ھندوستانی مسلمان اور انسانیت
عبدالعزیز تیمی صندلی گوپال گنج
اس دور میں ہر ایک شخص اپنےآپ کو انسایت کا دم بھرنے والا سمجھ رہا ہے لیکن واقعات و حادثات اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ یہ جو دعوی پیش کیا جارہا ہے بالکل بے بنیاد ہیں اس روئے زمین پر بسنے والا انسان چاہے وہ جس ملک میں رہتا ہواس کا مذہب کوئی سا بھی ہو لیکن جب انسانیت کی بات آتی ہے تو وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اگر قلم کو حرکت دینے کی ضرورت پڑے تو ہزاروں صفحات سیاہ کر ڈالتا ہے بولنے کی ضرورت پڑے تو ہزاروں منٹ بولتا ہے بد قسمتی سے اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ پہلے انسانیت پھر اس کا مذہب پھر اس کا ملک اس کے بعد اس کی برادری یاذات۔مگر انسان کے سارے اعمال اس کے بر عکس نظر آرتےہیں
مذہب اسلام کے ماننے والے اس دنیا میں جہاں بھی بستے ہیں ان کے لئے تو ایک ناحق خون کا قطرہ بہانا پوری دنیا کے لوگوں کے ناحق خون بہانے کے برابر ہے پھر بھی مسلمان اس میدان میں اس قدر آگے نکل چکا ہےکہ اس کے ذکر سے روح کانپ جاتی ہے ملک عزیز ہندوستان کے اندر جہاں بہت سارے مذاہب و مسالک کے لوگ رہتے ہیں وہ وہیں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی ذاتیں بھی ہیں اس ہندوستان کے صرف مسلمان کی بات کی جائے تو اس میں بھی کئی ذاتیں ہیں ان میں کوئی اپنے آپ کو بڑا بنا لیا ہے تو کوئی اپنے آپ کو چھوٹا تصور کرلیا ہے ایک اعتبار سے یہ تقسیم غلط نہیں ہے لیکن صرف اس کو بنیاد بنا کر کہ میں اس برادری سے تعلق رکھتا لہذا مجھے ہی سارے معاملات میں پیش پیش رکھاجائے اور یہ نچلے طبقے کے ہیں ان کو صرف بطور انسان ساتھ میں شامل کر لیا جائے اسی غلط سوچ نے مسلمانوں کو اس قدر اندر سے خالی کر دیا ہے کہ جیسے ڈھول ہوتا ہے اس کے آگے پیچھے پردہ بیچ میں خالی مسلمانوں کی اس غلط فہمی نے نہ صرف ان کی آپسی بھائی چارہ کو ختم کیا ہے بلکہ اس ناسمجھی نے دینی مراکز ،مدارس، اورمساجدورمساجدورمساجد کی تعمیر وترقی میں رکاوٹ کا اہم سبب بن گیا ہے ایک تو مسلمان مسلکی جال میں اتنی بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اس کی بھی تلافی ناممکن ہے خصوصا برصغیر ہندو پاک کے مسلمان، مساجد جن کی تعمیر کا مقصد صرف اور صرف عبادت الہی ہے لیکن افسوس کہ اس ملک کے مساجد میں جب آپ پاؤں رکھیں گے دروازے کے سامنے ایک بڑے سے بورڈ پر لکھا ہوگا یہ فلاں مسلک کی مسجد ہے غیر مسلک اندر نہ آئیں دوسری مسجد میں جب آدمی جائے گا وہاں پر بھی اسی قسم کےالفاظ نقش ملیں گے اس قسم کی حرکت کو انجام دینے میں پڑھے لکھے جاہل کا اہم کردار ہوتا ہے جو دوسرے کو جاہل اور بد دین کہتے ہوئے گھومتا پھرتا ہے حالانکہ مذہب اسلام نے ان کو کالے اور گورے انسان میں بھی تفریق کر نے سے منع کیا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موت کے وقت جن اہم چیزوں کی طرف بار بار تاکید کر رہے تھے ان میں یہ بات بھی شامل تھی
آج پوری دنیا میں ہر فرد انسانیت کے حقیقی معنی سے متعارف ہونے کا متمنی ہے مسلمان تو اس کے مزید حاجت مند ہیں چاہے وہ جس ملک میں ہیں ہندوستان کے اندر موجودہ حالت میں اس کی اشد ضرورت ہے یہ وہی مسلمان ہیں جن کی شناخت انسانیت سے ہوتی تھی کلمہ گو شخص ان کا بھائی ہوتا تھا
چلتے پھر تے انکی تعریف انسانیت کے اصلی رہبر سے ہوتا تھا ان کو دیکھ کر مشرک اپنے آپ میں شرمندگی محسوس کرتا تھا انکے لئیے مساجد و مکاتب انتظام کرتا تھا آج انکی مساجد و مکاتب کو منہدم کر رہا ہے انکے آگے اپناپنا سرخم کرتا تھا آج مسلمان کو دیکھتے ہی انکے دلوں میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکنے لگتاہے اب تو حالات ایسے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان بتانے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے ابھی رمضان المبارک کا مہینہ مکمل کیے ہیں جس کامقصد صرف اورصرف انسانیت کے معنی ومفہوم سے متعارف کرانا ہے ورنہ اللہ تعالی کو آپ کے کھانے پینے سے روکنے کا مقصد نہیں ہے روزہ سے نفسیاتی کیفیت کی اصلاح صدقہ و خیرات سے غریب ومسکین کی دلجوئی کرنا ہے، اگر اس مہینہ کو انسانیت کے تحفظ و بقاء کا مہینہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا
مسلمانوں ابھی بھی وقت ہے کہ و اپنے آپ کو انسانیت کے حقیقی معنی میں ڈھال لیں اپنے اندر ذات و برادری والی بغض و عناد کو نکال کر پھینک دیں مساجد ومدارس کے دروازے ہر ایک شخص کےلئے کھول دیں وقت کتنا ہی برا کیوں نہ ہو پہلے انسانی خون کی حفاظت کریں ورنہ ہزاروں جلسے کرڈالیں تحفظ انسانیت کے نام سے یا ہزاروں صفحات سیاہ کر ڈالیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو نے والا ہے۔
اللہ ہم سب کے اندر انسانی ہمدردی کو پیدا کردے ہمارے دینی مراکز مدارس ومساجد کو آپسی رنجش اور ظالموں کی نظر بد سے محفوظ رکھ آمین
عبدالعزیز تیمی صندلی گوپال گنج
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/