ماہ محرم اور سنت نبوی
ساجد ولی
ہم ہر سال جیسے ہی محرم الحرام کے قریب ہوتے ہیں، ہمیں چاروں طرف سے ڈھول تاشوں کی آوازیں سنائی دینے لگتیں ہیں، طرح طرح کی کرتب بازیوں کے نظارے منظر عام پر آنے لگتے ہیں، ایسا لگتا ہے، ایک سوئی ہوئی قوم اچانک بیدار ہوکر کسی عظیم تقریب کی تمہیدی تیاریوں میں مشغول ہو گئی ہو، یا پھر سال بھر سے کسی خوشی کی تلاش میں سرگرداں کسی سماج کو اچانک اس کی کھوئی ہوئی متاع مل گئی ہے، اچانک کوئی خالی الذہن شخص اگر ایسے ماحول میں کسی ایسی پستی میں آدھمکے، جہاں پر رات بھر ڈھول تاشوں کی آوازیں اسے سونے نہ دیں وہ ایسا دیکھ کر ضرور یہ سمجھ بیٹھے گا کہ محرم اور ڈھول تاشے کا مسلمانوں کے یہاں ضرور کوئی گہرا رشتہ ہوگا۔
قارئین کرام! یوں تو اسلام میں بذات خود بجائے دف کے آلات موسیقی کا استعمال ممنوع ہے، لیکن اگر عرفی اعتبار سے بھی اس بات کو دیکھا جائے کہ لوگ کس طرح کے مواقع پر ان آلات کا استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں شہادت حسین پر غم اور آلات طرب کے استعمال میں غیر مفہوم ربط نظر آے گا، اسلامی نقطہ نظر کی بات کریں تو معاملہ کچھ الگ ہی دکھے گا، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تہذیب وثقافت، نیز تعلیمات میں خوشیوں، یا غموں کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرنے، عید گاہوں، یا مسجدوں میں اللہ کا شکر ادا کرنے، نیز سنجیدگی کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکنے کی سنت کے علاوہ کوئی اور طریقہ آپ کو نظر نہیں آئے گا، عیدین پر خوشی ہو کہ کسی عزیز وقریبی رشتے دار کی وفات دونوں صورتوں میں ایک مسلم اللہ کے سامنے اپنی تسلیم ورضا، بندگی وتابعداری کو مکمل طور پر ظاہر کرتا ہے۔
ماہ محرم چونکہ ھجری سن کا پہلا مہینہ ہے، یہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، ارشاد ربانی ہے ( ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شھرا ۔۔۔منہا اربعۃ حرما), آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو یہود مدینہ کو دیکھا کہ دس محرم کو حضرت موسی کو فرعون سے نجات دئے جانے کی تاریخ کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں، تو آپ نے بھی اس روزے کی شروعات فرمائی، اور یہود کی مخالفت کے لئے فرمایا اگر میں اگلی سال تک با حیات رہا، نو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا، لیکن داعی اجل نے مہلت نہ دی، اور آپ کی یہ خواہش عملا پوری نہ ہو سکی، البتہ امت کے لئے شریعت کا حصہ قرار پائی، اور دلیل جواز کے طور پر منقول ہوتی رہی۔
گویا تاریخ اسلام میں محرم الحرام کی دس تاریخ کو پیش آنے والے شہادت حسین کے جانکاہ حادثے سے محرم کے تقدس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے اس دن روزہ کے بجائے ماتم، نوحہ خوانی، نیز ڈھول تاشے اور ڈیجے وغیرہ جیسی خرافاتوں کا اہتمام کرنا شرعا ناجائز ہے، کسی بھی شہادت، یا عظیم موت پر وقتی طور سے غم منانا، اور پھر میت کی مغفرت لئے نماز جنازہ کا اہتمام کرنا اسلامی طریقہ کار ہے، اس کے علاوہ اظہار غم کے لئے کسی اور طریقے کو اختیار کرنا سنت نبوی سے سر مو انحراف ہے، یقینا امت مسلمہ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ وفات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوسکتی ہے، آج جب بھی ہم اس واقعے کو سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، کہ صحابہ بشمول آل بیت کے دل پر اس واقعے سے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، خود آنحضرت کی بیٹی، اور داماد، نیز نواسے موجود تھے، لیکن آپ سب نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اس دن ماتم ونوحہ خانی کا اجراء کیا ہو، پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت حسین سے کہیں افضل تھے، آپ نے انہیں سید الشہداء کا لقب عطا فرمایا تھا، جنگ احد میں آپ کی شہادت ہوئی، آپنے کبھی بھی اس دن ماتم ونوحہ خوانی کا اہٹمام نہیں کیا، پھر حضرت عمر، حضرت عثمان، اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ظلما شہید کیا، اور تینوں کو شہید کرنے والوں کا مقصد، مزاج اور طریقہ کار سب ایک تھا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بہت زیادہ حضرت حسین کی شہادت سے مشابہ تھا، اور بہت سارے امور میں اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا، حضرت علی کو سخت صدمہ پہونچا، یہی بلوائی حضرت علی کے لشکر میں شریک ہوئے، اور جنگ جمل وجنگ صفین کا سبب بنے، پھر انہوں نے موقع پاتے ہی حضرت علی کو شہید کیا، اور مکر وخداع کے ذریعے میدان کربلا میں حضرت حسین رضوی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا، کیا تاریخ نے کہیں ایسا محفوظ کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، عمر وعثمان، یا علی کی شہادت پر حضرت حسن وحسین، اور اس کے بعد حضرت حسین کی شہادت پر آل بیت کے باقی ماندہ افراد نے ماتم ونوحہ خوانی کی ہو، جو آل بیت، نیز صحابہ کے سماج میں شریعت نہیں تھا، تو آج شریعت کیسے ہو گیا، اور اثبات محبت کے لئے جس شئے کو انہوں نے لازم نہیں جانا، وہ آج علامت محبت کیسے بن گیا؟!
حقیقت بات تو یہ ہے کہ سنت نبوی ( روزہ) کو چھوڑ کر اس دن ماتم منانے کا اہتمام کرنا رسول اللہ کی لائی ہوئی شریعت کا مزاق ہے، آل بیت اور صحابہ کی طرز پر زندگی گزارنے والا کبھی بھی اس طرح کی خرافات میں نہیں پڑے گا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اپنا رشتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے توڑ لے گا، اور آپ کی شفاعت سے محروم ہو جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( من رغب عن سنتی فلیس منی). اللہ ہمیں دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/