بلی: ( انشائیہ)

بلی: ( انشائیہ)
لفظ بلی کا تلفظ جب کانوں سے ٹکراتا ہے تو اس کا ایک خوب صورت سا خاکہ پردۂ ذہن پر ابھرکر آتا ہے، گمان ہوتا ہے کہ یہ چھوٹی اور ننھی سی ایک ایسی مخلوق ہے جس کا جسم ململ و ریشم سے زیادہ گداز اور زلف نسواں سے زیادہ نرم و ملائم ہے، نرمی و گدازی بھی ایسی کہ انسان دیکھتے ہی اسے اپنی بانہوں میں لینے کو دوڑے۔ چار پیروں سے اپنی دم ناگنی ہلاتے ہوئے، لچیلی کمر لچکاتے اور مٹکاتے ہوئے جب یہ چلتی ہے تو منظر دیدنی ہوتا ہے، دنیا اس کی چال کی اس قدر دیوانی ہے کہ اس نے کیٹ واک (بلی چال) کو عورتوں کے لئے نمونہ بنادیا ہے، اور اس کے مقابلہ کی کئی انجمنیں سجائی ہے۔ یہ دوشیزاؤں کی پہلی اور مردوں کی دوسری پسند ہے جب کہ مردوں کی پہلی پسند خود دوشیزائیں اور عورتوں کی دوسری پسند مرد بے چارے ہیں۔ اس کی اصل غذا یوں تو مظلوم چوہے ہیں لیکن گھروں میں رکھے دودھ میں منہ مارنا اس کا شوق و ہنر ہے، یہ اس قدر معصوم صورت ہے کہ شادی و باراتی کے لئے رکھے ہوئے چار دیگ دودھ گٹک جانے کے بعد بھی بھوکی اور پیاسی معلوم ہوتی ہے، اور ایسے وقت میں اگر اسے زبان و بیان پر قدرت دے دی جائے اور کرسی حکم پر بٹھا دیا جائے تو اس جرم کا مجرم وہ یقینی طور پر شادی کے دولہے کو قرار دے اور “سو چوہے کھا کر بلی چلی حج کو” کے محاورے صد فیصد درست و صحیح ثابت کردے۔ اس کی حقیقت تو یہ ہے کہ پاس جاؤ تو غراتی ہے، پکڑو تو پنجے مارتی ہے، گویا ڈرانے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ میرے نام ( بلی ) پر ہرگز نہ جانا، میری قد و قامت پر نہ جاؤ، میں اسی چیتے کی چھوٹی بہن ہوں جسے دیکھ کر تمہارے پجامے ڈھیلے اور گیلے ہوجاتے ہیں۔ بچپن میں کئی بار اس نے میرے ہاتھوں اور چہرے پر محبت کے نقوش چھوڑے ہیں جنہیں گردش زمانہ نے مندمل کردیا ہے، لیکن اب تک اس کے دست الفت اور لمبے نوکیلے ناخنوں کے پنجے مجھے بھولے نہیں ہیں، گود میں اٹھا لو تو چیختی چلاتی ہے، محلے سر پر اٹھا لیتی ہے اور غصے میں جور و ستم کی حدیں پار کرجاتی ہے۔ اس وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسے پالتی ہے، اپنی اولاد اور اپنے محبوب کا سارا لاڈ اسی پر لٹاتی ہے، محبت، پیار، الفت و انسیت کا رشتہ اسی سے قائم رکھتی ہے، ان میں بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اسے بیت الخلاء کا راستہ بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے، پھر وہ روزانہ قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء کا رخ کرتی ہے، لیکن یہ انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ ایسی بلیاں کم یاب ہیں، اور بلیوں کی بھی یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ انہیں ایسی عادتیں لگوانے والے لوگ نایاب ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے میں شاہین باغ میں سکونت پذیر ہوں، یہاں کی بلیوں نے میرا جینا محال کردیا ہے، نہ جانے وہ پالتو ہیں یا آوارہ، آئے دن سیڑھیوں پر دولت محبت چھوڑ جاتی ہیں، گویا قضائے حاجت کے لئے انہیں سب سے مناسب جگہ میری ہی سیڑھیاں معلوم ہوتی ہیں، ان کی اس مہربانی اور محبت نے مجھے بے حد پریشان کردیا ہے، اور اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طویل عرصۂ حیات ان کے اس نقش کے محبت کے مٹانے میں ہی گزر جائے گا۔

اشتارالحق حباب
٠١ ستمبر٢٠٢٢

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *