اپنے منہ میاں مٹھو بننا
ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب بھی وہ اپنے ساتھیوں، دوستوں، پڑوسیوں یا پھر کسی مجلس میں ہوتے ہیں تو وہ اپنی شان میں قصیدہ خوانی شروع کردیتے ہیں اور ایسی چرب زبانی کرتے ہیں کہ سودا اور ذوق جیسے ماہر قصیدہ گو کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔لیکن فرق صرف یہاں پے یہی رہتا ہے کہ سودا اور ذوق کسی دوسرے کی شان میں تعریف و توصیف کرتے تھے لیکن ایسے لوگ خود اپنی شان میں اپنی زبان سے ہی تعریف و توصیف کا پل باندھنے لگتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو فکرو شعور، بصیرت و دانائی، عقل و خردمندی ، فصاحت و بلاغت اور صلاحیت و قابلیت جیسے حسین و جمیل القاب کا لبادہ پہناکر اپنے آپ کو بلندی کے معراج پر تصور کرتے ہیں ۔ اور دوسروں کی شخصیت میں انہیں یہ ساری صفات نہیں ملتی اس لئے وہ اپنے سے علاوہ لوگوں کی ذات میں نقص اور کمی نکال کر وہ ایک طرح کی طمانیت محسوس کرتے ہیں ۔ان کی انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں ۔اپنی ذات میں انہیں دیکھنے اور غور و فکر کرنے کا موقع میسر نہیں ہوتا یا پھر وہ اپنی ذات کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح سے انہیں بہت مزہ آتا ہے اپنی ذات ہر طرح کے نقائص، عیوب اور لغزشوں سے مبرا و منزہ نظر آتی ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کے ایسے لوگ گھنٹوں دوسروں کی غیبت و چنغلی کرتے رہیں لیکن انہیں تھکاوٹ و اکتاہٹ کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ ان کی باتیں اور زیادہ مزیدار، دلچسپ اور خوبصورت ہوجاتی ہیں جب وہ اپنی جھوٹی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اردو لسان و زبان کی دنیا میں ایسے شخص کو اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہا جاتا ہے۔جب کہ انگلش لسان و زبان کی دنیا میں ہم اسے self praise no recommendation ۔کے نام سے جانتے ہیں اردو میں اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ’’اپنی ذات کے حوالے سے کی گئی تعریف کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا‘‘ہمارے سماج و معاشرے کے اندر بھی ہم نے لوگوں کو اکثر کہتے ہوئے سنا کہ تعریف تو وہ ہوتی ہے جو دوسرے لوگ کرے ۔ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ سونا اور ہیرا کبھی اپنے آپ کو یہ نہیں کہتا کہ میں سونا ہوں ،میں ہیرا ہوں بلکہ لوگ اسے پہچانتے ہیں اور اس کی قدر و قیمت طے کرتے ہیں اور اگر مٹی و کوئلہ اپنی پوری صلاحیت صرف کردے کہ وہ بہت قیمتی ہے لیکن پھر بھی لوگ اسے گھاس تک نہیں ڈالیں گے ۔ایسے لوگوں کو جاننا چاہئے کہ آج کا زمانہ سائنس و ٹکنالوجی اور مقابلہ و مسابقہ کا زمانہ ہے اور جب تک ایک انسان اپنی تجربات ،مشاہدات اور اعمال و افعال سے یہ ثابت نہیں کرتے کہ وہ فکر و شعور اور صلاحیت و قابلیت کے اعلی مقام پر فائز ہیں اس وقت تک لوگ انہیں جملہ باز ،پھیکو ،ڈنگ مار اور میاں مٹھو جیسے القاب سے پکارتے ہیں ۔اس لئے ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا وقت ڈنگ مارنے سے بچاکر اسے صحیح طرح سے استعمال کرے اور شھادت و دلیل کی بنیاد پر اپنی فصاحت و بلاغت کی عمارت کھڑی کریں تب لوگ خود بخود آپ کی شان میں گلہائے عقیدت اور خراج تحسین پیش کریں گے ورنہ ایسے لوگوں کی حالت اس دھوبی کے گدھے کی طرح ہوتی ہے جو نہ تو گھر کا ہوتا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا ۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/