رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء اور آپ کو برا بھلا کہنے کا انجام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزاء اور آپ کو برا بھلا کہنے کا انجام

از ساجد ولی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ارشاد ربانی ہے: { ولقد استہزئ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منہم ما کانوا یعملون} [ الانعام ۱۰] مزید اللہ تعالى نے فرمایا: { ولقد کذبت رسل من قبلک فصبروا على ما کذبوا وأوذوا حتى أتاہم نصرنا لا مبدل لکلمات اللہ ولقد جاءک من نبإ المرسلین} [ الانعام ۲۳], مزید اللہ تبارک وتعالى نے فرمایا { إنا کفیناک المستہزئین} [ الحجر ۹۵]. قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کا مزاق اڑانا اور انہیں برا بھلا کہنا انسانیت کی تاریخ میں قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے, کوئی بھی مصلح اس دنیا کی اصلاح کے لئے نمودار ہوتا ہے, تو یہ دنیا, اور اس کے مفسدین اس کا پھولوں سے استقبال نہیں کرتے, بلکہ ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں, اور انہیں ان کے مشن سے روکنے کی بھرپور کوششیں کی جاتیں ہیں, بلکہ انہیں قتل کرنے کی سازشیں کی جاتیں ہیں, ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی عرب , یا دوسری اقوام نے کوئی بہت اچھا سلوک نہیں کیا, آپ کو ہجرت کے وقت قتل کرنے کی کوشش کی گئی, پتھر مار کر, گوشت میں زہر ملاکر, او رگھات لگاکرطرح طرح سے اس چراغ نبوت کو بجھانے کی سعی نامسعود کی گئی,لیکن یہ نبوت کا ستارہ حالات کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن میں آگے بڑھتا گیا, باطل کے لئے شمشیر بکف ہوکر گمراہی وضلالت کوروندتا ہواراہ کے روڈوں سے الجھتا ہوا بلندیاں طے کرتا رہا, راہ حق میں آپ کے جذبہ فنا کو دیکھ کر لوگ کبھی آپ کو مجنون کہتے, تو کبھی ساحر, اور کبھی جھنجلاہٹ میں کذاب کہ دیتے, کبھی نفسیاتی طور پر باہمی افہام وتفہیم کی کوشش کرتے ہوئے دو طرفہ مداہنت کی بات کرتے, کبھی انہیں کچھ نہیں سوجھتا تو شوشل بائیکاٹ کی کوشش کرتے, یہ اور اس طرح کے ان گنت حربے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدائے حق بلند کرنے سے نہ روک سکے, آپ عزم مصمم کے ساتھ, ایمانی ولولے کے ساتھ الہی پیغام کو پہونچانے کی راہ میں کسی خطرے کی پرواہ کئے بغیر ظلمت وضلالت کے شیش محلوں کو چور چور کرتے ہوئےحق وصداقت کی حکمرانی قائم کرتے رہے, اور پھر کچھ عرصے کے بعد دنیا نےاس عظیم انقلاب کا نظارہ کیا, جس میں کمزوروں کو ان کا حق دلایا گیا, تکبر وانانیت کا خاتمہ کردیا گیا, سماج میں بے وقعتی و بے عزتی کی ماری ہوئی بنت حوا کو بے مثال مقام عطا کیا گیا, اور ایسے عناصر دنیا سے نابود ہوگئے جو آپ کی صدا کو دبانے کے لئے ہر حد کو پار کرچکے تھے, اور اپنی ممکنہ طاقت کو استعمال کرچکے تھے, وہ دنیا سے گئے تو ان کا نام تاریخ کے کوڑے دان میں مہملات کے حوالے ہوگیا, او رنبوت کے اس عظیم ستارے کو تاریخ کے پنوں پر دائمی مقام مل گیا.
محترم قارئین !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبرا بھلا کہنا کوئی آج کی سنت نہیں ہے, بلکہ حق کی آواز بلند کرنے والے ہر مصلح کے ساتھ ایسا ہوتا چلا آیا ہے, ہم نےتاریخ کے حوالے سے یہ دیکھا ہے کہ جہاں سے بھی اس عظیم ہستی کے خلاف تہمتوں , او رنفرتوں کی آندھی اٹھی ہے, وہاں پر غضب الہی سے تباہی آئی ہے,جس نے بھی آپ کو اپنی بد زبانی کا موضوع بنایا ہے, اس کی نفرت نے خود اسے جلا کر خاک کیا ہے, جہاں بھی بغض وحسد کی بنا پر اس عظیم نبی کو برا بھلا کہا گیا ہے, وہاں تباہی کی کالی گھٹائیں چھائیں ہیں, اور بربادی نے بسیرا کیا ہے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی کولیجئے,ابو جہل ہوں, کہ ابولہب, عقبہ بن ابی معیط ہوں, کہ لہب بن ابی لہب , یا ان کے علاوہ دیگر اہل ضلال , کچھ دنوں ہی میں یہ خود اپنی موت مرگئے, انہیں یاد کرنے والا بھی کوئی نہیں, اور ادھر دوسری طرف جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا, اور تعصب کی عینک کو اتار آپ کی تعلیمات کوپڑھا وہ آپ کا گرویدہ ہوگیا,آپ پر جانیں لٹانے لگا, آپ کے لئے اپنے ماں باپ کو قربان کرنے لگا, عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھئے , گھر سے نکلے تھے, آپ کا قصہ تمام کرنے, لیکن جب آپ کا پر نور چہرہ دیکھا تو عداوت ودشمنی کا پورا خمار اتر گیا, اور آپ کی دہلیز پر سپر ڈالتے ہوئےنفرت کے سارے جذبات کوالوداع کہنا پڑا, یہ اس لئے ہوا کیونکہ صبر وبرداشت , قوت وشجاعت, نیز حق وحقانیت کا یہ شیدائی تمام تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے حلم وبردباری کے ساتھ ظلم کے خلاف ننگی تلوار بنا رہا, اوریک بعد دیگرے تکبر وانانیت کی چوپالوں کوڈھاتا رہا, بعض لوگ موقع ملتے ہی آپ کے قتل کے لئے تلوار ہاتھ میں اٹھاتے, اور جب آپ کی ایمانی نور سے سرشار نگاہیں انہیں سوالیہ انداز میں گھورتیں, تو یہی دشمن کپکپاتے ہوئے اپنی تلواریں میان میں کرلیتے, جو آپ کے چہرے کودنیا کا سب سے مبغوض چہرہ قرار دیا کرتا, جب اس کا سامنا آپ سے ہوتا, اسے آپ کی باتین سننے کا موقع ملتا, تو اس کے چہرے سے نفرت کی کالک اتر جاتی, اور لوگوں کومحسوس ہونے لگتا, کہ اس عظیم ہستی کی عظمت سے یہ رام ہوچکا ہے, اور اس کے اخلاق کا جادو اس پر اثر انداز ہوچکا ہے, یقینا جن لوگوں نے آپ صلى اللہ علیہ سلم کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی, او رجو آپ کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے, وہ اکثر آپ کوبرا بھلا کہتے ہیں, اور جو لوگ نفرت کی عینک اتار کر آپ کوپڑھتے ہیں, آپ سے محبت کرنے لگتے ہیں, اور آپ کو دنیا کی عظیم ہستی قراردینے میں ادنی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے, اور وہی آپ کو برا بھلا کہتے ہیں, جو خود برائی کے عادی, اور ظلم کے رکھوالے ہوتے ہیں.
مایکل ہارٹ دنیا کے سو عظیم لوگوں کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں تو آپ کو پہلے نمبر پر جگہ دیتے ہیں, اور کہتے ہیں:”میں نے محمد علیہ السلام کو پہلے نمبر پر اس لئے رکھا ہے, کیونکہ کہ تاریخ میں وہی ایک انسان ہے, جودینی ودنیاوی دونوں اعتبار سے مکمل طو رپر کامیاب ترین قائد تھے.
برنارڈ شو ( محمد) نام کی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں, جسے بعد میں برطانوی گورنمنٹ نے جلا دیا تھا, وہ لکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسائیت کا دشمن نہیں, بلکہ انسانیت کا نجات دہندہ کہنا چاہئے.میرے خیال میں اگر اسے آج کی دنیا کی قیادت مل جاتی, تو آج کی ساری مشکلات حل ہوجاتیں.
آن بیزیٹ کہتے ہیں:” یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی بھی شخص عرب کے عظیم نبی کی تاریخ پڑھے, اور اس کی زندگی کے شب وروز پڑھے, اور وہ اس کی عظت کا احساس نہ کرے, جو کہ اللہ کے عظیم رسولوں میں کے ایک رسول تھے.
نمسا کے معروف رائٹر شبرک کہتے ہیں:” انسانیت کوفخر ہونا چاہئے کہ محمد جیسے انسان اس کی طرف منسوب ہیں, جو ان پڑھ ہونے کے باوجود چند سالوں میں ایسی شریعت لے کر آئے, جس کے بلند معیار تک ہم یورپین اگر پہونچ جائیں, تو ہم بڑے خوش بخت ٹھہریں گے.
کنڈین مستشرق زویمر کہتے ہیں:” محمد ایک قابل مصلح تھے, فصیح وبلیغ تھے, جرأت مند بہادر تھے, عظیم مفکر تھے, اس کے منافی صفات آپ کی طرف منسوب کرنا بلکل روا نہیں.
تھومس کارلیل جو نوبل پرائز پا چکے ہیں, اپنی کتاب ( ہیروس) میں لکھتے ہیں:” اس زمانے میں کسی بھی شخص کے لئے بڑی عار وشرم کی بات ہے کہ وہ ایسی باتوں پر دھیان دھرے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ دین اسلام جھوٹا دھرم ہے,اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دھوکے باز, اور من گھڑت باتیں کرتے تھے, آپ عادل تھے, صدق دل تھے… ایسا لگتا ہے کہ اس کے پہلو میں روشن قندیلیں نصب ہیں, جو ہر رات چمکتی ہیں, اور آپ نور سے لبریز ہیں, آپ فطری طورپر ہی عظیم تھے, نہ کسی اسکول نے آپ کوتعلیم دی, نہ کسی معلم نے آپ کی تربیت کی, آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی.
جرمن ادیب جوتھ کہتے ہیں:” ہم یورپین اپنی ساری ثقافت, وعلم کے باوجود اس منزل تک نہیں پہونچ پائے جہاں تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسائی ملی تھی, اور شاید اس باب میں کوئی ان سے آگے نہیں بڑھ پائے, میں نے تاریخ میں انسانیت کے لئے اعلى نمونے اور آئڈیل کی تلاش کی, تو یہ آئڈیل مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نظر آیا.
یہ اور اس طرح کے ہزارہا اہل انصاف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حق گوئی سے کام لیا ہے, آپ کے عظیم مصلح ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے, روز بروز انسانیت آپ کی تعلیمات کواپناتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے, اور جو بھی سنجیدگی سے آپ کی سوانح حیات پڑھنا شروع کردیتا ہے, وہ آپ کی تفصیلات ختم کرنے سے قبل ہی آپ کا گرویدہ بن جاتا ہے, اللہ تعالى ہمیں اپنے نبی کا سچا شیدائی بنائے, اور اس کا حق اتباع ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین.

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *