اتباع سنت ضلالت وگمراہی سے حفاظت

اتباع سنت ضلالت وگمراہی سے حفاظت

از قلم ساجد ولی

دعووں کی صداقت کے لئے دلائل وشواہد لازم ہوتے ہیں، چونکہ دعوی کرنے میں سوائے زبانی جمع خرچ کوئی اور توانائی تو کام میں لانی نہیں پڑتی، اس لئے ہر میدان میں دعوے داروں کی بھرمار آپ کو نظر آئے گی، اتباع سنت کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے، اس باب میں ہر شخص بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے، اور بڑے بڑے دعوے کرتا ہے، اس میدان میں مسلمانوں کی مقابلہ آرائی کو دیکھ عربی زبان کا یہ شعر یاد آتا ہے.
کل یدعی وصلا بلیلی
ولیلی لا تقر لھم بذاک
اگر ان دعووں میں مصداقیت ہوتی تو واقعی بڑی خوشی کی بات تھی، اگر امت کا لیبل ہی اتباع سنت ‌بن‌ جائے تو پھر جھگڑا کس بات کا؟ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہ دعوے اکثر مصداقیت سے خالی ہوتے ہیں، اور صرف روایتی انداز میں دہرائے جاتے ہیں، ان کا تطبیقی دنیا ‌سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا، آپ کو تعجب ہوگا کہ وہ لوگ جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں، جو سنت کے ناقلین ہیں، وہ بھی اس‌ دعوے میں بڑھ چڑھ کر حصے لیتے ہویے نظر آتے ہیں، جو عقل کی کسوٹی پر سنتوں کو پرکھتے ہوئے سنن نبویہ کی ایک بڑی تعداد کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں، وہ بھی سنت کی تشریعی حیثیت پر لمبی لمبی گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو تدبر حدیث کی آڑ میں تدبر فی رد الاحادیث کی وکالت کرتے دکھتے ہیں، وہ بھی بزعم خویش بہت بڑے متبع سنت ومحب رسول ہیں، پھر اس سے بڑی بات یہ کہ آراء اشخاص کی تقویت کے لئے حدیث کو استعمال کرنے والے خوش فہم احباب بھی اپنے آپ کو سب سے بڑے خدام سنت نبوی کہتے نہیں تھکتے، چونکہ ہمارے اعتبار سے ساری اصولی وفروعی کج روی کے پیچھے اتباع نبوی کے تقاضوں میں خلل ہے، اس لئے بہتر ہوتا کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ امت ‌ساری نسبتوں کو ترک کر اتباع سنت کی طرف لوٹتی، اور کم از کم منہجی طور پر ہم آہنگی سے سرفراز ہوجاتی۔
محترم قارئین کرام!
سنت نبوی میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے اقوال، افعال، تقریرات، و سنن ترکیہ آجاتی ہیں، فقہاء کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دین اسلام کا ہر وہ عمل جو الزامی نہ ہو اسے سنت شمار کیا‌ جاتا ہے، چاہے آپ پہلے مفہوم کی روشنی میں سنت نبوی کو دیکھیں، یا دوسرے اطلاق کی روشنی میں سنت کو واجبات کے مقابلے میں رکھیں، اتباع وانتہاء کے اعتبار سے ہم دونوں کے پابند ہونے چاہئیں، یعنی بوقت عمل ہمیں یہ دیکھ کر عمل نہیں کرنا ہے کہ یہ ماثور عمل واجب العمل ہے کہ نہیں، بلکہ جو بھی رسول پاک سے ثابت ہوجائے، اسے اخذ کرنا، اور جس سے آپ منع فرمادیں اس سے باز رہنا مدعائے قرآن وسنت ہے، ( وما آتاکم الرسول فخذوہ، وما نہاکم عنہ فانتہوا), یہاں پر آپ غور کریں کہ جب آپ ‌اتباع کے وقت اس تفریق کو ذہن میں رکھنے کے پابند نہیں ہیں، تو ثبوت سنت کے پعد یہ کیسے روا سمجھا جا سکتا ہے، کہ اس پر عمل کرنے میں یہ معلوم ہونے تک توقف کیا جائے کہ ہمارے مسلک کا‌ مفتی بہ قول اس سنت کی تائید کرتا ہے کہ نہیں، چونکہ اسلام‌ کے قدم تسلیم ورضا اور استسلام وانقیاد کی دہلیز پر ہی جم سکتے ہیں، اس لئے اتباع سنت کو کسی شرط وقید سے مقید کر دینا استسلام وانقیاد کے منافی ہے، نیز اتباع سنت میں منہجی خلل کی علامت۔
صحابہ کرام ہوں کہ ان کے نقش قدم پر گامزن قرون اولی کے محدثین، فقہاء، ومفسرین، سب کے سب سنت نبوی کو استنباط استدلال، واخذ مسائل میں مثل قرآن مانتے چلے آئیں ہیں، بعد میں کچھ لوگوں نے سنت نبوی کو ثانوی حیثیت دینی شروع کی، اور کہیں نہ کہیں سنت بیزاری، یا قرآن پر اکتفاء کی شروعات ہوئی، یقینا سنت نبوی میں کوتاہی کے شکار لوگوں نے یونہی خشک انداز میں بلا علت کے ترک سنت، وتوہین سنت کی شروعات نہیں کی، بلکہ انہوں نے بھی اپنی تسلی کے لئے کچھ۔علتیں اپنے کھوٹے پروڈکٹ کی ترویج کے لئے ڈھونڈ نکال لیں تھیں، یقینا سنت نبوی کی تشریعی حیثیت پر یہ ایک بہت بڑا حملہ تھا کہ سنت نبوی کو مصادر شریعت میں ثانوی حیثیت دے دی جائے، اسی لئے بعد کے ادوار میں ایسا ہوا کہ لوگ احادیث نبویہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے لگے، اور یہ کہہ کر انہیں رد کرنے لگے کہ یہ عقل سلیم کے خلاف ہیں، اور اس‌ طرح سے انکار سنت کا نیا باب ‌شروع ہوا،‌ ان لوگوں نے اس قاعدے کی ترویج کی کہ جو حدیث اسلام کی‌ بنیادوں سے نہیں ٹکراتی ہو، اور قرآنی آیات سے ان کی تائید‌ نہیں ہوتی ہو، انہیں رد کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، مسالک ومناہج کی‌ بنیادوں پر نظر ڈالنے والے محقق کو کہین‌ نہ کہیں ضرور تعجب وحیرت میں مبتلا ہونا پڑا ہوگا ‌جب‌ اس کی نظر سے یہ آیتیں گزری ہونگیں ( اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول), ( ولقد انزلنا الیک‌ الذکر لتبین للناس ما نزل الیون), ( وما ينطق عن اله‍وى إن ه‍و إلا وحي يوحى), (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَلَا هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ، فَيَقُولُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ ), (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ” أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ). یہ اور اس طرح کے ڈھیر سارے دلائل یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول علم رسالت میں قرآن وسنت کو ایک ہی حیثیت حاصل ہے، اور ان دونوں مصادر میں سے کسی ایک پر اکتفاء کرنا ضلالت وگمراہی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن وسنت پر فہم صحابہ کی روشنی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہر جگہ سنت کا بول بالا فرمائے۔ آمین۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *