*تمام عمر اسی دھن میں کٹ گئ ماہر*
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دولت وثروت, راحت وآرام, پرتعیش زندگی, سامان عیش وعشرت کے حصول میں منہمک انسان متاع حیات کے قیمتی حصے کو گنوانے کے بعد جب ہوش میں آتا ہے تب بھی اسکے حضور آرزؤں اور تمناؤں کی ایک طویل فہرست اور حصول لذات وشہوات کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے جسے تسکین وطمانیت سے خداواسطے بیر ہوتا ہے
خواہشات ولذات اور مرفہ الحالی کی چاہت انسان کو جنگل وبیابان ,بحر وبر ,خشک وتر کی آبلہ پائ پر صرف مجبور نہیں کرتی بلکہ انسان کو سرگرداں اور حیران وپریشان کرکے ہی چھوڑتی ہے ایسے عالم میں انسان اپنی خود کی ذات پر پڑنے والے منفی ومضر اثرات کا جائزہ بھی نہیں لے پاتا
مرور زمانہ کے ساتھ اسکے قدوقامت متزلزل , قوی مضمحل, اعضاے بدن نحیف ونزار ہوجاتے ہیں اور اسکا رنگ وروپ بھی تبدیلی سے دوچار ہوجاتا ہے حتی کہ عمر گزرجاتی ہے مگر وہ ہوشیار نہیں ہوتا یہاں تک کہ قبر کا وحشتناک دھانۂ خاک اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے پھر آواز اٹھتی ہے 《
《”الھکم التکاثر● حتی زرتم المقابر ●کلا سوف تعلمون● ثم کلا سوف تعلمون● 》 سورۃ التکاثر 1 2 3 4
*کثرت لذائذ وفوائد دنیوی کی غفلت نے تمھیں بیدار ہونے نہیں دیا یہاں تک کہ قبروں کا چہرہ تمھیں نظر آگیا*
*مال ودولت کی حرص ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئ ہے اور یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان حلال وحرام کے تمام اصول ومبادیات کو بروۓ کار لاتے ہوۓ اکتساب مال کے عمل میں مشغول ہو (چنانچہ اسی طریقہ سے تحصیل مال خیر کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے “وانه لحب الخیر لشدید “العادیات 8)لیکن خضرات دنیا کا اس قدر حریص وطماع ہوجانا کہ آخرت بالکل فراموش, حق وناحق کی تمیز ختم, ایمان اور دیگر حلال اصول ومبادیات بالاۓ طاق رکھ دئیے جائیں تو یہ سراسر غلط اور ابدی خسارے میں لیجانے والا ایسا عمل جسکے چند عارضی ودنیوی فوائد کچھ حد تک تو مل سکتے ہیں لیکن اخروی خیر سے محرومی اس عمل بد کے مرتکب کو ہاتھ لگے گی*
سورہ قیامہ میں انسانوں کی اسی کیفیت عمل کے متعلق فرمایا کہ انسان کتنے اعذار پیش کرے وہ حقیقت سے باخبر ہوتا ہے اسکے باوجود فریب نفس میں مبتلا ہوکر لذات وشہوات دنیا کا اسیر وقیدی بن کر جھوٹی تسلی کا سہارا اور خدع وفریب سے کام لیتا ہے
لیکن اللہ نے ایسے لوگوں کی پول کھول کر رکھدی ہے
《”بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ
ولو القی معاذیرۃ ●》 القیامہ 14/15”
اور بتادیا کہ کہ رنگینئے دنیا کی چاہت تمھارے دلوں میں رچ بس گئ ہے جسکا مظاہرہ تمھارے حرکت وعمل سے بخوبی ہوتا ہے لیکن تم بہانے بناتے ہو اور فریب سے کام لیتے ہو 《”کلا بل تحبون العاجلۃ ●وتذرون الاخرۃ●》القیامۃ 20/21
اس آیت میں انسانوں کی اس کمزوری کا بیان ہوا ہے جسے
تعجیل منفعت کہاجاتا ہے *جسکی مذمت بھی متعدد جگہ وراد ہے چنانچہ تعجیل منفعت کی اسی بری خصلت نے دنیا کو جہنم زار بنادیا, اخوت وہمدردی اور ایثار ومحبت کا جنازہ نکالنے میں اس خصلت نے اہم اور موثر کردار نبھایا ہے*
*چنانچہ اسی مضر سوچ نے فکر آخرت اور قیام حضور الہی کا خوف وخشیت بھی دلوں سے کافور کیا ہے*
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
《”ان ھولآء یحبون العاجلۃ● ویذرون ورآء ھم یوما ثقیلا●》 “الدھر 27
اسی حرص وطمع ہی کیوجہ سے بسا اوقات انسان خود فراموشی سے خدافراموشی کی جانب چلا جاتا ہے اور دہلیز دنیا پر سر تسلیم خم کرکے ایسا شاداں وفرحاں ہو تا کہ بتدریج وہ نار جحیم کی طرف بڑھتا ہے گاہے بگاہے حوداث زمانہ اور گردش حالات اسے دوچار زخم دیکر اسے اس راہ سے پھیرنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن ان سے آنکھیں پھیر کے اور احساس ومروت کو کچل کر پھر وہ اسی راہ کا راہی ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے
《”بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا● والآخرۃ خیر وابقی ●الاعلی 16/17》
یہ انسان کی ذلت ورسوائ اور اسکی حماقت ہے کہ مستقل اور ابدالاباد فوائدکو نظر انداز کرکے عارضی اور ناپائیدار کے پیچھے بھاگے جسکا انجام سواۓ خسران کے کچھ نہیں ہوتا
یہاں یہ چیز بھی جان لینی لازمی ہے کہ آرزئیں اور تمنایئں بذات خود غلط نہیں ہیں غلط ہے انکو بے لگام اور شتربے مہار کردینا
*یہ حقیقت ہے کہ دنیوی مال ومتاع سے نہ کسی کو ابدی چین ملا ہے اور نہ ہی یہاں کہ رنگینئوں سے کسی کا پیٹ بھرا ہے دنیا تو ایسی جگہ اور ایسی شئ ہے جہاں خواہشیں دم توڑتی ہیں ناہی تمناؤں کا سیل رواں رکتا ہے چاہے قارونی خزانہ یا شدادی زندگی مل جاۓ*
《”لو کان لابن آدم وادیان من مال لابتغی وادیا ثالثا ولا یملآجوف ابن آدم الاالتراب 》
بخاری کتاب الرقاق رقم الحدیث 6439
یہ خواہشیں قبر کی تاریک کوٹھری میں جاکر ہی دم توڑتی ہیں
قدرے توقف اور ادنی سکوت کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ خود سے سوال کیجئے کہ کیا فائدہ ایسی خواہش وطمع کا جو زندگی اجیرن اور چین وسکون غارت کردے سوچئے اور مکرر سہ کرر سوچئے کہیں ایسا نہ کہ تاخیر ہوجاۓ اور جب ہوش آے تب تک دیر ہوچکی ہو پھر اشک ندامت اور حرف ملامت بھی کارگر نہ ہو اور شاعر کے لفظوں میں کہنا پڑے کہ
تمام عمر اسی دھن میں کٹ گئ ماہر
کہ زندگی ابھی سوز وساز باقی ہے
کھلی جو آنکھ تو احساس یہ ہوا خود کو
اذان ہوچکی کب کی نماز باقی ہے
عبدالمبین محمد جمیل ایم اے
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/