سنا ہے میرے شہر میں پھر عید آنے کو ہے

سنا ہے میرے شہر میں پھر عید آنے کوہے

تمیم اختر نورالعین السلفی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ رب العالمین کا بے پناہ احسان ہیکہ اس نے ہم مسلمانوں کو بہت ساری خوشیاں عنایت کی ان خوشیوں میں سب سے بڑی خوشی دو عیدیں ہیں جسے ہم عید الفطر اور عید الاضحٰی کے نام سے جانتے ہیں یہ خوشی کی ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے جسے پاکر ہر گھر ہر محلہ ہر گاؤں اور پورے مسلم ممالک میں خوشی اور جشن منانے کا ایک حسیں موقع اور ایک حسیں گهڑی ہوتی ہےاور حضرت انسان بھی اس کا مکمل لطف اٹھاتے ہیں اور بڑے ہی مزے اور شان و شوکت سے اس تہوار کا استقبال کرتے ہیں گهڑ کے ہر فرد کے چہرے پر خوشی اور لبوں پہ مسکراہٹیں ہوتی ہیں اور یہ خوشیاں ایک آدمی کو اسی وقت میسر ہوتی ہے جب ان کے والدین باحیات ہوتے ہیں اور انکی عیدیں گهر کے آنگن اور ماں کی آغوش میں ہوتی ہیں تب عید کی پوری خوشیاں رنگ لاتی ہیں. ………

خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں

جہاں بجتی شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں. ……..

کسی گهر آنگن کی خوشیاں اتنی ہوتی ہے کے ان سے سنبھالی نہیں جاتی -تو دوسری جانب وہی عیدیں کسی گهر میں سسکیاں آہٹیں اور ماتم بن کر آتی ہیں عید کے آتے ہی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں دل کا دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے بے چینیاں بڑھ جا تی ہیں

سونچ و فکر لاحق ہو جاتی ہیں کرے تو کیا کریں؟ زبان سے فوراً یہ بات نکل جاتی ہے -اے چاند تیرا نکلنا بھی کیا ضروری تھا؟ کچھ تاخیر کر دیا ہوتا تاکہ ہم اپنے بچوں کیلئے نئے لباس اور عید کے اخراجات کا بندوبست کرلیتے معصوم بچے بچیاں اپنے والدین کو اپنے سوالات کے کٹگھڑےمیں کھڑے کر دیتے ہیں اور وہ مجبور باپ غریبی کا جرم اقرار کرکے اپنے بچوں کے مطالبات نہ پورے کرنے کی جرم میں اپنی قیمتی آنسوؤں کا نذرانہ بهڑی محفل گراکر اپنی سزائیں کاٹ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے -تو بسا اوقات یہ غریبی کا جرم موت کا سبب بن جاتی ہے اور ایک مجبور باپ خود کشی کر نے کیلئے مجبور ہوجاتا ہے ….

غریب لوگوں کے عمر بھر کی غریبی مٹ جائے اے امیروں

بس ایک دن کیلئے اگر تم ذرا سا خود کو غریب کر لو. ……

آج عیدیں اسی کی ہیں جس کے پاس پیسے ہیں ساری سہولیات فراہم ہیں وہ دور نبوی ﷺ تھا جب غریبی پر بھی ناز ہوا کرتا تھا اور یتیم ہونا بھی باعث فخر محسوس ہوتا تھا کیونکہ غریبوں اور یتیموں کا رکھوالا خود نبی پاک ﷺ کیا کرتے تھے ایک حساس واقعہ آپکی عدالت میں پیش کر رہا ہوں دور نبوی ﷺ میں ایک مرتبہ عید کے موقع سے ایک بچہ پر نظر پڑی جس کے چہرے پر غریبی و یتیمی کے مہر لگے ہوئے تھے انکے سوالات نے اللہ کے نبی کی آنکھیں اشکبار کردیں نبی کریمﷺ اس کو گود لےکر ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے کے پاس لے گئے اس بچے کو عید کیلئے تیار کیا گیا اور نبی پاک اپنے ساتھ عیدگاہ لے گئے اور تسلی دی بیٹا کوئی فکر مت کر تیرا باپ محمد ﷺ اور تیری ماں عائشہ ہے وہ دور وہ زمانے نبوت کو دیکھ کر بچے اپنی غربت اور یتیمی پر بھی ناز کیا کرتے تھے؟

لیکن یہ دور حاضر جس سے ہم گزر رہے ہیں یہاں غریب ہونا بھی ایک جرم ہے اور یتیمی جان لے لیتی ہے یہاں نہ کسی کا کوئی حامی ہے نہ کوئی مددگار۔

ذرا ایک نظر پردیسیوں کی عید پر ڈالیں تو پتہ چلے گا انکی عیدیں بھی اسی غریب اور مجبور بچے کے مانند ہوتی ہیں جو مذکور ہیں کیونکہ یہاں نہ کوئی گلے ملنے والا اور نہ وہ ماں ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کو سنوار کر عید گاہ روانہ کرتی ہیں حالانکہ پردیس میں اور کوئی کمیاں نہیں وہ قیمتی لباس اور وہ بادشاہی والا کهانا بھی ہوتا پهر بھی عیدیں عام دنوں کے طرح رخصت ہوجاتے ہیں یہاں نہ کوئی هنگامہ نہ والد محترم کے ہاتھ کی عیدی ماں کا آنکھوں میں سرمہ لگانا یہ ساری یادیں درد بن کر رہ جاتی ہے اور درد دل کو تسلی ہی دینے میں یہ تہوار ہم سے رخصت ہوجاتا ہے پهر سوچتے ہیں چلو ایک دن کا ہی تو عید تھا؟ ممکن پهر زندگی میں عید آئے اور گهر پر رہوں اور ساری خوشیاں ملیں.

     یا رب العالمین ہمارے بیچ سے غریبی کا خاتمہ کردے اور ہمارے مسلم معاشرے میں خوشحالی پیدا کردے اور ہمیں ایک دوسرے کیلئے ہمدردی و جاں نثاری کا جذبہ عطا فرما آمین

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *