کیا‌ آل بیت النبی‌ سے صرف پانچ افراد مراد ہیں؟

کیا‌ آل بیت النبی‌ سے صرف پانچ افراد مراد ہیں؟!
از قلم ساجد ولی
آل بیت کے اطلاق کو چند افراد میں محصور کرنے کے مقصد سے بار بار حدیث کساء کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے، کوئی اس کی روشنی میں پنج تن پاک کی اصلاح کو شرعی حیثیت دینے کی کوشش کرتا ہوا ‌سنائی دیتا ہے، تو کوئی اسے بعض صحابہ کی تنقیص اور بعض آل بیت کی شان میں غلو کے طور پر بطور دلیل پیش کرتا دکھتا ہے، اور تو اور یہ روایت حضرت علی، نیز حسن وحسین کی موجودگی میں بیعت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ابطال کے لئے بطور دلیل بھی ذکر کی جاتی رہتی ہے، تو کبھی اس سے عصمت ائمہ آل بیت پر استدلال کیا جاتا ہے، چوں کہ اس حدیث کا تعلق سورۃ الحجرات کی اس مکمل آیت سے ہے، جس میں سارے خطابات قرآنیہ امہات المؤمنین کی طرف متوجہ ہیں، اس لئے سیاق آیت سے پیدا ہونے بعض واجب اشکالات کو رفع کرنے کے مقصد سے ایک طبقہ اس آیت کو بے سیاق، وغیر مرتب کہنے تک میں عار محسوس نہیں کرتا، اور بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے، کہ یہ آیت اپنے سیاق سے کاٹ دی گئی ہے، مندرجہ ذیل سطور میں اس حدیث کی وضاحت ملاحظہ ہو۔
حدیث پاک مسلم شریف اور دوسری کتابوں میں کچھ اس طرح سے ہے (حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ – وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ – قَالَا : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَةُ : خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : ” { إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا } “. جس میں اماں عائشہ روایت کرتے ہوئے کہتیں ہیں، ایک صبح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ پر کالے بالوں والی دھاری دار چادر تھی، پھر حسن بن علی آئے، آپ نے انہیں اس چادر میں داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت حسین آئے ، اور وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گئے، پھر فاطمہ آئیں، انہیں بھی آپ نے داخل کرلیا، پھر علی آئے، اور انہیں بھی آپ نے داخل فرمالیا، پھر فرمایا { إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}۔‌گویا کہ اس چادر میں بشمول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اب پانچ لوگ ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تطہیر پر مشتمل اس آیت کی تلاوت فرمایی، ظاہر حدیث سے لگتا ہے، کہ اہل بیت سے یہیں لوگ آصلا مراد ہیں، جبکہ ایسی بات نہیں ہے، اس بات کو سمجھنے کے لئے یہاں پر ہم پوری آیت کو ذکر کرتے ہیں، تاکہ مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو، اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے {{ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ(۳۲) وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)}}، یقینا ‌یہاں پر آیت مبارکہ میں خطاب قرآنی کی شروعات ہی ازواج مطہرات سے ہوئی ہے، اور جتنے بھی خطاب کے صیغے ہیں سارے نون نسوہ پر مبنی ہیں، گویا ‌کہ اگر حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ذہن میں نہ رکھا جائے، تو یہاں پر حضرت علی، فاطمہ، حسن، وحسین کے آیت کے سیاق میں داخل ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملتی، اسی لئے حضرت ‌ابن‌ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ازواج مطہرات کے متعلق نازل ہوئی ہے اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس بات پر مباہلے کے لیے تیار ہوں کہ یہ آیت امہات المومنین کے متعلق نازل ہوئی، حدیث پاک سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے، کہ آل بیت میں حضرت حسن، حسین، اور علی بھی داخل ہیں، اور اگر آیت پاک نیز حدیث مبارکہ دونوں کی روشنی میں قرآن کے مدعا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات خلاصہ ہوکر یہ آتی ہے، کہ جس طرح سے اہل بیت میں ازواج مطہرات داخل ہیں، اسی طرح سے حضرت حسن، حسین، اور عل، بھی ان میں شامل ہیں، گویا حدیث کا مستفاد‌ صرف اتنا ہے، کہ اہل بیت الطاہرین میں ازواج مطہرات کے ساتھ حس حسین علی، اور فاطمہ بھی شامل ہیں۔
قارئین کرام! ایک اشکال سابقہ تفسیر پر یہ کیا جاتا ہے کہ اگر آل بیت میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں، تو خطاب مؤنث سے مذکر میں کیسے تبدیل ہو گیا، ( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ)، جبکہ سیاق آیت خطاب مؤنث پر ہی مشتمل تھا، یقینا ‌یہ اشکال ایک فطری شئے ہے، لیکن ہمیں معلوم ہے، کہ اہل بیت میں مذکر مؤنث سب ‌شامل ہیں، جن کے سرپرست خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم‌ ہیں، اس لئے جب اہل بیت کی تطہیر کی بات آئی تو خطاب مؤنث سے مذکر میں تبدیل کر دیا گیاا، اس کا ہرگز مطلب ‌یہ نہیں ہے، کہ اس خطاب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں، یا بیویاں خارج ہوگئیں، بلکہ دونوں کی شمولیت کے ساتھ تطہیر کی بات کی گئی ہے، نہ ازواج مطہرات خارج ہیں، نہ بنات کریمات مستثنی ہیں، اور قرآنی‌ اسلوب کی معرفت رکھنے والا شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے، کہ جہاں کسی سیاق میں مردوں کو شمولیت مل جائے وہاں پر قرآنی خطاب تانیث سے تذکیر کی طرف متوجہ ہو جآتا ہے، اور یہی عربی زبان کا‌ اسلوب بھی ہے، کہ جموع میں تذکیر کو تانیث پر غلبہ ہوتا ہے۔
اس‌ حدیث کی روشنی میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش‌ کی جاتی ہے کہ یہ پانچوں اصحاب کساء نفوس مبارکہ معصوم تھے، کیوں کہ اللہ نے فرمایا ( لیطھرکم ) اور تطہیر عصمت کے معنے میں ہے، جبکہ یہاں تطہیر عصمت کے معنے میں نہیں، بلکہ تطہیر من الذنوب والمعاصی یہاں پر مراد ہے، جیسا کہ سیاق آیت، اور مستند تفاسیر کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے، اسی‌ لئے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ سوایے انبیاء کے کسی کے لئے عصمت ‌ثابت نہیں، اور کسی کو معصوم قرار نہیں دیا جا‌سکتا، چنانچہ آیت‌ مبارکہ میں اذھاب رجس کا نتیجہ ہے تطھیر، کیوںکہ حصول طہارت کے لیے رجس کو دور کرنا ‌ضروری ہے، اور آیت میں ارادہ الہیہ سے ارادہ شرعیہ مراد ہے، یعنی اللہ تعالی شرعا انہیں پاک کرنا ‌چاہتا ہے، جیسا کہ شرعا کافر سے ایمان کو چاہتا ہے، لیکن‌ کوئی ضروری نہیں کہ یہ واقع ہی ہو، یعنی اللہ ان سے خصوصا ‌یہ مطالبہ کرتا ہے، کہ وہ طہارت اختیار کریں، اور نجاست ‌حسیہ ومعنویہ سے دور رہیں،‌ کیوں کہ وہ اہل بیت نبی سے متعلق افراد ہیں، اور یہ گھرانہ دوسرے گھرانوں کی طرح نہیں۔
ایک اشکال‌ یہاں پر یہ بھی پیش کیا ‌جاتا ہے، کہ اگر آیت تطہیر سے صرف اصحاب کساء مراد نہیں، ازواج مطہرات،‌ اور دوسرے اہل بیت بھی اس فضل میں شامل ہیں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان‌ نفوس کو چادر کے اندر داخل کر یہ آیت پڑھنے کی کیا ضرورت تھی، تو اہل علم نے اس‌ کا جواب یوں دیا ہے، کہ یہ چاروں افراد آپ کے گھر میں نہیں رہا کرتے تھے، اس لئے آپ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں بعض لوگ یہ نہ سمجھ لیں، کہ یہ اہل بیت نبی نہیں، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چادر میں داخل کر اس آیت کی تلاوت فرمائی، اسی لئے جب حضرت ام سلمہ نے آپ سے کہا ‌کہ کساء کے اندر میں بھی داخل ہو جاؤں، جیسا کہ بعض روایات میں ہے، تو آپ نے فرمایا ( کن کما ‌انت،‌انت علی خیر) یعنی آپ پہلے ہی سے ان میں شامل ہیں، آپ خیر وبھلائی پر قائم‌ ہیں، اور اس‌ خوبی سے سرفراز ہیں،
خلاصہ کلام یہ کہ آیت کے اندر کہیں بھی پنج تن پاک کا عقیدہ ثابت ‌نہیں ہوتا، بلکہ آیت کی مراد کی اعتبار سے ازواج مطہرات بھی اس ارادہ تطہیر میں شامل ہیں، اور جب ازواج مطہرات شامل ہوئیں، تو دوسرے نسبی رشتے تو بدرجہ اولی شامل ہوں گے، نیز آیت میں کہیں بھی عصمت ‌فاطمہ وال علی کا مطلب ‌سمجھ نہیں آتا، نیز کہیں بھی سیاق و سباق سے یہ ثآبت نہیں ہوتا کہ ازواج مطہرات اس فضل میں شامل نہیں، یا پھر خلافت صرف علی وال علی میں محصور ہوگی، یا‌ وہی اس کے مستحق ہونگے۔
یاد رہے کہ اس مضمون کی ڈھیر ساری روایتیں ضعیف اسانید سے‌ منقول ہیں، جن میں بہت ‌ساری تفصیلات صحیح اسانید سے ثابت نہیں، انہیں بڑے مزے لے لے کر بیان کیا‌جاتا ہے، اور لمبی لمبی تقریریں کی جاتیں ہیں، یقینا ایسی غیر مستند امت میں غلط عقائد کی نشر واشاعت کا سبب بنتی ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے، کہ وہ ہمیں دین حق کا رکھوالا بنانے، اور راہ ہدایت پر چلنے والا بنائے۔ آمین۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *