریاستوں کی تجویز پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ’دو الگ ریاستوں کا قیام پورے خطے میں امن وسلامتی اور استحکام کا ضامن ہوسکتا ہے۔
11/11/2023 کو اسرائیلی جارحیت دیکھتےہوۓ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے سربراہی اجلاس نےفوری طور پرسعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں ہنگامی میٹنگ بلائی اور متفقہ طور پر ٹھوس نتیجہ پر پہنچا گیا ۔اور اخیر میں مشترکہ طور اعلامیہ جاری کر دیا گیا جس کے عنقریب مستقبل میں اچھے نتائج دیکھے جانے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ اسی طریقہ سے ماضی قریب میں بھی چاہے ملک عبد العزیز کا زمانہ ہو یا ملک عبداللہ اور ابھی ملک سلمان کا قضیہ فلسطین کو حساس جانا اور اس کو حل کرنےکے لیے متعدد کانفرنسیں اور موتمرات منعقد کئے گئے جس کا بنیادی مقصداسرائیل کو ظلم وبربریت سے روکنا اور 1967کے بعد فلسطینیوں کی غصب کی گئی زمین کو لوٹانا ، اماکن مقدسہ میں تمام ادیان کو عبادت کی آزادی دینے اور منطقہ کے اندر امن وسلامتی قائم رکھنے اور فلسطین کا کیپٹل قدس کو بنانے پر زور دیا گیا ۔
اس کے علاوہ مملکت نے کانھہم بنیان مرصوص کا ثبوت دینے اورمددکو بآسانی ان تک پہنچانے کے لیے سفارتی تعلقات کو بحال کیااورمختلف ادوار میں الاقصی وقدس جیسے نامون سے صنادیق قائم کئے ۔حالیہ دنوں میں بھی ملک سلمان نے ساہم پلیٹ فارم کے ذریعہ ملک بھر میں عطیہ جمع کرنے کا اعلان کیا جس کے اندر سعودی عوام اور حکومت نےہمیشہ کی طرح دل کھول اپنا عطیہ پیش کیا۔ غرض کہ فلسطینی مسلمانوں کی مدد میں سعودی عرب نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا اور مصیبت کی ہر گھڑی میں مدد کی،،، اور انہیں بے یار ومدد گار نہیں چھوڑا.
اللہ تعالیٰ فلسطینی مسلمانوں کی غیبی مدد فرمائے اور سعودی عرب کو مزید استحکام بخشے

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *