بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
خانوادۂ حسنی کے گوہر علم و فضل مولانا محمود حسنی ندوی رحمہ اللہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے،عمر عزیز کی کم و بیش پچاس بہاریں گزار کر وہ داغ مفارقت دے گئے ،جہان بے ثبات سے منہ موڑ کر جہان فلاح کی جانب سفر کر گئے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
بلاشبہ یہ دنیا فانی ہے،اور سب کی جان جانی ہے،تاہم مولانا محمود حسنی ندوی کی ناگہانی موت کا صدمہ گہرا ہے ۔وہ خانوادۂ حسنی کے چشم و چراغ تھے،علم وقلم کے در آبدار تھے،قلم و قرطاس کے شہسوار تھے،لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ تھا ،حافظہ قوی تھا،اور مطالعہ وسیع تھا، چلتے پھرتے مضامین تحریر کرتےاور طالبان علم کی رہنمائی کرتے۔ان کے قلم گہر بار سے کئ وقیع کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ۔تصوف و سلوک ان کے مزاج و مذاق کا حصہ ہی نہیں خاصہ بھی تھا،مگر ذکر وفکر کی گرما گرمی نے علم و قلم کی گہما گہمی اور صحرانوردی میں کوئی روکاوٹ نہیں پیدا کی، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیچھے لوح و قلم کی قیمتی جاگیریں چھوڑ گۓ ۔
مولانا محمود حسنی ندوی 28 جمادی الاولی 1391ھ مطابق 22جولائ 1971ء کو پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور راۓ بریلی میں حاصل کی، ،اور ثانوی اور عالمیت کی تکمیل دارالعلوم ندوةالعلماء سے کی ۔حدیث شریف کا دو سالہ کورس 1994ء میں کیا اور پھر المعہد العالی للدعوۃ والفکر الاسلامی کا یک سالہ کورس مکمل کرکے مدرسہ ضیاء العلوم سے تدریس کا آغاز کیا اور دارعرفات،راۓبریلی میں تصنیف و تحقیق سے وابستگی اختیار کی ۔2001 ء سے معاون ایڈیٹر کے طور پر پھر کچھ عرصہ بعد نائب مدیر کے طور پر تعمیر حیات سے وابسطہ رہے ۔
خدا رحمت کند ایں
عاشقان پاک طینت را یہ
وہ خانوادۂ علم اللہ کے چشم و چراغ اور اس کی علمی وفکری روایت کے مشعل بردار تھے،وہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے دست گرفتہ ،ان کے صحبت یافتہ اور ان کی فکر کے امین تھے،مخدوم و مکرم حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کے علمی معاون اور سفر و حضر میں ان کے رفیق کار تھے۔
یقینا اس کارگہ حیات میں انسان کتنے ہی خواب دیکھتا ہے ،منصوبے بناتا ہے اور خاکے تیار کرتا ہے،مگر یہ سب ریگ رواں اور فریب نظر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا،خدا جانے کب دل کا دھڑکن تھم جائے ،نبض ہستی رک جائے ،اور سانسوں کا یہ سفر ختم ہو جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ انا للّٰہ وانا الیہ راجعوں اور انتم سلفنا و نحن بلأثرکوئ طلسماتی جملے نہیں ہیں بلکہ ایمانی بیانیہ ہیں ۔جو غفلت شعاری ،خدافراموشی اور خودفریبی سے انسان کو باہر نکالتے ہیں ۔کسی بھی آدمی کی موت کا اعلان دراصل ہماری موت کا اعلان ہے،لہذا دنیا میں جو بھی آتا ہے اسے ایک دن یہ دنیا چھوڑنی ہی پڑتی ہے۔لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس فانی دنیا میں آخرت کو فراموش کرکے نہیں جیتے ہیں بلکہ عمر رواں کے ایک ایک پل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں،اس جہان فانی میں وہ آنے والے جہان کو بنانے،سنوارنےکا سنہرا موقع سمجھتے ہیں۔ایسے سمجھدار،نیکوکار،ہمہ وقت خالق کے حضور حاضری کا استحضار رکھنے والے بندگان خدا کو معصوم فرشتے لینے آتے ہیں۔مقرب ملائک خوش آمدید کہتے ہیں ۔زبان خلق کو نقارۂ خدا ہوتا ہے۔مولانا محمود حسنی ندوی کا تعلق بھی یقینا ایسی ہی قابل رشک جماعت سے تھا۔
لوگ بھی اٹھ جائیں گے اس بزم وفا سے
تم ڈھونڈھنے نکلوگے مگر پا نہ سکو گے
بقلم
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/