سہولیاتِ حج کی فراہمی میں سعودی عرب کا کردار
فیصل عزیز عمری
حج اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے ایک ہے۔ جس کی ادائیگی ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے۔ سعودی عرب کے قیام سے پہلے حج انتہائی مشکل تھا۔ سفرِ حج پر جاتے ہوئی واپسی کا یقین نہیں رہتا تھا۔ مشاعر مقدسہ جہاں اعمال حج ادا کئے جاتے ہیں وہاں کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ان مقامات مقدسہ میں رہنے سہنے ، کھانے پینے اور کسی بھی طرح کی دیگر ضروریات کا حکومتی نظم نہیں تھا۔ حجاج کھلے میدانوں میں رات گزارتے تھے۔ پکی سڑکوں کا فقدان اور نقل و حمل کے ناقص وسائل کی وجہ سے حجاج یا تو پیدل یا جانوروں کی پر مشقت سواری کرنے پر مجبور تھے۔امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ تھی۔ لوٹ مار عام تھا ۔ منی کے اندر حمامات تھے نہ قربانی کے لئے صحیح انتظام تھا۔ جس کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ رمی جمرات، مطاف اور مسعی میں عام طور پر حادثات پیش آجاتے تھے جس کی وجہ سے بہت سے حجاج موت کے منھ میں چلے جاتے تھے۔سعودی عرب کا قیام چونکہ دینی بنیادوں پر ہوا تھا۔ اس لئے قیام کے بعد سی ہی شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے حج کے انتظامات پہ خصوصی توجہ دی۔ ہر قسم کی عمدہ اور جدید سہولیات سے حج کو آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کے بعد سے آج تک جتنے بھی فرمانروانِ مملکت آئے انہوں نے بھی سہولیاتِ کی فراہمی کو حکومت کی ترجیحات میں شامل کیا اور حجاج کی خدمت کو باعث شرف وثواب سمجھا۔ مشاعر مقدسہ جو صرف حج کے لئے چھ دن آباد ہوتے ہیں پھر سال بھر یوں بھی ویران پڑے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ان جگہوں میں اربوں کی لاگت سے ہر قسم کے عمدہ انتظامات کئے گئے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر مملکت سعودی عرب کے حکمرانوں کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔پکی سڑکوں کا جا بچھا دیا گیا ہے۔ جہاں راستے میں جگہ جگہ حمامات اور پینے کے پانی اور گرم موسم کی حدت سے بچاؤ کے لئے درختوں اور فواروں کے بے مثال انتظامات ہیں۔ نقل و حمل کو آسان بنانے کے لئے بے شمار بسوں اور جدید طرز کے میٹرو کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان بسوں اور میٹروں کو سال بھر میں صرف حج کے چھ دن کے لئے بحال کیا جاتا ہے۔ منی اور عرفات میں بہترین فائر پروف خیموں کو بنایا گیا ہے۔ جمرات، مطاف اور مسعی کی حیرت انگیز توسیع کی گئی ہے۔ جس سے حادثات کا وقوع کم ہو گیا ہے۔ امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لئے دولاکھ سے زائد سیکیورٹی اہلکار خصوصی طور پر متعین ہوتے ہیں۔ منی میں قربانی کے لئے طبی معیاروں پر جدید ترین حکومتی نظم بنایا گیا ہے۔ حرمین کی توسیع ، صفائی کا پورا اہتمام ، زمزم کی فری سپلائی ،تمام حجاج کے لئے مکمل فری طبی خدمات اور ان جیسی بے شمار سہولیات ہیں جن سب کا اشارہ بھی اس مختصر مضمون میں مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ حج جتنا مشکل تھا اس سے کہیں زیادہ اب آسان ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود بھی جو صاحب حیثیت ادائیگیِ حج میں تاخیر کرتے ہیں وہ بڑے بد نصیب گنہگار ہیں ۔ اللہ سارے مسلمانوں کو حج کی سعادت نصیب کرے۔
سعودی عرب نے سہولیات حج کی فراہمی میں جس بے لوثی کا ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل مبارکباد ہے۔ اگر کوئی دوسرا ملک ہوتا یا آل سعود کے علاوہ کسی دوسرے خاندان کے ذمے حج کی ذمہ داری ہوتی تو اسے تجارت بنالیتے۔ ایک ایک خدمت کی من پسند وصولی کرتے ۔ برصغیر میں مزاروں اور درگاہوں پر جو استحصالی ذہنیت کام کر رہی ہے اگر اس کو سامنے رکھ کر سعودی عرب کی فراہم کردہ مکمل فری سہولیات کو دیکھتے ہیں تو اس مملکت کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ مملکت کے حکمران بھاری بھرکم شاہانہ القاب سے ہٹ کر خود کو خادم حرمین کے لقب سے موسوم ہونے کو نہ صرف فخر سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہر جانشین اپنے پہلوں پر خدمت حرمین میں سبقت لے جانے کی بے مثال رشن تاریخ رقم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے بالمقابل برصغیر میں استحصالی ذہنیت کے حامل پیران اور نام نہاد اولیاء خود کو مخدوم کہلانا پسند کرتے ہیں۔ جو عوام کو خادم اور غلام سمجھتے ہیں اور انہیں لوٹنے کا کام کرتے ہیں۔ کتنا فرق ہے؟!!!
اللہ مملکت سعودی عرب کے حکمرانوں کو ان کی بے لوث خدمات کا بہترین بدلہ دے اور اعتراف حق کی توفیق دے۔ آمین
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/