عالم دین ومعلم شریعت حقیقت میں روحانی والد

  • عالم دین ومعلم شریعت حقیقت میں روحانی والد

از قلم ساجد ولی

یقینا والدین کے بعد شخصیت سازی کی اہم ذمے داری میں سب سے بڑا‌ کردار ایک استاذ یا معلم کا‌ ہوتا ہے، جس طرح سے والدین اپنے بچوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، اسی طرح ایک معلم بھی اپنے طلبہ کی ترقی کے خواب سجا کر اپنا ‌پسینہ بہاتا ہے، محنت کرتا ہے، والدین انگلی پکڑ کر چلنا ‌سکھاتے ہیں، تو معلم بلندیوں پر چڑھنا، رکاوٹیں عبور کرنا، خطرات سے لڑنا، اور ترقی کے مناروں پر فائز ہونا سکھاتا ہے، کتنے ہی بچے والدین کی دسترس سے سرکش ہوجاتے ہیں تو ایک معلم اور استاذ ہی ہوتا ہے، جو اس کے بگڑے ہوئے رخ کو ایک راستہ دیتا ہے، اور فاسد ذہنیت کو سدھارنے کا کام کرتا ہے، یقینا ہر کامیاب شخص کے پیچھے جہاں ماں باپ کی جد وجہد کارفرما ہوتی ہے، وہیں ہر ایک استاذ ومعلم کی تربیت بھی ہوتی ہے، آپ انبیاء ہی کو لے لیجیے ان کی سب سے بڑی حیثیت ایک معلم ومربی ہی کی ہوتی ہے، اور ان کی ذمے داری بھی تعلیم وتبلیغ، اصلاح وتربیت کے مدار میں گردش کرتی ہوتی ہے، ارشاد ربانی ہے ( هو الذي بعث في الأميين رسولا منهم يتلو عليهم آياته، ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة، وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين), نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں ( لم يبعثني الله معنتا ولا متعنتا ولكن بعثني معلما ميسرا), ( أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم) (إن الله وملائكته وأهل السماوات السبع والارضين، حتى النملة في جحرها، وحتى الحوت ليصلون على معلمي الناس الخير) معلم کے عظیم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتیں ہیں، اور یہ بتلاتیں ہیں کہ خیر کی تعلیم دینے والے اساتذہ دنیا میں سب‌ سے عظیم افراد ہوتے ہیں، جو اس دنیا میں اصلاح کا کام کرتے ہیں، اور لوگوں کو بھلائی سے روشناس کرانے ہیں۔
قارئین‌ کرام! اساتذہ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، ان میں‌ بعض وہ ہوتے ہیں جو آپ کو علوم وسیلہ کی تعلیم دینے ہیں، بغض علوم غایہ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں، یعنی بعض آپ کو آپ کا مقصد حیات بتلاتے ہیں، آپ کو اس زندگی کے بعد کی دنیا سے جوڑتے ہیں، یہی لوگ آپ کو حقیقی انسانیت سکھاتے ہیں، یہ آپ کی روحانی پیاس بجھانے کے لئے اپنے جسم کی توانائی نچوڑتے ہیں، انہیں دنیا ‌کوئی حیثیت نہیں دیتی لیکن یہی آپ کو اللہ کے یہاں حیثیت عطا کرتے ہیں، یہ ایک مکتب میں الف باء سے اپنے مشن کا آغاز‌ کرتے ہیں، حفظ قرآن کی بوسیدہ چٹائیوں سے ہوتے ہوئے ان کی جد وجہد قال اللہ وقال الرسول کی تپائیوں تک پہونچتی ہے، راستوں کی رکاوتوں، محنتانے کی قلت، سماجی بے توجہی کی پرواہ کئے بغیر یہ اپنے جذبے کو زندہ رکھتے ہیں، اور جب بھی قوم‌ کو خدمت ‌کی ضرورت پڑتی ہے، کان میں اذان دینے سے لے کر دفن کی آخری رسومات تک یہ اپنا ‌فرض نبھاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں انسانیت کا رکھوالا کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو، آخر حدیثوں میں وارٹین انبیاء کا لقب انہیں کے حصے میں‌جو آیا ہے۔
یقینا ‌ہمارے سماج‌ میں سب سے کمزور، اور بے وقعت ‌طبقہ انہیں لوگوں کا‌ ہے، چونکہ دین کی عزت وتکریم دن بدن گھٹتی جارہی ہے، بے دینی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے، یہ بڑی تشویش کی بات ہے، اس سے دینی تعلیم کی طرف رجحان بھی گھٹا ہے، مدارس میں وہیں طلبہ عام طور سے داخلہ لے رہے ہیں – الا ما شاء اللہ- جو معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو دینی تعلیم‌ مجبوری کی تعلیم ہو کر رہ گئی ہے، ایسی‌ صورت حال کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں کہلا سکتی، ہمیں یہ سمجھنا ‌چاہئے کہ دینی تعلیم کا حصول اور اس کی تعلیم سراپا عبادت ہے، بلکہ نفل عبادتوں میں سب سے افضل عبادت علم کی نشر واشاعت ہے، اس کے مقام ومرتبے کو ذہن نشین کر جہاں ہمارے سماج کو منظم طور پر اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہیں پر ہمارے علمی مراکز اور دینی اداروں کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے، مندرجہ ذیل سطور میں آس‌ علم کو سکھانے والے اہل فضل کی توقیر وتعظیم کے چند واقعات اسلاف کے‌ سماج‌ کے حوالے سے نقل کئے جاتے ہیں، تاکہ ان کی روںشنی میں نفسیاتی محاسبہ آسان ہوسکے، اور حالیہ تنزلی کی اصل وجہ بھی دریافت ہو سکے۔
-عروہ بن‌ مسعود نے صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا تو اپنی قوم‌ کو جاکر بتلایا کہ جتنی تکریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں، اتنی عرت نہ فارس کے لوگ کسری کی، نہ روم کے لوگ قیصر، اور نہ حبشہ کے لوگ نجاشی کی کرتے ہیں۔
– زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت بڑے قاری ہیں، ایک مرتبہ آپ اپنی سواری پر سوار ہوکر گھر سے نکلے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کی سواری کی نکیل تھام‌ کر آپ کی منزل تک آپ کو پہونچایا، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جب وجہ دریافت کی، تو آپ نے فرمایا ہمیں اسی طرح سے علماء‌ کا ‌احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاد حماد کے گھر کی طرف مارے ادب کے پیر نہیں کرتے، اور فرماتے کہ میں اپنے والدین کے لئے دعاؤں میں اپنے استاد حماد کو بھی ضرور یاد کرتا ہوں۔
-امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے درس میں ورق اتنے احتیاط سے تبدیل کرتے کہ اس کی آواز استاد کو سنائی نہ دے، اور انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔
-یحی بن یحی اللیثی رحمہ اللہ اندلس سے امام مالک کی خدمت میں علم حدیث حاصل کرنے پہونچے، اپ درس فرما رہے تھے کہ مدینہ میں ایک ہاتھی کی آمد ہوتی ہے، سارے طلبہ آپ کے درس سے اٹھ کر اس کا تماشہ دیکھنے لگے، اور آپ علم اور استاذ کے احترام میں درس چھوڑ کر نہیں گئے، بلکہ بیٹھے رہے۔
-امام احمد اپنے استاد امام شافعی کا اتنی کثرت سے ذکر خیر کرتے، کہ ان کے بیٹے عبد اللہ آپ سے شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں دریافت کرنے پر مجبور ہو جاتے کہ آخر وہ کون شخصیت تھے، آپ جواب دیتے ( شافعی سورج، اور عافیت کے مانند تھے، جن دونوں کے چلے جانے کے بعد کوئی اور شیۓ‌ ان کی بدل نہیں ہو سکتی‌۔
-ربیع بن سلیمان اپنے استاد شافعی کی ہیبت کے مارے مجلس درس میں پانی پینے کی جرات نہیں کرتے، اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے کلاس میں بیٹھے رہتے۔
-امام مسلم امام بخاری رحمہ اللہ کی نہایت عزت کرتے، آپ کے لئے دعائیں کرتے، بسا اوقات فرماتے ( اے استاذوں کے استاذ، اے محدثوں کے سردار، اے حدث کی کمزوریوں کے طبیب مجھے اپنے پیر چومنے کی اجازت دیجئے).
-امام کسائی یا اصمعی امین ومامون ابنا ھارون‌ الرشید کو تعلیم دیتے، تو یہ دونوں آپ کی جوتیاں اٹھانے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔
-سفیان بن عیینہ سے بعض لوگ کہتے کہ آپ کی سختی کی وجہ سے ہو سکتا ہے لوگ متنفر ہو جائیں، اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ دراز کرنا چھوڑ دیں، تو آپ فرماتے ، وہ احمق ہی ہو سکتے ہیں، جو میرے برے تعامل کی وجہ سے اپنے فائدے کی چیز چھوڑ دیں۔
-ابراہیم الحربی نے جب بعض لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ انہیں ان کے استاد امام احمد پر فضیلت دیتے ہیں، تو قسم کھائی کہ انہیں دوبارہ نہیں پڑھاؤنگا۔
یہ اور اس طرح کے ڈھیروں قصے یہ بتلاتے ہیں کہ اسلاف کے یہاں اپنے علماء واساتذہ کا کیا مقام تھا؟، کس طرح سے علماء دلوں پر حکمرانی کیا کرتے تھے، اور کس طرح سے علماء وعوام کا گہرا رشتہ تھا؟، آج یہ رشتہ دنیا ‌کی محبت، نیز دین بیزاری کی بنا پر نہایت کمزور ہو چکا ہے، اس لئے ہمارے سماج میں انارکی ہے، علم کا‌ فقدان ہے، دنیا طلبی، ودین سے دوری ہے، اپنی عزمت ‌رفتہ کو پانے کے لئے علم شریعت، اور علماء دین کو دوبارہ ان کا اصل مقام دینا ہوگا، وگرنہ حالت دگر گوں ہوتی چلی جائے گی، اور ایک وقت ایسا ‌آئے گا، جب جنازہ کی نماز پڑھانے والے، اور نمازوں کا طریقہ‌ سمجھانے والے نہیں ملیں گے، اور بچا ‌کچا دین بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا، اللہ ہمیں اپنے دین کا محافظ،‌ علماء اور اپنے اساتذہ کے احترام کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *