روزہ ڈھال ہے

 

 

روزہ ڈھال ہے

 

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

استاد جامعۃ الہدی الإسلامية ، کولکاتا

 

اللہ تعالی نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر183سے آیت نمبر187تک روزہ،ماہ روزہ اور روزہ دار سے متعلق احکام و مسائل کوبیان فرمایا ہے۔روزے کی فرضیت کی غرض و غایت آیت نمبر 183 میں حصول تقوی کو قرار دیا ہے،نیز وجوب صوم کے اسی مقصود اصلی کو روزہ کے متعلقہ احکام و مسائل کو بیان کرنے کے بعد آیت نمبر 187 میں دوبارہ ذکر کرکے مؤمنوں کو اس بات پرآگاہ کیا ہے کہ روزے کو فرض کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ روزہ روزےدار کے اندر معاصی و سیئات،محرمات و محظورات اورنفسانی شہوات و خواہشات سے مکمل طور پر اجتناب و احتراز کا داعیہ پیدا کردے ۔روزہ روزےدار کے اندر نفس امارہ سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اسپرٹ پیدا کردے ۔ روزہ روزےدار کے اذہان و قلوب کوکبر و نخوت،غرور و گھمنڈ اور فخر و مباہات جیسے ابلیسی افکار و خیالات سے پاک و صاف کرکے ان کے اندر محتاجی و دست نگری، تواضع و انکسار،فروتنی و خاکساری اوراخوت و خیرسگالی کے حسین جذبات واحساسات کو برانگیختہ کردے۔روزہ رکھ کر بندہ منہیات و محرمات سے گریزاں ہوکر مامورات و مطلوبات کی ادائیگی کر کے اپنے اور جہنم کی آگ کے درمیان مضبوط و مستحکم بند باندھ دے۔ روزہ دار روزہ کو ڈھال بناکر شیطانی وار سے دلیرانہ اپنا بچاؤ اختیار کرکے اسے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں خائب و خاسر بنادے۔

 

ایک روزہ دار جب روزہ کے مقتضیات و مطالبات کو باحسن طریق پورا کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو یقیناً روزہ اس کے نہاں خانہ دل میں اس شیریں احساس کو پورے آب وتاب کے ساتھ بیدار کر دیتا ہے کہ وہ خالق کائنات،مالک ارض و سماوات کا ایک لاچار و عاجز بندہ ہے۔وہ اس کی مرضی کے بغیر شدید گرمی میں شدت بھوک و پیاس کے باوجود کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی زیر حلق نہیں اتار سکتا۔ اذان فجر سے کھانا پینا اور جماع جیسے نفس کے چند بنیادی مطالبات پر حرمت کا قفل لگتے ہی یہ احساس بندگی پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے اور بتدریج بڑھتے بڑھتے افطار کے وقت تک اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے۔یہ کس قدر خوبصورت احساس عبدیت ہے کہ گرمی کی شدت میں ایک روزہ دار کی آنت قل ھو اللہ پڑھتی ہے،انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں ،پر ہاتھ لگانا تو دور کی بات اس کے ذہن کے کسی زاویےمیں بھی یہ خیال نہیں پھٹکتا۔ پیاس کی شدت تنگ کرتی ہے،حلق چٹختا ہے،برفاب میسر ہے چاہے تو آسانی سے پیاس بجھا سکتا ہے پر نہیں بجھاتا۔نئی نئی شادی ہوئی ہے،میاں بیوی جوان ہیں،جنسی جذبات پوری قوت کے ساتھ اپنی تسکین کا مطالبہ کرتے ہیں، تنہائی میسر ہے، چاہے تو اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکتا ہے مگر نہیں کرتا۔احساس بندگی اسے اپنے معبود کے حقوق میں ادنی سی خیانت کا مرتکب ہونے سے بچاتا ہے۔روزہ ڈھال بن کر اسے فرج و بطن کے داعیات کی تکمیل اور دیگر تمام محظورات سے روکتا ہے۔ اس طرح روزہ دار اپنے تمام افکار و خیالات،عادات و اطوار،اخلاق و کردار اور اقوال واعمال میں آزادی و خود مختاری سے دستبردار ہوکر مکمل تسلیم و رضا ء کے ساتھ رب کائنات کی فرماں روائی کے سامنے سپرانداز ہو جاتا ہے۔

 

روزہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ ڈھال بنکر روزہ دار کی ہر قسم کی جسمانی،نفسانی ودنیاوی لذائذ و خواہشات سے حفاظت کرتا ہے۔غلط بیانی،جہالت و نادانی اور لاف و گزاف سے دور رکھتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (والصيام جنة، وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب فإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني إمرؤ صائم) (البخاري : 1904 ) “روزہ ڈھال ہے۔ اور تم میں سے کوئی شخص جب روزے کی حالت میں ہو تو وہ نا شائستہ و غیر مہذب بات نہ کرے،لڑائی جھگڑا و شور و ہنگامہ سے پرہیز کرے، اور اگر کوئی شخص اسے گالی گلوچ کرے یا اس سے آمادۂ پیکار ہو تو وہ کہے : میں روزے سے ہوں” ۔

 

 

روزہ کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ شہوات اور معاصی و سیئات سے روکتا ہے اور اسی طرح جہنم سے بھی بچاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (الصيام جنة من النار كجنة أحدكم من القتال)(النسائي: 2231، ابن ماجة: 1639، و صححه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب: 982 ) ” روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص جنگ سے بچنے کیلئے ڈھال لیتا ہے”۔

 

روزہ دار کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر اس کی نشست و برخاست،حرکات و سکنات،کردار و گفتار اور عادات و اطوار میں روزہ کے بنیادی ثمرات و نتائج ظاہر نہ ہوں، روزہ سے روحانی شفا یعنی تقوی، تسبیح و تقدیس، تکبیر و تہلیل، اور حمد و ثنا حاصل نہ ہو، مطلوبات روزہ کی تکمیل اور ممنوعات روزہ سے اجتناب نہ ہو تو حقیقت میں وہ روزہ نہیں بلکہ فاقہ کشی ہے اور ایسا روزہ دار فاقہ کش ہے،جس کو بھوک و پیاس کی تکلیف کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔اور اللہ تعالی کے نزدیک ایسے روزےدار کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (كم من صائم ليس من صيامه إلا الظمأ و كم من قائم ليس من قيامه إلا السهر) “کتنے روزےدار ایسے ہیں جن کو بجز تشنگی کچھ حاصل نہیں، اور کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے تہجد سے بجز بیداری کچھ فائدہ نہیں”۔ ( تخریج مشکاۃ المصابیح :1956-قال الألباني : إسنادہ جید )

 

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاصی و سیئات کے ارتکاب، نفسانی خواہشات کی پیروی، کذب و زور ، عصیان و طغیان اور بیہودہ گوئی سے روزہ نہیں ٹوٹتا،مگر یاد رکھنا چاہئےکہ دل و روح کا روزہ ضرور ٹوٹ جاتا ہے اور جب قلب وروح کا روزہ باقی نہ رہے تو جسم کا روزہ بے سود ہے اور محض جسم کے روزے سے اللہ کو کوئی سروکار نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه ) “جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے “(بخاری : 1903 ) اور ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ليس الصيام من الأكل والشرب، إنما الصيام من اللغو والرفث، فإن سابك أحد أو جهل عليك فقل: إني صائم إني صائم ) “روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزے کی حالت میں بےہودہ گوئی و بے حیائی کو چھوڑنا بھی روزے میں شامل ہے، پس اگر تمہیں کوئی شخص گالی دے یا بد تمیزی کرے تو تم کہو :میں تو روزے کی حالت میں ہوں،میں تو روزے کی حالت میں ہوں”۔ (صحیح الترغیب والترھیب :1082)

 

اس لئے روزہ دار اگر حقیقی معنوں میں ا پنے روزے کے فوائد و ثمرات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے واجب و ضروری ہے کہ روزے کے مقتضیات و مطالبات کو پورا کرے اور روزہ مخالف تمام چیزوں سے گریز کرے۔یہی روزہ کا اصل مقصود و مطلوب ہے۔اور یہی روزہ کے ڈھال ہونے کا مطلب بھی ہے۔

 

شکریہ

 

 

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *