قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف-
ابصار عالم آبشار –
9117638207
اس شعر میں علامہ اقبال نے بڑا فکر آموز پیغام دیا ہے جو زوال آمادہ اور ترقی یافتہ اقوام کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے –
قوموں کے عروج و زوال میں تخیل کی بلندی اہم کردار ادا کرتی ہے جب کہ تخیل کا فقدان قوموں کے زوال کا پیش خیمہ ہے
جب افکار و خیالات اوج ثریا پر ہوتے ہیں تو قومیں عروج و ارتقاء کی نصف منزل خود بخود طے کر لیتی ہیں باقی نصف منزل یقیں محکم و عمل پیہم کے ذریعے طے ہو جاتے ہیں –
کیونکہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور دور تک مار کرنے والے میزائلز کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا نظام تعلیم گرا دیا جائے اور استعداد تخیل ختم کر دیا جائے وہ قوم خود غلام بن جائے گی اور متحرک لاشوں کی مانند بکھری ہوئی نظر آئے گی جیسا کہ پیر زادہ قاسم نے کہا –
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں –
جو سونچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں –
ایک انسان جب اپنے اندر راہ تخیل کو مبسوط کرتا ہے تو وہ خیال ایک منصوبہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر منصوبہ جماعت کی، جماعت ہدف کی، اور ہدف قوم کی شکل اختیار کرتے ہوئے صدیوں پر محیط ہوکر یہ پیغام دیتی ہے
ہم نے روندا ہے بیا بانوں کو صحراؤں کو-
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں-
ہم سے واقف ہے یہ دریا یہ سمندر یہ پہاڑ-
ہم نئے رنگ سے تاریخ کو دہراتے ہیں –
جب انسان نے اس کرہ ارض پر قدم رکھا تو اپنے گرد کی چیزوں پر نظر ڈالی بڑے بڑے پہاڑ اور ان کے اندر سے لاوا کا نکلنا، ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، ندیاں، طوفان، بارش، چاند، ستارے، اور سورج کا طلوع و غروب، زندگی اور موت کے ہونے کا احساس،
جب انسانوں نے اس پر غور کیا تو اس نے یہ محسوس کیا کہ کوئی ایسی قوت ہے جو اس کائناتی نظام کو چلا رہی ہے – اس کی اسی فکر نے ایک راہ دکھائی اور زینہ بہ زینہ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے فنا و بقا، یقینیت و غیر یقینیت، تہذیب و معاشرت، سماج کی نا انصافی، جبر و استحصال اور عدم مساوات، حال و استقبال، اساطیر ماضی، اور فکر و فلسفے جیسے موضوعات کو شامل کیا اور ثبوت دیا کہ تخیلات کی کشادگی اور حوصلوں کی پرواز سے انسان نے کیا نہیں کر دکھایا!
پہاڑوں کے درمیان سے راستے نکالے، سمندر کے سینے چیر کر اپنے لیے گزر گاہیں بنالیں، انتہائی مستحکم قلعوں کو تسخیر کر لیا، شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا، بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے، افواج عدو کے سامنے کشتیاں نذر آتش کر ڈالیں، سکت بازو کے ذریعے طوفان کے تھپیڑوں کا رخ موڑ دیا-
اور عہد رفتہ کی نسلیں ایسے بہت سے کار ہائے نمایاں انجام دے کر گزر چکی ہیں –
عہد حاضر کی نسلیں جو کہ خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہیں اگر وہ بیدار ہو جائیں تو عین ممکن ہے کہ حالات مختلف ہوں کیونکہ زندہ قومیں حالات کی گردشوں سے مایوس نہیں ہوا کرتیں نسلوں کی عیش پرستی اور مادیت پرستی سے نا امید نہیں ہوتے بلکہ بھرپور جوش کے ساتھ انھیں جگانے کی کوشش کرتے ہیں-
جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا –
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے-
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی-
اگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال نامساعد ہیں، افلاس و نا مرادی ہماری نگاہوں کے اطراف چکر لگا رہی ہیں، جبر و استحصال سر چڑھ کر بول رہا ہے، مسلمانوں کو ہراساں اور بے کسوں کو مضطرب کیا جا رہا ہے، اقتدار پر متمکن خونخوار درندے پیرہنِ نخوت میں ملبوس نظر آ رہے ہیں، ستم بالائے ستم کی باد سموم کا جھونکا چل پڑا ہے، ملک کی ثقافت و سالیمت ظلمتوں کے عمیق غار کے دہانے کھڑی ہے تو اس کے پیچھے مکمل ایک صدی کی جہد مسلسل، یقیں محکم، عمل پیہم، کچھ کر جانے کی فکر، بے لوث و بے انتہا کد و کاوش، صدیوں کی ہم آہنگی اور نت نئے افکار و تخیلات کار فرما ہیں – لیکن ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں تبھی تو صبیحہ خانم صبا نے کہا –
اُدھر ہر آن استقبال افکار تر و تازہ-
اِدھر ہم سرنگوں ماضی تمنائی میں جیتے ہیں-
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/