غرور اور تکبر کی کہانی دلائل کی زبانی

غرور اور تکبر کی کہانی دلائل کی زبانی

 

  ذیشان الہی منیر تیمی

مانو کالج اورنگ آباد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکبر،کبر، غرور، گھمنڈ اور دکھاوا بظاہر تو یہ کئی سارے الفاظ ہیں جو الگ الگ نظر آ رہے ہیں لیکن یہ سارے الفاظ تقریبا ہم معنی و مفہوم ہیں ۔ تکبر اور غرور ایسی خصلت ہے کہ اگر یہ کسی انسان کے فکر و شعور پر حاوی ہوگیا تو اس شخص کی زندگی اس درخت کے مانند ہوجاتی ہے جو بظاہر تو تناور درخت ہوتا ہے لیکن اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے اورکوئی آندھی آکر اسے “کانہ اعجاز نخل خاویۃ “کی عملی تصویر بنا دیتی ہے ۔

         غرور اور تکبر کی تاریخ ابلیس لعین سے شروع ہوتی ہے جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو بنایا اور ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا(فاسجد لآدم) تب ابلیس کے اندر تکبرکی نفسیات نے جنم لیا اور اس کے بعد اس نے جو کام کیا اس کو قرآن یوں بیان کرتا ہے “فابی واستکبر و کان من الکافرین “کہ اس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا اور وجہ انکار قرآنی برہان کے مطابق یہ تھی “خلقتنی من نار “کہ اے اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا۔تو چونکہ آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا تھا اس لئے ابلیس اپنی شخصیت کو اعلی و بالا سمجھا اور سجدہ سے انکار کیا ۔چنانچہ اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے اس کے سارے اعمال صالحہ کو نیست و نابود کردیا ۔

     ابلیس کی شخصیت سے رونما ہونے والی یہ صفت رفتار زمانہ کے ساتھ چلتی رہی کبھی اس کی وجہ کر طوفان نوح آتا ہے اور نوح علیہ السلام کا خود کا بیٹا اس میں اس صفت کی وجہ کرغرق ہوجاتا ہے تو کبھی نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور قارون جسے بڑے بڑے سلطنت کے مالک کی اللہ نے اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ کبھی فصاحت و بلاغت کے ٹھیکداروں کو اپنی عربی زبان دانی پر تکبر و غرور ہوا تو اللہ نے “فاتوا بسورۃ من مثلہ “کہہ کر چیلنز کیا کہ اگر تمہیں اتنی عربی آتی ہے اور تمہیں عربی و زبان و بیان  کے اندر مہارت تامہ حاصل ہے تو تم قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا کردکھا دو لیکن ان سقراط اور بقراط کے جھوٹے رشتہ داروں نے اپنی پوری صلاحیت صرف کردی مگر ایک آیت نہ بنا سکے تب قرآن نے ان کی فصاحت و بلاغت اور جھوٹی زبان دانی کا پول کھولتے اعلان کیا “قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا “کہ اگر پورے انسان اور جن اس بات پر متفق ہوجائے کہ وہ قرآن جیسی کوئی کتاب لے آینگے مگر وہ پھر بھی نہیں لا سکتے گرچہ وہ ایک دوسرے کے حامی و مددگار کیوں نہ بن جائے ۔توکبھی ابوجہل اور ابولہب کی دردناک موت اور 313 کے مقابلہ میں 1000 کو رسوا اور ذلیل ہونے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تکبر ا دراصل اس کینسر کی مرض ہے جو انسان کو لگ جائے تو اس کا رام نام ستیہ ہوجاتا ہے ۔

       تکبر کی  تاریخ کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے اور اس سے ہونے والے نقصانات کو جاننے،سمجھنے اور ان پر یقین رکھنے کے باوجود آج کل ہمارے سماج و معاشرے میں بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جن میں سے کوئی اپنی دولت پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی سلطنت پر، کوئی اپنے علم پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی فصاحت و بلاغت والی جھوٹی زبان پر  لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سب چیزیں ایک چھاؤں کی مانند ہے جس نے کسی سے کبھی بھی وفا نہیں کی کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے لوگ سمندر کی بھنور سے پیدا ہونے والی اس چھاگ کے مانند ہے جسے اللہ رب العالمین جب چاہتا ہے اسی بھنور میں ڈبو دیتا ہے ۔

اس لئےمیں اپنے  تمام قارئین سے اپنے اس مضمون کے ذریعے کہنا چاہونگا کہ آپ اپنے دل و دماغ  سے غرور اور تکبر کا وائرس نکال دیں کیونکہ عزت، شہرت، دولت ، سلطنت اور علم یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا اسے عنایت کرتا ہے ۔اس لئے آپ کبھی بھی اپنے آپ کو زیادہ عزت دار، زیادہ شہرت کا مالک، زیادہ فصیح و بلیغ، زیادہ لسان و زبان پر قدرت رکھنے والا ، زیادہ قابلیت و صلاحیت کا مالک جیسے تکبرانہ بات کہہ کر دوسروں کو نیچا دیکھانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اگر ایسی سوچ بھی آئے تو اس سے اللہ کی پناہ طلب کریں اور شیطان مردود کی خصلت اپنے اندر پیدا کرنے سے بچیں ۔اگر آپ کے پاس یہ ساری چیزیں ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں کہ انہوں نے آپ کو ایسی نعمتوں سے نوازا اور اس کے بعد امت ،سماج و معاشرہ اور ملک و قوم کی صلاح و فلاح کے لئے کام کریں ۔اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جب مل جائے جائے تو پھلدار درخت کی مانند بن جائے کیونکہ  ؎  صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے یپمانہ ۔

 

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *