کیا ہندی سینما کی موت ہوچکی ہے؟

کیا ہندی سینما کی موت ہوچکی ہے؟

ذوالفقار علی زلفی

گزشتہ سات آٹھ مہینوں سے ہندی سینما کی فلمیں باکس آفس پر مسلسل فلاپ ہورہی ہیں ـ یہاں تک رنویر سنگھ، رنبیر کپور، اکشے کمار، کنگنا راناوت اور عامر خان جیسے بڑے بڑے ستاروں کی فلمیں بھی ڈیزاسٹر ثابت ہوئی ہیں ـ دوسری جانب ساؤتھ انڈین فلمیں نہ صرف ساؤتھ میں بلکہ ہندی بیلٹ میں بھی زبردست کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں ـ اس صورتِ حال نے ایک بےچینی پیدا کردی ہے ـ سوشل میڈیا پر ہندی سینما کی موت کا قطعی اعلان کیا جارہا ہے ـ بالخصوص فیس بک، ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر چیخ چیخ کر ہندی سینما کی میت کو دفنانے/جلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ـ کیا یہ سب درست ہے؟ ـ

ہندی سینما کا خاتمہ ہوچکا ہے یا ابھی جاں باقی ہے؟ ـ اس سوال کا دوٹوک جواب دینے سے پہلے تھوڑا منطقی ہوکر صورت حال کا تجزیہ کرنا بہتر ہوگا ـ

ہندی سینما تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہے ـ بھارت میں تیلگو، تمل، کنڑ، ملیالم، بنگالی، مراٹھی، پنجابی اور گجراتی سینماؤں کی مجموعی فلموں کی تعداد بھی ہندی سے آدھی ہے ـ اتنی بڑی فلمی صنعت کیا چند فلاپ فلموں کے باعث ختم ہوسکتی ہے؟ ـ کیا بڑے بڑے ستاروں کی میگا بجٹ فلمیں صرف آج فلاپ ہورہی ہیں؟ ـ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ بالکل نہیں ـ

ہندی سینما کی تاریخ میں دور نہ جائیں ماضی قریب میں “شہنشاہ” ، “روپ کی رانی چوروں کا راجہ” ، “میلہ” اور “تری مورتی” ، “ٹھگز آف ہندوستان” جو امیتابھ بچن، انیل کپور، شاہ رخ خان، عامر خان اور جیکی شیروف جیسے بڑے بڑے ستاروں کی میگا بجٹ فلمیں ہیں باکس آفس پر ڈیزاسٹر ثابت ہوئی ہیں ـ ان بڑی بڑی فلموں کے فلاپ ہونے کے باوجود کسی نے ہندی سینما کی موت کا اعلان نہ کیا ـ پھر آج ایسا کیا انوکھا ہورہا ہے کہ ہندی سینما کے خاتمے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے؟

ہندی سینما کو واقعی چند سنگین مسائل کا سامنا ہے ـ سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد منشیات، اقربا پروری اور چند فن کاروں کی فلمی صنعت پر اجارہ داری کی بحث نے عوامی سطح پر انڈسٹری کی شبیہ خراب کرنے میں اہم کردار نبھایا ـ اس کے علاوہ زعفرانی شدت پسندوں کے پروپیگنڈے اور بائیکاٹ مہم نے بھی منفی اثرات مرتب کئے ـ بالخصوص اس خیال کو پنپنے کا موقع مل گیا کہ ہندی سینما اینٹی بھارت، پرو مسلم اور ہندو مخالف ہے ـ ان تمام عوامل نے مل کر فلمی صنعت کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ـ ایک اور مصیبت یہ ہوئی کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن اور او ٹی ٹی کی مقبولیت کے دوران بننے والی فلموں کی ریلیز میں تاخیر ہوئی، اس تاخیر کے دوران ساؤتھ کی ملٹی ژانر (ایکشن ـ تھرلر ـ کامیڈی ـ میلو ڈرامہ) مسالا فلمیں زبردست مارکیٹنگ اور پین انڈیا پروپیگنڈے کے ساتھ مارکیٹ میں آئیں اور انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران بدلتے مزاج کو مہمیز دی ـ دوسری جانب لاک ڈاؤن کے دوران بننے والی ہندی فلموں کی اکثریت سنگل ژانر کے باعث بدلے ہوئے مزاج کو متاثر نہ کرپائیں ـ

شدت پسند زعفرانی میڈیا اور سوشل میڈیا نے موقع دیکھ کر ہندی سینما پر دباؤ بڑھا دیا ـ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ساؤتھ کی ملٹی ژانر فلمیں معیار کے لحاظ سے آگے نکل چکی ہیں اور اب مستقبل ساؤتھ کا ہے ہندی سینما اپنا بوریا بستر باندھ لے ـ

اس میں کوئی شک نہیں لاک ڈاؤن بحران کے شکار فلم بینوں کو ساؤتھ کی چند فلموں بالخصوص “کے جی ایف چیپٹر 2” , “آر آر آر” اور “پشپا” نے اچھی تفریح فراہم کی ـ دوسری جانب ہندی سینما لاک ڈاؤن کے بعد متعین شدہ معیار کے مطابق اس سطح کی تفریح فراہم کرنے میں ناکام رہی ـ اس سے لیکن یہ دلیل نہیں بنتی کہ ساؤتھ کی فلموں کا معیار ہندی سے بہتر ہے ـ

ایک دلیل دی جاتی ہے کہ ساؤتھ کی فلموں کے ویژول ایفکٹ ہندی فلموں سے اعلی ہیں ـ فلموں کا تقابلی جائزہ اس کی تائید نہیں کرتا ـ عموماً اس حوالے سے “باہو بلی” کو معیار بنایا جاتا ہے ـ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اگر ویژول ایفکٹ ہی معیار ہے تو اس کی بہترین مثال “دھوم 3” (2013) ہے ـ “دھوم 3” کے ویژول ایفکٹ “باہو بلی” کی نسبت کئی گنا بہتر ہیں ـ “باہو بلی” متعدد سینز میں کمزور ہے جبکہ ہندی فلم اس معاملے میں ہر لحاظ سے معیاری ہے ـ تو معاملہ ویژول ایفکٹ کا نہیں ہے ـ

مسائل تقریباً وہی ہیں جن کی اوپر نشاندہی کی جاچکی ہے ـ ہندی سینما اس وقت اندرونی مسائل سے نبرد آزما ہے پھر اس پر مودی سرکار اور اس کے پراکسیوں کا دباؤ بھی ہے جس کی وجہ سے وہ فی الوقت بہتر کارکردگی نہیں دکھا پارہی ہے ـ ممکن ہے یہ بحران اگلے سال تک بھی برقرار رہے اور مستقبل میں شاہ رخ خان، رنبیر کپور اور سلمان خان جیسے بڑے بڑے ستاروں کی فلمیں بھی اسی انجام سے دوچار ہوجائیں جو “لال سنگھ چڈھا” کا ہوا ـ

ماضی میں میگا بجٹ پر مشتمل بڑے ستاروں کی فلموں کے فلاپ ہونے کے باوجود ہندی سینما کی موت کا اعلان اس لئے نہ کیا گیا کہ ایک تو جنوبی ہند کی فلمیں متبادل کے طور پر نہ تھیں اور دوسرا؛ زعفرانی شدت پسند میڈیا و سوشل میڈیا نہ تھا ـ ان دو چیزوں نے کنفیوژن کو ہوا دی ہے ـ وگرنہ عظیم امیتابھ بچن کی فلمیں بھی لگاتار باکس آفس فلاپ رہی ہیں ـ جنوب اتنا بڑا خطرہ ہرگز نہیں ہے جتنا بڑا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے ـ یہ بھی پیش نظر رہے جنوبی سینما کوئی اکائی نہیں ہے بلکہ وہ بھی چار فلمی صنعتوں کا مجموعہ ہے ـ ان چاروں کے درمیان بھی مسابقت جیسی صورت حال ہے ـ اگر ہندی کا مقابلہ جنوب کی کسی ایک فلمی صنعت سے کیا جائے تو یہ جسامت کے لحاظ سے ہاتھی اور چیونٹی کے درمیان مقابلہ ہوگا جو مضحکہ خیز ہے ـ

برے وقت کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ گزر جاتا ہے ـ یہ برا وقت بھی جلد یا بدیر گزر ہی جائے گا ـ برے وقت کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ گزرتے گزرتے بہت ساری چیزوں کو بدل دیتا ہے ـ ہندی سینما بھی اس بحران سے نکلنے کے بعد بدل جائے گی ـ ایک تو اس کی وہ اجارہ داری شاید برقرار نہ رہے جو 1914 سے اسے حاصل رہی ہے اب اسے ساؤتھ کی فلمی صنعتوں کو جگہ دینے پڑے گی ، یہ بھی ممکن ہے چند سال بعد بنگالی، مراٹھی یا پنجابی سینما میں سے کوئی ایک بھی مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ـ دوم؛ اب ہندی سینما ھی پین انڈیا بن جائے گی اور ساؤتھ کی مارکیٹ میں اسے بھی جگہ مل جائے گی اور ساؤتھ کا تاریخی تعصب ملیامیٹ ہوجائے گا ـ سوم؛ ہندی کو اپنے تاریخی اسٹار پاورز میں جنوبی اداکاروں کو بھی شیئر دینا پڑے گا ـ

آخری تجزیے میں زعفرانی شدت پسندوں کے پروپیگنڈوں اور اس سے متاثر بھولے فلم ناقدین کے اس اعلان کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندی سینما کا خاتمہ ہوچکا ہے ـ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ـ ایک ارتقائی عمل جاری ہے، بدلاؤ کے دوران کچھ چیزیں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں ـ جو رہ گیا سو رہ گیا لیکن جو رہ جاتا ہے وہ محض جُز ہوتا ہے اسے کُل سمجھنا محض غلط فہمی ہے ـ

(فیسبک گروپ سے شکریہ کے ساتھ)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *