سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟

سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟

ریاض فردوسی۔9968012976
یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کے مقام تک جا پہنچا،اُس نے سورج کوپایا کہ وہ ایک دلدل والے چشمے میں ڈوب رہاہے اوراُس کے پاس ایک قوم کو پایا۔ ہم نے کہا:  اے ذوالقرنین! یا تم انہیں سزا دویا ان کے بارے میں تم نیک سلوک اختیار کرو(سورہ الکہف۔86)
 حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ یہ ذوالقرنین کی مغربی علاقوں پر لشکر کشی کا ذکر ہے جب وہ پیش قدمی کرتے ہوئے بحیرۂ روم Mediterranian Sea کے ساحل تک جا پہنچے۔ چونکہ اس زمانے میں ان لوگوں کو پوری دنیا کا نقشہ معلوم نہیں تھا اس لیے وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم اس سمت میں دنیا یا زمین کی آخری سر حدوں تک پہنچ گئے ہیں اور اس سے آگے بس سمندر ہی سمندر ہے۔ وہاں ساحل پر کھڑے ہو کر انہیں سورج بظاہر سمندر میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا اور اس طرح وہ اس جگہ کو مَغْرِبَ الشَّمْسِ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سمجھے۔وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ اس سے Aegean Sea مراد ہے جس کا پانی بہت گدلا ہے۔
حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  کے سفر کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں  نے کتابوں  میں  دیکھا تھا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے سام کی اولاد میں  سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پئے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمۂ حیات کی طلب میں  مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوئے ، اس سفر میں  آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ  کے ساتھ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبھی تھے، وہ تو چشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں  نے اس میں  سے پی بھی لیا مگر حضرت ذوالقرنین رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ کے مقدر میں  نہ تھا اس لئے انہوں  نے وہ چشمہ نہ پایا ۔ اس سفر میں  مغرب کی جانب روانہ ہوئے تو جہاں  تک آبادی ہے وہ سب منزلیں  طے کر ڈالیں  اور مغرب کی سمت میں  وہاں  تک پہنچے جہاں  آبادی کا نام و نشان باقی نہ رہا ، وہاں  انہیں  سورج غروب ہوتے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمہ میں  ڈوبتا ہے جیسا کہ دریائی سفر کرنے والے کو پانی میں  ڈوبتا معلوم ہوتا ہے۔( مدارک، الکہف، تحت الآیۃ:86، ص662، جمل، الکہف، تحت الآیۃ: 86، 252/4-253،ملتقطاً)
عَيْنٍ سے مراد چشمہ یا سمندر ہے حَمِئَةٍ، کیچڑ، دلدل، وَجَدَ (پایا) یعنی دکھایا محسوس کیا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا، اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے دور سے، جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو، غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے حالانکہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔اس آیت کریمہ میں سیدنا ذوالقرنین کے پہلے سفر کا ذکر ہے،اور مطلب یہ ہے کہ اُس وقت مغرب میں دُنیا کی جو آخری آبادی تھی،ذُوالقرنین وہاں تک پہنچے،وہ ایسی جگہ تھی کہ اس کے بعد کوئی آبادی نہیں تھی،اور حدِّ نظر تک سمندر پھیلا ہوا تھا، اور سمندر کی شکل بھی ایک سیاہ رنگ کی دلدل جیسی تھی،اور شام کے وقت جب سورج غروب ہوتا تو دیکھنے والے کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دلدل نما چشمے میں ڈدب رہا ہے۔وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔اگر فی الواقع ذو القرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہوگا جہاں بحرایجین چھوٹی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کے بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کے بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔ذوالقرنین سفر کرتے کرتے ) جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ منظر دیکھا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا «حَمِئَۃٍ» یا تو مشتق ہے «حماۃ» سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی «وَاِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ» ( 15- الحجر : 28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، اور سیدنا حضرت کعب رحمہ اللہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہو جاتا تھا۔
ایک قرأت میں «فِیْ عَیْنٍ حَامِیَۃِ» ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی ، گرم ہوا اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو۔​
إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ :  مراد یہ ہے کہ جانب مغرب میں اس حد تک پہنچ گئے جس سے آگے کوئی آبادی نہیں تھی۔
فِيْ عَيْنٍ حَمِئَةٍ  : لفظ حمئۃ کے لغوی معنی سیاہ دلدل یا کیچڑ کے ہیں، مراد اس سے وہ پانی ہے جس کے نیچے سیاہ کیچڑ ہو جس سے پانی کا رنگ بھی سیاہ دکھائی دیتا ہو۔ اور آفتاب کو ایسے چشمے میں ڈدبتے ہوئے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب اس چشمے میں ڈوب رہا ہے، کیوں کہ آگے آبادی یا کوئی خشکی سامنے نہیں تھی، جیسے آپ کسی ایسے میدان میں غروب کے وقت ہوں جہاں دور تک جانبِ مغرب میں کوئی پہاڑ، درخت، عمارت نہ ہو تو دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آفتاب زمین کے اندر گھس رہا ہے۔(معارف القرآن)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
“مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا رنگ اکثر جگہ سیاہ ہے، اور سمندر میں گو حقیقۃً غروب نہیں ہوتا لیکن جہاں سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو بادی النظر میں سمندر ہی میں غروب ہوتا معلوم ہوگا”۔ (بیان القرآن)
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
” پس جب حق تعالیٰ نے ذوالقرنین کے لیے ہر قسم کا سامان مہیا کردیا جس سے وہ اپنے عزائم کو پورا کرسکے تو اس نے سفر شروع کیا، پہلا سفر اس کا یہ ہوا کہ اس نے بارادۂ فتوحات ملکِ مغرب کی راہ لی اور ایسا راستہ اختیار کیا کہ جو اسے مغرب تک پہنچا دے، یہاں تک کہ جب سفر کرتے کرتے اور درمیانی ممالک کو فتح کرتے کرتے سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا۔ یعنی سمتِ مغرب میں منتہائے آبادی میں پہنچا جہاں آبادی ختم ہوتی تھی تو اس نے سورج کو سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا، یعنی ظاہرِ نظر میں اس کو ایسا دکھائی دیا جیسے سمندر کا مسافر غروب کے وقت یہ دیکھتا ہے آفتاب سمندر میں ڈوب رہا ہے حال آں کہ آفتاب آسمان پر ہوتا ہے، مگر سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے،اسی طرح ذوالقرنین نے اس جگہ پہنچ کر سورج کو اپنی نگاہ میں ایسا پایا کہ وہ کیچڑ کے سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے، ورنہ عقلاً یہ کیسے ممکن ہے کہ آفتاب جیسا جسم عظیم جو زمین سے کئی ہزار گنا بڑا ہے اور زمین سے بہت بلند ہے وہ زمین کے ایک چشمہ میں ڈوب جائے،نیز آفتاب تو ہر وقت حرکت میں رہتا ہے آفاق پر سے گزرتا ہے، کہیں اس کا طلوع ہوتا ہے اور کہیں اس کا غروب ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین جب ساحلِ غربی پر پہنچا تو وہ ایسی جگہ تھی کہ وہ دلدل اور کیچڑ تھی کی آدمی کا وہاں گذر نہ تھا، آگے زمین نہ تھی یہ جگہ زمین کا کنارہ تھی، آگے سوائے پانی کے کچھ نہ تھا اس لیے اس کو ایسا نظر آیا کہ سورج کیچڑ کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس وقت اس کی نگاہ میں سوائے کیچڑ اور دلدل کے کچھ نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:  “وجدها تغرب” یعنی اپنی نگاہ میں سورج کو ایسا پایا ،اور یہ نہیں فرمایا کہ “کانت تغرب”  کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر نہیں دی کہ سورج فی الواقع کیچڑ میں ڈوب رہا تھا، بلکہ یہ بتلایا کہ ذوالقرنین نے اس کو ایسا پایا۔ معاذ اللہ یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ سورج فی الواقع سیاہ کیچڑ میں گھس گیا تھا یا اس کے اندر اتر گیا تھا یا اس میں جا کر چھپ گیا تھا۔ کیچڑ کے ایک چشمہ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی کہ وہ آفتاب جیسے جرم عظیم کو اپنے اندر سما سکے، آفتاب تو زمین سے بہت بلند ہے، وہ زمین سے ملاصق اور ملا ہوا نہیں، اور اس قدر بڑا ہے کہ زمین کے چشمہ میں نہیں آسکتا اور نہ اس میں اتر سکتا ہے۔ایک قرأت میں ’’عین حمئۃ ‘‘کے بجائے ’’عین حامیۃ‘‘  آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ گرم چشمہ میں آفتاب کو غروب ہوتے ہوئے پایا اور اس کو ایسا نظر آیا کہ آفتاب گرم پانی کے چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقع میں بھی ایسا ہی ہوا اور یہ دونوں قرأتیں معروف ہیں، معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین برابر چلتا رہایہاں تک کہ جب خشکی کی حد ختم ہوگئی اور جہاں تک آدمی جاسکتا تھا وہاں تک ذوالقرنین پہنچ گیا تو اس جگہ پہنچ کر ذوالقرنین نے آفتاب کو سیاہ کیچڑ یا گرم پانی کے چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اس سے آگے جانے کا ذکر نہیں فرمایا ظاہر تو یہ ہے کہ اس سے آگے نہیں گیا اور ممکن ہے کہ شاید آگے بھی گیا ہو واللہ اعلم”۔ (معارف القرآن، مولف مولانا ادریس کاندھلوی سورہ کہف، آیت 86)
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ردیف میں تھا آپ ﷺ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:فإنها تغرب في عين حامية‏”‏ ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے (مفہوم۔سورۃ الکہف:86)
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق۔4 (3199)وتفسیر القرآن۔36 (4803)والتوحید 22 (7424)
صحیح مسلم/الإیمان۔72(159)سنن الترمذی/الفتن 22 (2186)تفسیر القرآن سورة یٰسن 37 (3227) (تحفة الأشراف: 11993)وقد أخرجہ: مسند احمد5/145، 152، 158ع 165، 177) (صحیح)
اس حدیث میں جو الفاظ نبوی وارد ہیں کہ (سورج ایک گرم چشمہ میں غروب ہوتا ہے ) تو یہ الفاظ بھی متواتر قراءت کے ہیں ، جس طرح پہلے گزرا کہ سورۃ کہف کی اس آیت کے الفاظ ہمارے پاس موجودمصحف میں (عين حمئة) ہیں ،
اور اِس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان زمین کے سرے پر ہو یعنی سامنے سمندر ہو تو غروب آفتاب کے وقت ایسا لگتا ہے گویا وہ سمندر میں ڈوب رہا ہے،
جبکہ معلوم ہی ہے کہ آفتاب اپنے فلک پر گھوم رہا ہے ،اور کہیں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہورہا ہوتا ہے تو اسی وقت کہیں کچھ لوگوں کے سامنے ظاہر (طلوع )ہورہا ہوتا ہے ، یعنی وہ اس طرح غروب نہیں ہوتا کہ ایک دم ساری دنیا سے اوجھل ہوجائے، پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جائے اور اس دنیا میں سورج کا وجود ہی نہ رہے ، الغرض وہ مسلسل موجود رہتا ہے ، ہاں کچھ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور کچھ لوگوں کو نظر آتا ہے،جیسا کہ محسوس و مشاہد حقیقت ہے)
صحیح بخاری کی روایت اس طرح ہے
“سفیان۔العمش۔ابراہیم(بن یزید التیمی)۔یزید التیمی کہتے ہیں کہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غروب آفتاب کے وقت کہا کہ تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے؟میں نے جواب دیا کہ اللٰہ تعالٰی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورج جاتا ہے یہاں تک کہ یہ اللٰہ تعالٰی کو اس کے تخت کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے اور اس کو اجازت دے دی جاتی ہے۔پھر ایک وقت آئے گا کہ یہ اجازت چاہے گا کہ اس کا سجدہ قبول نہیں ہوگا ،یہ طلوع کی اجازت چاہے گا لیکن اس کو اجازت نہیں ملے گی بلکہ اسے وہاں لوٹنے کا حکم ہوگا جہاں سے یہ آیا ہے یعنی اپنے غروب کے مقام سے اور اس طرح یہ مغرب سے طلوع ہوگا اور سورج تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔یہ سب جاننے والے اللہ تعالی کا ڈیزائن ہے۔(صحیح بخاری،جلد چہارم،باب 54،حدیث 421)
ان سب روایات میں واضح فرق ‘سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے’ کے جملے کا ہے۔
اب ہم اس روایت کے راویوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔حضرت ابوزر رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ اور ان الفاظ کے بغیر دونوں طرح یہ روایت یزید بن التیمی اور ان کے بیٹے ابراہیم بن یزید التیمی سے روایت ہے۔ابراہیم سے اس روایت کو چھ راوی روایت کرتے ہیں۔
1:العمش اور پھر ان سے پانچ لوگ روایت کرتے ہیں۔صحیح بخاری دیکھ لیجئے۔
2:یعنی بن عبید اور پھر ان سے تین راوی روایت کرتے ہیں۔صحیح مسلم دیکھ لیں۔
3:موسی بن المسیب الثقفی اور ان سے عبدہ بن سلیمان روایت کرتے ہیں۔ابو الشیخ الاصبعانی کی العظمیٰ 4/1186دیکھ لیں۔
4:عبدالاعلیٰ التیمی۔ان سے مسعر روایت کرتے ہیں۔ہلایہ الاولیاء 5/89 دیکھ لیں۔
5:ہارون بن سعد۔ان سے عبدالغفار بن القاسم روایت کرتے ہیں۔شیخ الاصبعانی کی العظمیٰ 4/1191 اور معجم الطبرانی حدیث نمبر 4470 دیکھ لیں۔
6:الحکم بن عتیبہ۔ان سے واحد راوی سفیان بن حسین ہیں۔سنن ابی داؤد،مسند احمد،مستدرک الحاکم،مسند البزار دیکھ لیں۔
ابراہیم بن یزید التیمی سے مختلف ذرائع سے یہ صرف حکم بن عتیبہ ہیں جو سورج کے گرم پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی بات کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ابراہیم بن یزید سے یہ حدیث روایت کرنے والے چھ راویوں میں سے صرف الحکم بن عتیبہ یہ خاص الفاظ ذکر کرتے ہیں جس سے الحکم کے روایت کردہ یہ جملے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ یہ بات اور مشکوک ہوجاتی ہے جب ان سے صرف ایک راوی یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کرتا ہے اور وہ سفیان بن حسین ہیں جبکہ سفیان کے متوازی گیارہ لوگ ابراہیم بن یزید کی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کر رہے ہیں اور کسی نے بھی اس حدیث میں سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی بات نہیں کی۔نیچے اس کی تصویری گرافی وضاحت بھی دی گئ ہے۔
یہ ساری صورتحال اور تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ سورج کے گرم یا گدلے پانی میں غروب ہونے کی روایت غیر مستند،شاذ اور معلل ہے اور یہ تجزیہ ان الفاظ والی روایت کو مشکوک بنا رہا ہے۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ الحکم اور سفیان دونوں قابل اعتماد راوی ہیں لیکن چونکہ ان کا بیان اپنے سے زیادہ معتبر اور زیا دہ راویوں کے خلاف جاتا ہے لہذا یہ روایت شاذ اور غیر مستند ہے۔
شاذ حدیث کی تعریف جو ابن الصلاح(وفات 643 ہجری)نے اپنی کتاب المعارف انواع علم الحدیث میں کی یہ ہے کہ یہ ایک ایسی روایت ہے جس کو ایک قابل اعتماد راوی روایت کرتے ہیں لیکن یہ دوسرے راویوں کے مخالف ہے(تعارف علم الحدیث،گارنٹ پبلشنگ لمیٹڈ،برکشائر 2006،صفحہ 57)
ناقص یا معلل روایت کی ابن الصلاح کی طرف سے دوسری تعریف بھی دیکھ لیں
“یہ ناقص روایت ایک ایسی روایت ہے جس میں اس کی سند میں ایک نقص شناخت کیا جاتا ہے جب کہ ظاہری طور پہ یہ روایت نقص کے بغیر لگتی ہے۔اس کا اطلاق ایسی روایت پہ ہوتا ہے جس کی سند قابل اعتماد راویوں پہ مشتمل ہوتی ہے لیکن صرف ایک راوی ایسی بات کرتا ہے جو باقی راویوں کی روایت سے متصادم ہوتی ہے۔”
اور جب کوئ روایت یا اس کا ایک حصہ شاذ یا ناقص ہوجاتا ہے تب اسے صحیح حدیث نہیں کہا جا سکتا۔حافظ ابن صلاح کے مطابق “صحیح روایت و ہ ہے جس کی سندمکمل طور پہ قابل اعتماد راویوں کے ساتھ اس کے آخر تک چلتی ہے۔یہ روایت نہ شاذ یعنی ناقص ہوتی ہے نہ ہی معلل۔”
لہذا صرف راویوں کی صحیح سند کا ہونا کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
حافظ ابن بزار سورج کے گرم یا گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہونے کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں”ہم سفیان بن حسین کے سوا کسی ایسے راوی کو نہیں جانتے جو یہ روایت اس طرح بیان کر رہا ہو۔”(مسند البزار،بحر الذخر،حدیث 4010)
کتاب اللہ و حدیث پاک میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہ انسانوں کے زمانے میں چلنے والے مماورات کے لحاظ سے لائے گئے ہیں اس لیے ان الفاظ دیکھ کران کے معنی بھی بالکل اسی طرح سمجھنا جس طرح بظاہر سمجھ میں آرہاہےدرست نہیں مثلاسورج کے نظروں سے غائب ہونے کو ہم اپنی زبان میں غروب ہونا کہتے ہیں اورعرب بھی غروب کے مادہ کو استعمال کرتے  ہیں اس لیے قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہےلہذا اس سے یہ مطلب سمجھنا کہ سورج واقعتا نیچے کسی کھڈے میں غروب ہوگیا ہےقطعا غلط ہوگا،ظاہر ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لیے وہ کسی بات یا حقیقت کوبیان کرے کے لیے ضروروہی الفاظ استعمال کرتا جو عربی زبان میں مروج تھے۔
یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کے مقام تک جا پہنچا،اُس نے سورج کوپایا کہ وہ ایک دلدل والے چشمے میں ڈوب رہاہے اوراُس کے پاس ایک قوم کو پایا۔ہم نے کہا:  اے ذوالقرنین! یا تم انہیں سزا دویا ان کے بارے میں تم نیک سلوک اختیار کرو(سورہ الکہف۔آیت۔86)
ذوالقرنین کو ایسا دیکھنے میں آیا اوریہ تو آج بھی کوئی سمندر کے کنارہ پر سورج کے غروب ہونے کے وقت کھڑا ہوتو اسے ظاہری طور پر دیکھنے میں آئے گا کہ سورج سمندر میں اترگیا،اگر کسی کو شک ہو تو تجربہ کرلےہم نے اوپر حجاج کی  مثال ذکر کی ہے اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ واقعتا سورج اس پانی میں غروب ہوگیا یہی سبب ہے کہ اللہ تعالی نے لفظ ‘‘وجد’’ذکرکیا ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسے اس طرح دیکھنے میں آیا یا اسے اس طرح محسوس ہوا نہ کہ واقعتا سورج اس  پانی میں غروب ہوا اس پر خوب غورکریں۔باقی سورج کے غروب ہونے کا مطلب اسی خطہ سے (جہاں غروب ہوا ہے)نظروں سے غائب ہوجاناہے اس کا مطلب نیچے کسی گڑاہے (یا کھائی)وغیرہ میں اترنا نہیں ہے۔
اورسورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہاہے،یہ سب پرغالب،سب کچھ جاننے والے کا اندازہ ہے(سورہ یس۔آیت۔38)
یعنی سورج اپنے مستقرکی طرف چلتا ہے۔مستقرکا مطلب جاءقرار‘‘ یعنی وہ نقطہ جہاں سے ہی اسے الٹی حرکت کرنی پڑے گی ۔’’یعنی نقطہ رجوع ،یعنی سورج ایک مقررہ وقت تک ایک نقطہ تک چل رہا ہے جہاں سے ہوکردوبارہ واپس پلٹے گایا الٹی حرکت کرے گا۔‘‘
دور حاضر کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج ،  بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت  ( Fixed Stars )  کہا جاتا ہے  ،  ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں  ۔  ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے،اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کلو میٹر(تقریباً 12 میل )  فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے  ۔   ( ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ،  لفظ   اسٹار۔اور لفظ،سن)
کیاآپ نے نہیں دیکھاکہ یقینااللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کرتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اورجو زمین میں ہے اورسورج اورچانداور تارے اور پہاڑاوردرخت اور جانوراوربہت سے لوگ بھی ،اوربہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکاہے اورجسے اللہ تعالیٰ ذلیل کردیتا ہے اسے پھر کوئی عزت دینے والانہیں یقینااللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے کرتا ہے(سورہ الحج۔آیت۔18)
سورج بھی واقعتا اللہ تعالی کو سجدہ کرتا ہے مگر اس کا سجدہ بعینہ ہمارےسجدہ کی طرح نہیں ہے اس کا سجدہ بھی اپنے طریقے کا ہوگاجو اللہ تعالی نے  اس کے  لیے مقررکیاہوگا،
(مضمون میں درج کۓ گۓ حدیث کی روشنی میں) باقی عرش کے نیچے سجدے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی حکومت کے ماتحت ہے جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ میراسربادشاہ سلامت کے تخت کے  سامنے جھکا ہوا ہے باقی اس جگہ تخت یا عرش کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ تخت بادشاہ کی عظمت اورجلال وبزرگی کا مظہر ہوتا ہے۔اللہ تعالی کے اذن کے بغیر کوئی ذرہ بھی اپنی جگہ سے آگے حرکت نہیں کرتا۔جوکچھ ہوتا ہے وہ سب اسی کے قوانین فطرت اورراسی ہی کے اذن(مشیت)سے ہوتا ہے اسی طرح اس جگہ پر یہ اصول کارفرماہے ہر لمحہ ہرگھڑی جس جگہ  پر بھی سورج غروب ہوتا ہے اورکسی جگہ پر طلوع ہوتا ہے یہ اللہ تعالی کے اذن سے ہے مطلب یہ ہے کہ سورج کا غروب ہونایاطلوع ہونا سب اپنے مالک کی مرضی اوراس کے ارادہ کے مطابق ہے اوروہ ہروقت حکم الہی کا منتظر رہتا ہے اورچونکہ اسے رک جانے یا واپس پلٹنے کاحکم نہیں ملتا ۔لہذا آگے بڑھتے رہنے کا اذن ہوجاتا ہے اوروہ آگے بڑھتا رہتا ہے اوراپنی گردش جاری رکھتے ہوئے آتا ہے ۔یعنی جس جگہ پر غروب ہوا وہاں اللہ کے حکم سے غائب ہوکراوردوبارہ اسی کے حکم سے آگے بڑھتا ہوا دوسرے ملک پر جاکرطلوع ہوجاتا ہے۔جدید سائنس کے نظریات میں اس طرح ہے کہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے، اوروہ اس وقت مغرب کی طرف سے مشرق کی طرف گھومتی ہے،یعنی مشرق والے ممالک پہلے سورج کےسامنے آتے ہیں۔اس لیے قیامت کے قریب جب اللہ تعالی اس کائنات کے موجودنظام کودرہم برہم کرناچاہےگا،تو زمین کو حکم فرمائے گا کہ تواپنی موجودہ حرکت سے الٹی حرکت کر یعنی مغرب سے مشر ق کی طرف گھومنے کی بجائے مشرق سے مغرب کی طرف گھوم،بس نتیجہ ظاہرہے کہ موجودہ وقت کے برعکس مغرب والے ممالک پہلے سورج کے سامنے آئیں گے، یعنی دوسرے  الفاظ میں سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
اوروہی ہے جس نے رات کو اوردن کو اورسورج اور چاند کو پیدا کیا،سب ایک مدارمیں تیررہے ہیں(سورہ الأنبیاء۔آیت۔33)
قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’فُلْک‘‘ ہے جو عربی زبان میں گول دائرے کو کہتے ہیں۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت فلکیات میں یہ بطلیموسی نظریہ دُنیا پر چھایا ہوا تھا کہ چاند سورج اور دوسرے سیارے آسمانوں میں جُڑے ہوئے ہیں، اور آسمان کی گردش کے ساتھ وہ سیارے بھی گردش کرتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ اختیار فرمائے، وہ اس بطلیموسی نظریے پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتے، اس کے بجائے اس آیت کے مطابق ہر سیارے کا اپنا مدار ہے جس میں وہ ’’تیر رہا ہے‘‘۔ تیرنے کا لفظ بطور خاص قابل توجہ ہے، جو خلا میں تیرنے پر زیادہ صادق آتا ہے۔ سائنس اس حقیقت تک بھی بہت بعد میں پہنچی ہے کہ سیارے خلا میں تیر رہے ہیں۔
کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرام فلکی ،  یعنی تارے بھی مراد ہیں ،  ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔  فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے  ،  عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے  ۔     سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں    سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں  ۔  ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی    فلک    میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے  ۔  دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو ،  بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے۔
قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق ،  اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے ،  اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ،  موجودہ زمانے میں طبعیات  ( Physics )   ،  حیاتیات  ،   ( Biology )  اور علم ہیئت  ( Astronomy )  کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیا ہے ،  اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی ۔  بہرحال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے۔سورج کی حرکت کے بارے میں پچھلے ہزار سالوں میں ہم انسانوں نے مختلف موقف بدلے ہیں ۔
پانچ سو سال پہلے تک زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور سورج اس کے گرد گھومتا تھا ۔ پھر آج سے پانچ سو سال پہلے کچھ سائنسدانوں نے سورج کو ساکن اور کائنات کا مرکز قرار دیا اور کہا کہ یہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ سائنس کا یہ سورج پانچ سو سال تک ساکن رہا ۔ پچھلی صدی عیسوی میں سائنس کے سورج نے ایک بار پھر پینترا بدلا اور حرکت میں آگیا ۔
سائنس کے یہ تمام نظریات اپنے ہر دور میں اس دور کے لوگوں کے حساب سے جدید ترین مصدقہ علم قرار پاتے رہے ۔ مگر اگلوں نے اسے دقیانوسی قرار دے دیا ۔
آج کی جدید ترین اور مصدقہ سائنس کے مطابق سورج نہ صرف اپنے مدار پر بلکہ محور پر بھی حرکت کرتا ہے ۔ سورج اپنے محور پر ایک چکر 25 دن میں مکمل کرتا ہے ۔ سورج اپنی ملکی وے گیلیکسی کے گرد ایک چکر 220 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 225 ملین سال میں مکمل کرتا ہے جسے ایک کاسمک سال کہتے ہیں ۔ بعنی پچھلے پانچ ارب سال میں جب سے سورج بنا ہے اپنی گیلیکسی کے گرد تقریباً بیس چکر لگا چکا ہے۔
اگر ہم جیومیٹری کے جدید ترین اصولوں پر زمین کے مدار کی تصویر بنائیں اور اس کا مرکز معلوم کریں تو وہاں ہمیں خالی جگہ تو مل سکتی ہے،مگر سورج نہیں ملے گا ۔ سورج اس سے مختلف مقام پر موجود ہو گا۔
سائنس کے مطابق سورج ہر دن اپنے مدار میں ایک ڈگری کی تبدیلی لاتا ہے ۔ یہ تبدیلی اصل میں زمین کی ہوتی ہے جو سورج کے گرد گھوم رہی ہے مگر سائنس اس کو اسی طرح بیان کرتی ہے ۔
زمین کی اس مداری گردش کی ظاہری شکل ایک ہاف فرائی انڈے کی طرح ہوتی ہے جسے ہم بالکل گول بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کی زردی کبھی ایک کونے کی طرف زیادہ جھک جاتی ہے تو کبھی دوسرے کونے کی طرف ۔ یہی وجہ ہے کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا وقت روزانہ ایک سا نہیں ہوتا بلکہ اس میں روزانہ کی بنیاد پر فرق آتا ہے۔سجدے سے ہمارے ذہن میں گمان پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ہم نماز کے دوران سات ہڈیوں پر سجدہ کرتے ہیں تو سورج پر بھی سات ہڈیوں کا سجدہ لازم ہے۔
قرآن کریم میں اللہ ارشاد فرماتا ہے۔
ساتوں آسمان اورزمین اورجوان میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز نہیں مگر اس کی حمدکے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے یقیناوہ ہمیشہ سے بے حد بردبار، نہایت بخشنے والاہے(سورہ بنی اسرائیل۔آیت۔44)
ساری چیزیں زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے کہ اگر اس کی تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے، نیز ہر چیز اسی کے تابع فرمان ہے اور یہ مطلب بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں حقیقی معنی میں تسبیح کرتی ہوں، اور ہم اسے نہ سمجھتے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز یہاں تک کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پیدا فرمائی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم کی کئی آیتوں کی روشنی میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور آج کی سائنس نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پائی جاتی ہے۔
آخر میں!
پچھلے چودہ سو سالوں میں ہم نے قرآن کو کبھی بدلتے نہیں دیکھا ۔ مگر اسی دوران انسانی عقل سے حاصل کردہ اس علم سائنس کی جانے کتنی تھیوریاں سیکڑوں سال سے بدلتی ہی جارہی ہیں۔سائنس میں روز بہ روز نۓ نۓ تجربات ہو رہے ہیں۔نئ تحقیق سامنے آکر پورانی تحقیقات کو غلط ثابت کر رہی ہے۔لیکن افسوس در افسوس ہم مسلمان نےصرف اسے آخرت کی کتاب ہی سمجھ لیا ہے؟
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔
(رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ۔3199 ۔مکررات حدیث نمبر۔3918)
ابو سليمان حمد بن محمد بن إبراهيم بن الخطاب البستي المعروف بالخطابي
(319 – 388 ھ = 931 – 998 م)
فرماتے ہیں! اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے،کچھ اس طرح کہ اس استقرار کی حقیقت نہ ہم نے دیکھی ،نہ ہم سمجھتے ہیں ، یہ غیب کی ایسی خبر ہے (جو ہم تک پیغمبر کے ذریعے پہنچی ہے) جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے،نہ اس کی کیفیت بیان کرتے ہیں،کیونکہ اس کیفیت کا ہمیں علم ہی نہیں(اعلام الحدیث شرح صحیح بخاری)
روئے زمین پر انسان کے پاس جو سب سے مستند علم ہے وہ قران ہے ۔ جو کچھ بھی پرکھا جائے گا وہ اسی پر پرکھا جائے گا ۔ اسی کو پیمانہ بنایا جائے گا ۔
سائنس ایک غیر مصدقہ علم ہے جس پر نہ تو کسی صورت اندھا بھروسہ کیا جا سکتا ہے نہ ہی اسے پیمانہ بنایا جا سکتا ہے ۔
پھر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ قران کو ماننا یا نہ ماننا ایمان و کفر کا معاملہ ہے ۔ جبکہ سائنس کے نظریات کو ماننا خود سائنس دان بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔ بہت سے ایسے نظریات ہیں جن کو کچھ سائنسدان مانتے ہیں کچھ نہیں مانتے ۔سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں لیکن قرآن نہ بدلا ہے نہ بدلا جائے گا۔
ہاں ہم ہی اس کی قدر نہیں کرتے، جیسا کہ قدر کرنے کا حکم ہے۔
آخر میں!
اوروہی ہے جس نے رات کو اوردن کو اورسورج اور چاند کو پیدا کیا،سب ایک مدارمیں تیررہے ہیں(سورہ الانبیاء۔آیت۔33)
فلک‘‘  کے لفظی معنیٰ آسمان کے نہیں،  بلکہ اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیارہ حرکت کرتا ہے،  اس آیت سے معلوم ہوا کہ سورج اور چاند کسی آسمان کے اندر مرکوز نہیں،جیسا کہ بطلیموسی نظریۂ ہیئت میں ہے۔ فُلْک عربی زبان میں گول دائرے کو کہتے ہیں۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت فلکیات میں یہ بطلیموسی نظریہ دُنیا پر چھایا ہوا تھا کہ چاند سورج اور دوسرے سیارے آسمانوں میں جُڑے ہوئے ہیں، اور آسمان کی گردش کے ساتھ وہ سیارے بھی گردش کرتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ اختیار فرمائے، وہ اس بطلیموسی نظریے پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتے، اس کے بجائے اس آیت کے مطابق ہر سیارے کا اپنا مدار ہے جس میں وہ ’’تیر رہا ہے‘‘۔ تیرنے کا لفظ بطور خاص قابل توجہ ہے، جو خلا میں تیرنے پر زیادہ صادق آتا ہے۔ سائنس اس حقیقت تک بھی بہت بعد میں پہنچی ہے کہ سیارے خلا میں تیر رہے ہیں۔
 بلکہ وہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں حرکت کرتے رہتے ہیں، اور آج کل کی نئی تحقیقات اور چاند دیگر سیاروں تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اس کو بالکل یقینی بنادیا ہے،اور بعید نہیں ہے کہ انسان سورج پر بھی پہنچ جائے۔علم ہیئت(Astronomy) طبعیات(Physics)حیاتیات (Biology)اور جدید تحقیقات کی جدید ترین معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم واضح کر دیا ہے، اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی ۔  بہرحال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے۔
صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرام فلکی ،  یعنی تارے بھی مراد ہیں ،  ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔  فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے  ،  عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے۔سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں،اس سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی فلک میں نہیں ہیں،بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے۔دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو،بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *