فلسطینی سرزمین یہود کو فروخت کرنے سے متعلق  ملك عبد العزيز رحمہ اللہ کی طرف منسوب دستاویز کی حقیقت

فلسطینی سرزمین یہود کو فروخت کرنے سے متعلق  ملك عبد العزيز رحمہ اللہ کی طرف منسوب دستاویز کی حقیقت

از قلم ساجد ولی

یقینا ہر دور میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان معرکہ جاری رہا ہے، اس کی شدت میں گرچہ وقتی طور کبھی کبھار کمی آجاتی ہے، البتہ یہ تھمتا بلکل نہیں ہے، اور ہمیشہ سے جب اہل باطل اہل حق سے حجت وبرہان کے میدان میں مار کھانے لگتے ہیں، تو پھر یہ اپنی وقتی واہ واہی، اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نہایت بودے وسائل کا سہارا لیتے ہیں، مسلمانوں کے اندر تفرقہ بازی، راہ حق سے بھٹکنے، اور منہج سلف کو ترک کر مختلف عصبیتوں اور فرقہ واریت میں پڑ‌‌جانے کے بعد انہیں بودے وسائل کا سہارا لیتے ہوئے ہمیں کچھ نام نہاد مسلمان بھی نظر آتے ہیں، ان فرقوں کی تاریخ گھٹاٹوپ اندھیروں، مشکوک تعلقات، اور غیر واضح قسم کی سانٹھ گانٹھ سے پر ہوتی ہے، چونکہ یہ خود ڈرپوک اور خیانتوں کے عادی ہوتے ہیں اس لئے ہر جماعت انہیں اپنی طرح دکھتی ہے، آپ ماضی میں فرانسیسی احتلال کی تاریخ کا مطالعہ کریں، یا پھر برطانوی احتلال کے حملوں میں خیانتوں کی خاک چھانیں، یا حالیہ امریکی جنگوں میں خارجی حملہ آوروں کے ساتھ سری تواصلات کی گہرائی تک جائیں، آپ کو بہت سارے ایسے شعبدہ باز بے نقاب ہوتے دکھیں گے، جو ظاہر میں بڑے باطل شکن بنتے ہیں، اور جہاد باطل کے موضوع پر خوب زبانی جمع خرچ کرتے دکھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں، اہل حق سے بغض میں یہ اتنے مخلص اور سنجیدہ ہوتے ہیں کہ اگر انہیں امت کے متفقہ دشمنوں کی صف میں بھی کھڑا ہونا پڑ جائے، تو یہ اس سے بھی گریز نہیں کرتے، ایسا ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔

یقینا ١٩٤٨ء میں‌ فلسطین کے اندر یہودی اسٹیٹ کا قیام پوری ملٹ کو جھنجوڑ دینے والا حادثہ تھا، اس حادثے کو باضابطہ زمینی حقیقت میں تبدیل کرنے والی ساری سپرپاور طاقتیں تھیں، اور امت مسلمہ اس پوزیشن میں بھی نہیں تھی، کہ وقت کی کسی ایک ایٹمی پاور کا بھی مقابلہ کر سکے، اس تباہی کے پیچھے کارفرما آسباب صرف جنگی کمزوری نہیں تھی، بلکہ ایک زمانے سے امت میں پیدا ہو چکی عقدی، ومنہجی خرابیاں بھی تھیں، دینی جذبے کی ‌کمی، اور شرکیات وبدعات کا انتشار بھی پس پردہ اس تباہی کے پیچھے تھا، اور ان سارے اسباب کے علاوہ ایک بہت بڑا سبب یہ تھا کہ باضابطہ یہود کے لئے فلسطین کی مقدس سر زمین پر زمینیں خریدنے کی اجازت دی گئی، اس خرید وفروخت کو انجام دینے والی کوئی برطانوی حکومت نہیں تھی، بلکہ خود پورے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی سلطنت عثمانیہ اس عمل کی شروعات کرنے والی قیادت تھی، اس غیر ذمہ دارانہ عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری آپ وتاب کے ساتھ یہود اس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے لگے، اور مزاحمت کا دور تب شروع ہوا، جب مسلم امت ایک بوڑھے شیر کے مانند کمزور ہوچکی تھی، جس میں نہ چھلانگ لگانے کی سکت، نہ اپنے دفاع کی۔

پھر بھیایک وقت آیا کہ عرب نے اس مقدس سر زمین کی بازیابی کے لئے کمر کسی، بڑی شہادتیں پیش کیں، خون بہا، کچھ تکلیف دہ وجوہات کے پیش نظر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، بہت سارے عجمی مسلم ممالک  ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے رہے، پھر ایک اور دور آیا، جس میں شعوبیت کی جڑیں مضبوط کی گئیں، غیر محسوس طریقے سے عرب کے خلاف ایک مزاج بنایا گیا، بڑے بڑے واعظین ( ویل للعرب من شر قد اقترب) جیسی حدیثیں پڑھ پڑھ کر عرب کی تباہی کا انتظار کرنے لگے، ان کی گلے پھاڑ تقریروں کا موضوع بحث ہی عرب اور عرب حکومتیں بن گئیں، اور پتہ نہیں کن کے کہنے پر اب ہر تباہی کا ٹھیکڑا عرب اور بالخصوص سعودی مملکت کے سر پھوڑا جانے لگا، کہاں سے مسئلہ شروع ہوا تھا اور الزامات کا سرا کہاں پر جاکر ٹھہرا، رجحانات کے اس عجیب وغریب سفر پر بڑا تعجب ہوتا ہے، اور افسوس بھی۔

محترم قارئین کرام!

سوشل میڈیا ‌پر بارہا ایک دستاويز كردش كرتي نظر آتی ہے جس میں ملک عبد العزیز کی مہر وسائن کے ساتھ یہ تحریر درج‌ ہے کہ ( وثيقة خادم الحرمين الشريفين، بسم الله الرحمن الرحيم، أنا السلطان عبد العزيز بن عبد الرحمن آل فيصل آل سعود أقر باعتراف ألف مرة لسير برسي كوكس مندوب بريطانيا العظمى، لا مانع عندي من إعطاء فلسطين للمساكين اليهود أوغيرهم كما تراه بريطانيا، التي لا أخرج عن رايها حتى تصبح الساعة…) یعنی “خادم الحرمین الشریفین کی جاری کردہ دستاویز، بسم اللہ الرحمن الرحیم، میں سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمن آل فیصل آل سعود ہزار مرتبہ اعتراف کرتے ہوئے عظیم برطانوی حکومت کے نمائندے سیر برسی کوکس سے اقرار کرتا ہوں کہ مجھے اس‌ بات میں کوئی اعتراض نہیں کہ سر زمین فلسطین غریب یہود وغیرہم کے لئے دے دی‌جائے، جیسا برطانیہ کی منشا ہو، جس کی رائے کی میں قیامت کی صبح تک خلاف ورزی نہیں کر سکتا”.

پہلی بات تو یہ ہے دنیا میں‌ واحد‌ اسلام پر قائم، اور اسلامی شریعت کو نافذ کرنے والی مملکت سعودی عرب کو روز اول ہی سے غیروں سے زیادہ اپنوں کی‌ عداوت کا ‌سامنا کرنا ‌پڑا ہے، کبھی وہابی تحریک پر کیچڑ اچھال کر، تو کبھی جھوٹے پروپیگنڈے کر کر، لیکن یہاں جو دستاویز زیر بحث ہے، اس کے مضمون ومواد پر نظر ڈالنے سے ہنسی بھی آتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے، کہ بغض وعناد میں انسان کس قدر اندھا ‌ہوجاتا ہے، اور ہم کیسے زمانے میں جی رہے ہیں، جہاں پر انسان جانتے ہوئے بھی اعتراف حق سے گریز کرتا ہے، اور کس قدر نفرت وتعصب انسان کو کچھ وقتی فوائد حاصل کرنے کی خاطر تسلیم کذب‌ پر ہی نہیں، اس کی نشر واشاعت تک پر مجبور کردیتا ہے۔

قارئین کرام! ایک طائرانہ نظر بھی اس دستاویز کے کذب وافتراء‌ ہونے کا یقین دلا دیتی ہے، پہلی بات تو یہ کہ اس‌ دستاویز  میں ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو خادم الحرمین الشریفین کا ‌خطاب دیا گیا ہے، جو بلکل تاریخی شواھد کے خلاف ہے، کیونکہ مملکت سعودی عرب کے حکمرانوں کا یہ لقب ( ملک‌ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں) بہت بعد  شروع ہوا، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو جلالۃ الملک کے خطاب سے یاد کیا جاتا تھا، پھر اس میں جو مہر کی ساخت نظر آتی ہے، وہ بلکل گول دائری شکل کی ہے، جبکہ ‌ملک عبد العزیز رحمہ اللہ بیضوی شکل کی مہر استعمال فرمایا ‌کرتے تھے، اس پر کوئی تاریخ بھی درج نہیں ہے، جبکہ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی ساری دستاویزات، ومراسلے تاریخ کے ساتھ درج ہیں، اسی طرح اس دستاویز کو جس شخص کے نام سے ( سیر برسی کوکس) تیار کیا گیا ہے، اس کا فلسطین کے مسائل سے کوئی لینا ‌دینا ہی نہیں تھا، یہ کبھی بھی فلسطین کے اندر بریطانیہ کا نمائندہ نہیں رہا، مزید پر آں یہ کہ فلسطینی علاقہ کبھی بھی ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے زیر اثر نہیں آیا حتی کہ آپ اسے یہود کے حوالے کرنے کے حقدار ہوتے، اسی طرح اس دستاویز کا ‌اسلوب ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے مراسلات سے بلکل مختلف ہے، آپ نہایت عمدہ زبان استعمال کیا کرتے تھے، اور نہایت بہتر اسلوب میں آپ کی تحریریں رقم ہوا کرتیں تھیں، پھر جس شخص نے سب سے پہلے اس دستاویز کو نشر کیا اس نے اس کا کوئی مصدر ومرجع ذکر نہیں کیا، سب سے پہلے اس دستاویز کو فلسطینی کمیونسٹ عبد المجید حمدان کے حوالے سے صحیفۃ الشعب میں نشر کیا گیا تھا، اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس دستاویز پر ملک فیصل ( عراق کے بادشاہ) اور ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے مابین سنہ ١٩٢٢ھ میں منعقد ہونے والی عقیر کانفرس میں اتفاق ہوا، جبکہ مسئلہ فلسطین سے اس کانفرنس کا کوئی لینا دین نہیں تھا، اس کا انعقاد کویت عراق اور سعودی عرب کی حدود متعین کرنے کے مقصد سے ہوا تھا، جو پانچ دن تک چلتی رہی، اور اس میں مسئلہ فلسطین کسی طرح بھی زیر بحث نہیں آیا، پھر اگر دوسرے ناحیے سے دیکھا جائے کہ لندن میں واقع اس طرح کی‌ دستاویزات کے رجسٹر کیا ‌کہتے ہیں؟، کیا اس‌ طرح کی کوئی دستاویز کا وہاں کوئی ریکارڈ ہے،؟ تو اس باب میں مہارت رکھنے والے فہد بن عبد اللہ السماری کے بقول تلاش بسیار کے باوجود اس طرح کی کوئی دستاویز لندن میں موجود ریکارڈ رجسٹروں میں نہیں پائی جاتی۔

قارئین کرام! اس زمانے‌ میں اس طرح کے کذب گولے کوئی انوکھی بات نہیں ہے، بالخصوص سعودی عرب کو تو معاندین کی اس عادت سے ایک زمانے کی رسم وراہ ہے، اس ملک کو معاندین اس طرح کی نوازشوں سے گاہے بگاہے نوازتے ہی رہتے ہیں، یہ کوئی نئی عادت نیہں ہے، ہماری اس تحریر سے کوئی ضروری نہیں کہ لوگوں کی ذہنیت صاف ہی ہو جائے، لیکن اس امید میں حق بیانی کے مقصد سے اس‌ طرح کی تحریریں آنی ضروری ہیں، کہ ابھی بھی کچھ اہل انصاف زندہ ہیں، جو یقیناً مثبت ‌سوچ کے مالک ہیں، ان شاء اللہ ایسے اہل انصاف کو اس تحریر سے ضرور فائدہ ہوگا،‌ اللہ ہمیں سچ کا ‌شیدائی بنائے، شریروں کے شر، اور فتنہ پروروں کے پروپیگنڈوں مسلم ممالک کی بالعموم، اور مملکت سعودی عرب کی بالخصوص حفاظت فرمایے۔ آمین۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *